ورلڈ کپ کے فاتحین اور فلسطین کے نام

منصور جعفر

یہ ایک یادگار فٹبال ورلڈ کپ تھا، جس میں بہت ساری چیزیں ایسی دیکھنے کو ملیں، جو پہلے کسی ورلڈ کپ میں سامنے نہ آ سکی تھیں۔ 36 برسوں بعد فٹ بال کا عالمی فاتح ارجنٹینا اس ناطے مبارکباد کا مستحق ہے

ارجنٹینا کے برسوں قبل ناتواں قرار دیے جا چکے لیونل میسی نے اپنے ملک اور قوم کو عزت سے سرفراز بھی کیا اور خود عالمی سطح پر ایک بڑے اسٹار کے طور پر ابھر کر سب کو حیران بھی کر دیا

گویا کوئی فرد ہو یا قوم، محض کسی کی طرف سے ناتواں اور کمزور قرار دینے یا بنا دیے جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کسی ڈاکٹر یا ’ڈاکٹرائن‘ کے تابع ہو کر ہمیشہ کے لیے بیمار، کمزور اور لاغر بن جاتی ہے۔ ہمت، عزم اور جہد کے سنگ ہائے میل ہمیشہ منزلوں کا پتہ دینے والے ہوتے ہیں۔ میسی نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے، اس لیے میسی، اس کی قوم اور ملک فاتح کے طور پر فٹ بال کے عالمی چیمپئین فرانس سے یہ اعزاز چھیننے میں کامیاب ہو گئے ہیں

ایک اور فاتح اس ورلڈکپ کے دوران عرب دنیا قرار پائی ہے، جس نے قطر کے توسط یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر بڑے ایونٹس کا انعقاد بحسن وخوبی کرنے کا دعویٰ رکھتی ہے بلکہ اس کی انتظامی صلاحیتیں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ صلاحیتوں کے میدان میں عرب دنیا کے مسلمان کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ صحرا اور کوہستان کے شتر بانوں نے کھیل کے میدانوں سے بہت پہلے دنیا بھر میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے تھے۔ یہ سپین اور اٹلی ان کی عظمت کے قدیمی گواہ ہیں۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

قطر میں سجنے والے ورلڈ کپ کا ایک فاتح مراکش بھی رہا۔ جس نے پہلے بیلجیم، پھر اسپین اور پھر پرتگال کو شکست دی اور سیمی فائنل تک جا پہنچا۔ مراکش کی جیت صرف اس کی جیت نہ تھی بلکہ پوری عرب دنیا کی جیت قرار پائی۔ خصوصاً جب مراکش کے کھلاڑیوں نے ’اولڈ ایج ہومز‘ کی طرف رواں دواں مغربی دنیا کو بتایا کہ مراکش اور عرب اسلامی دنیا کے کلچر میں ماؤں کی دعاؤں کی ہمراہی بڑی اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کا ہر موقع پر تشکر ان کی ثقافت کے درخشندہ پہلو ہیں۔ یقیناً قطر کے فٹبال اسٹیڈیم سے دنیا بھر کی ماؤں کے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے طور پر ایک خوشگوار پیغام گیا ہے

جب مراکش کی ٹیم نے پرتگیزیوں کو فٹبال کے میدان میں شکست سے دوچار کیا تو خود مراکش کے عوام خوشی سے نہال ہوئے بلکہ پوری عرب دنیا اور ارض فلسطین بھی شادمانی وکامرانی کے احساس سے سرشار ہو گئی۔ مراکشی ٹیم نے دنیا بھر سے آئے ہوئے تماشائیوں کے سامنے کھڑے ہو کر نوجوانوں کے انداز میں فلسطینی پرچم تھام کر عرب نوجوانوں کی طرف سے پیغام دے دیا کہ فلسطین عربوں کے ہاں آج بھی دل نشین ہے۔ مراکشی ٹیم نے فلسطینی پرچم کو فتح کے بعد تھام کر عرب نوجوانوں کے بالعموم اور فلسطینی عوام کے بالخصوص دل جیت لیے۔

جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ!

سعودی عرب کی فٹبال ٹیم نے بھی عرب دنیا اور اس کی یوتھ کو ہی نہیں پوری دنیا کو اس وقت حیران کر دیا، جب اس کی ٹیم نے فٹبال کی دنیا کے نئے ابھرنے والے چیمپیئن پر فتح مندی حاصل کی۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اپنی ابھرتی ہوئی نوجوان قیادت کے ساتھ صرف کھیل کے میدان میں نہیں ہر شعبے میں ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں ہے۔ سعودی عرب اب صرف کھیلوں کا کھلاڑی نہیں عالمی سطح پر بھی ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آ رہا ہے

فلسطینی عوام کی یہ فتح سیاسی اور جغرافیائی میدان کا عنوان بنی ہے کہ فلسطین اور اس کے پرچموں نے ورلڈکپ کھیلے بغیر جیت لیا ہے

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی اس نئی اٹھان اور آن بان کے سرخیل کے طور پر سامنے ہیں۔ وہ سعودی عرب اور عرب دنیا کے نوجوانوں میں اعتماد کے ایک حوالے کے طور پر ابھرے ہیں۔ اس نوخیز عمری میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی اہم انیشی ایٹیو لینا شروع کیے ہیں۔ ان انیشی ایٹیوز کی بدولت عالم عرب میں یوتھ ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ آگے آ رہی ہے

قطر میں عالمی کپ کے موقع پر فلسطینی پرچموں کی بہار نے فلسطین کو ورلڈکپ کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اسی سبب ایسا فاتحانہ مقام دیا ہے۔ ایسا مقام اور کامرانی کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور دیگر سر پکڑے نظر آئے۔ بلاشبہ فلسطینی اور عرب نوجوان فلسطینی پرچموں کو اٹھائے قطر کے فٹ بال سٹیڈیم کے اندر اور باہر بلاوجہ نظر نہیں آتے رہے

ان کی موجودگی بجائے خود ایک پیغام تھا کہ فٹبال کا ورلڈکپ دیکھنے آنے والی عرب نوجوان نسل صرف فٹ بال یا کھیل تماشوں پر ریجھنے والی یوتھ نہیں ہے۔ بلکہ ملی، عرب، علاقائی اور عالمی ایشوز کا گہرا ادراک رکھنے والی ایسی باشعور یوتھ ہے، جو اپنی تاریخ اور جغرافیہ کو سمجھتی ہے، کلچر سے بے بہرہ نہیں اور قومی شناخت و ذمہ داری کے احساس وادراک سے مالا مال ہے

عرب یوتھ میں شعور کی نئی اٹھان اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے نئے عالمی رجحان کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو دونوں میں کافی قربت نظر آتی ہے، جس طرح محمد بن سلمان اپنی بات عالمی طاقتوں اور قیادتوں کے سامنے بآسانی اور پورے اعتماد سے کہہ ڈالنے کا ہنر اور اعتماد ظاہر کر رہے ہیں

عرب یوتھ نے بھی ورلڈکپ کے موقع پر اسی کا اظہار فلسطین کے پرچم تھام کر کیا ہے کہ نارملائزیشن کے داعیان سے ہٹ کر عرب دنیا اپنا ایک وژن رکھتی ہے۔ اس اظہاریے سے ’واشنگٹن انسٹیٹیوٹ‘ کے جولائی اور اگست 2022 کے دوران امارات میں کرائے گئے ایک سروے کی بھی تصدیق کر دی ہے ’کہ عرب نوجوان ابراہم معاہدے کے تحت آگے بڑنے والوں کے بارے میں کم ہی اچھی رائے رکھتے ہیں۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اچھی رائے میں کمی آ رہی ہے۔‘

یقیناً یہی عرب یوتھ آنے والے برسوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہی نہیں عرب دنیا کی دوسری نوجوان قیادتوں کے علاوہ دیگر عرب فورمز کو تقویت دینے اور ان کے ذریعے اثر دکھانے کے لیے بروئے کار ہو گی۔ یہ یوتھ عرب دنیا کے سب سے قیمتی اثاثے کے طور پر مستقل کی عرب دنیا ثابت ہو گی جس سے نئی عرب قیادتیں بلا شبہ تقویت پا سکتی ہیں

عرب دنیا کے نوجوانوں کی طرف سے ورلڈ کپ کے موقعے پر ابھر کر سامنے آنے والی ان علامات کو دیکھا جائے تو یہ اسرائیل میں انتہا پسندانہ خیالات میں لتھڑی ہوئی جماعتوں اور دہشت گردی کے الزامات کے سائے میں پلی ہوئی نئی کابینہ کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے۔ جو مستقبل قریب میں مغربی کنارے کو مکمل طور پر اسرائیل کا حصہ بنانے کی تیاری اور مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی سازشوں کے لیے اپنی شروعات کر چکی ہیں

فلسطینی نوجوانوں کو قطر کے فٹبال اسٹیڈیم ہی نہیں قطر کے گلی کوچوں سے بھی محبت و گانگت کا پیغام موصول ہوا ہے۔ اس میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے بھی خوب کردار ادا کیا ہے

ورلڈ کپ کے عین عروج کے دنوں میں 29 نومبر کو اقوام متحدہ کی سطح پر سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی منانے کے دن نے عرب نوجوانوں کی اس محبت و یگانگت کو مہمیز دیا ہے۔ اس اظہارِ یکجہتی کو دیکھ کر نہ صرف یہ اسرائیل کے اندر بہت ساروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں بلکہ بہت ساری سطحوں پر اور بہت ساری جگہوں پر رہنے بسنے والوں کے دل ودماغ کی کھڑکیاں بجنے لگیں۔ جبکہ عرب ملکوں میں ایک خوشگواری کا احساس پیدا ہوا

صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ متوقع اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو ’فلسطین کاز‘ کو جس طرح نمٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پہلے فلسطینیوں سے معاملات طے کرنے کے سلسلے میں عالمی سطح پر اپنے معاہدات کے بجا آوری کے بجائے معاہدہ ابراہم کے راستے فلسطینیوں کو اپنے راستے پر لانے کا ارداہ رکھتے ہیں، وہ آسان نہیں ہوگا

فلسطینی نوجوانوں اور عوام کے ساتھ ورلڈکپ دیکھنے آنے والے نوجوانوں نے اس کا پیشگی جواب دے دیا ہے

عرب دنیا کی کھیل کے میدان میں فتوحات نے فلسطینی عوام کو بھی اپنی اس فتح میں شریک کر لیا ہے۔ مگر فلسطینی عوام کی یہ فتح سیاسی اور جغرافیائی میدان کا عنوان بنی ہے کہ فلسطین اور اس کے پرچموں نے ورلڈکپ کھیلے بغیر جیت لیا ہے۔ اس لیے دوسرے فاتحین عرب کے ساتھ فلسطین کو بھی یہ کامیابی اور جیت مبارک ہو، جس نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی کسی کے کہنے یا سمجھنے سے ناتواں نہیں ہو جاتا۔ کم از کم ہمیشہ کمزور نہیں رہتا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close