فینون نے 1956ءکے اس مہینے کا ذکر نہیں کیا جس میں جنگ آزادی ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ اسی کتاب کے پہلے باب میں اس نے یہ بتایا تھا کہ الجیریا کے پہاڑی علاقوں، دیہاتوں اور شہروں میں عام شہریوں کے بہیمانہ قتل کے جواب میں جنگ آزادی لڑنے والی قیادت نے نئی جنگی حکمت عملی ترتیب دی تھی جسے آج کی زبان میں دہشت گردی کہا جائے گا۔ غالباً اسی حکمت عملی میں الجیریا میں ایک نئے ریڈیو اسٹیشن کا قیام بھی شامل تھا۔ اس ریڈیو اسٹیشن کو ”آزاد الجیریا کی آواز“ (Voice of free Algeria) کا نام دیا گیا۔ اس اسٹیشن کے قیام میں الجیریا میں ریڈیو کا تاثر اور معنی بدل دیے۔ صرف بیس دنوں میں الجیریا میں موجود ریڈیو سیٹس کا تمام سٹاک فروخت ہو گیا۔ ہزاروں ریڈیو سیٹس کی فروخت کے باوجود نئے سیٹس کی طلب بدستور موجود رہی۔ نئے ریڈیو اسٹیشن کے قیام نے فرانسیسی حکومت کے لیے کئی نئے مسائل پیدا کردیے۔ اس نے اس ریڈیو سٹیشن کو روکنے کی کوشش کی تاہم جتنا فرانسیسی حکومت نے اسے روکنے کی کوشش کی الجیریائی باشندے اس کو جاری رکھنے کے لیے اتنے ہی سرگرم ہو گئے
فینون نے نفسیاتی مسائل کے ایک معالج کی حیثیت سے اس ریڈیو اسٹیشن کے قیام سے پہلے اور بعد میں ذہنی امراض کی صورت حال کا ایک جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس اسٹیشن کے قیام سے پہلے ریڈیو جبر کی ایک علامت سمجھا جاتا تھا۔ ذہنی مریض ریڈیو کی ایسی آوازیں سنتے تھے جو ان کے لیے پریشانی اور خوف کا سبب بنتی تھیں۔ مگر بعد ازاں ریڈیو سننا ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ بنتا چلا گیا۔ 1957ء کے بعد فرانسیسی تسلط کی کمزوری کے آثار رونما ہونے کے ساتھ ہی کئی اور ریڈیو سٹیشن بھی الجیریا میں قائم ہو گئے
استعماریت کے خلاف میڈیا کی جدوجہد ایک بالکل نئے دور میں آج داخل ہو چکی ہے۔ میڈیا کی لامحدود رسائی، ذرائع ابلاغ کا جدید ترین آلات سے لیس ہونا اور حکومت کے کنٹرول سے نکل کر کاروباری اداروں کے کنٹرول میں چلے جانا مگر ان سب سے زیادہ سوشل میڈیا کی موجودگی نے استعمار اور محکومین کی جنگ میں ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال اختیار کر لی ہے۔ جنوری 2011ع میں یمن سے شروع ہونے والی ”عرب بہار“ نامی تحریک فوراً قاہرہ کے التحریر سکوائر تک پہنچ گئی۔ یہ تحریک بغیر کسی قیادت کے ایک نمایاں مقام اور چند اہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بعض ماہرین کے نزدیک مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں پھیل جانے والی اس تحریک میں سوشل میڈیا کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔ (Wolfsfeld et al، 2013 ) تاہم حتمی بات کہنا بہرحال مشکل ہے لیکن بریگزٹ پر برطانیہ میں منعقد ہونے والے ریفرینڈم میں فیس بک کا کردار اب حتمی طور پر سامنے آ گیا ہے۔ (Scot، 2019) فینون کی اس کتاب کی اشاعت 1959ء کے بعد سے میڈیا میں آنے والی تبدیلیوں، استعمار اور محکوم دونوں کی میڈیا تک رسائی اور کنٹرول اور سوشل میڈیا کی ایجاد نے فینون کی پیش کردہ تصویر کو آج کسی بھی صورت میں قابل استعمال نہیں چھوڑا سوائے اس کے کہ ہم اس دور میں میڈیا کے استعمال کا سیاسی اور انفرادی اثر آج وضاحت سے دیکھ سکتے ہیں
قریب المرگ استعماریت کے تیسرے باب کی اہمیت کے دو پہلو اہم ہیں۔ ایک پہلو تو تاریخی ہے اور یہ بات بتاتا ہے کہ کسی بھی خطے میں استعماریت اور اس کے خلاف جدوجہد اس معاشرے میں موجود خاندان کے ڈھانچے کو کس طرح تبدیل کرتی ہے۔ اس باب کی اہمیت کا دوسرا پہلو نسبتاً زیادہ وسیع ہے۔ معاشرے پر استعماریت کا قبضہ اور اس سے رہائی صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے جو وقوع پذیر ہوا اور گزر گیا۔ استعماریت کا قبضہ اور اس سے رہائی معاشرتی نشوونما کا ایک مرحلہ سمجھنا چاہیے۔ جس سے گزرنے کے بعد معاشرتی تاروپود میں آنے والی تبدیلیوں کو اس کے حوالے سے ہی دیکھنا چاہیے۔ ان کو منفی یا مثبت تبدیلیوں کے طور پر دیکھنے کی بجائے معاشرتی نمو کے ایک مرحلے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے طور پر دیکھنا چاہیے
الجیریا پر استعماریت نے دیگر اداروں کی طرح خاندان کے ادارے کو تبدیلی کے کئی مراحل سے گزرنے پر مجبور کر دیا۔ خاندان میں باپ اور مرد کی حیثیت میں نمایاں طور پر تبدیلی واقع ہوئی۔ اکثر خاندانوں کے افراد قتل ہوئے، تشدد کا نشانہ بنے، یا انھیں ہجرت کرنا پڑی۔ فینون ان ساری تبدیلیوں کو ایک سانحہ سمجھنے کی بجائے معاشرتی طور پر ان کو لازمی تبدیلیوں کا حصہ سمجھنے کا مشورہ دیتا ہے
اس کتاب کا چوتھا باب، عوام کے جدید طبی نظام (ایلوپیتھک) اور اس نظام میں تجویز کی جانے والی ادویات کی جانب رویوں کے بارے میں ہے۔ الجیریا کے عوام کا یہ رویہ ہمارے لیے بہت مانوس ہے۔ پاکستانی معاشرے نے مغربی طب کے بارے میں کرونا وبا کی جانب جو رویہ اختیار کیا وہ اس سے بہت مماثلت رکھتا ہے جس کا فینون نے اس باب میں ذکر کیا ہے۔ فینون خود یورپی نظام میں تربیت یافتہ طبیب تھا۔ الجیریا کے عوام ایک میڈیکل ڈاکٹر، انجینئر، استاد اور پولیس کے ملازم کو جس شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے فینون کو بھی اسی شک اور شبہ کی نگاہ سے دیکھا گیا ہو گا۔ محکومین استعمار کی جانب سے آنے والی ہر شے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں استعمار کی جانب سے آنے والی ہر شے ان پر کنٹرول حاصل کرنے کا ایک ہتھیار ہے۔ فینون محکومین کی اس معذوری کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ معروضی حقائق کو دیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ لیکن اس معذوری کا سارا الزام ایک مرتبہ پھر وہ استعماریت کی پیدا کردہ صورت حال پر ڈالتا ہے۔ فینون کی اس باب میں بیان کردہ الجیریا کی صورت حال کو اگر کرونا وبا کے بارے میں پاکستانی عوام کے رویے کو ذہن میں رکھ کر پڑھا جائے تو صورت حال بہت دلچسپ ہو جاتی ہے اور وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے
فینون نے بیان کیا ہے کہ الجیریا کے ہسپتالوں میں ہونے والی ہر موت کو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فرانسیسی ڈاکٹروں کی غفلت کی گردش کرتے ہوئے قصے لوگوں کے نظام صحت پر اعتماد اور اعتبار کو اور زیادہ ٹھیس پہنچاتے تھے۔ لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ معاشرے میں موجود روایتی اطباء سے اپنا علاج کروائیں۔ ان کی اس روش کو فرانسیسی ان کی قدامت پسند اور غیر ترقی یافتہ سوچ قرار دیتے تھے۔ صفائی ستھرائی سے متعلق دی گئی ہدایات اور بیماریوں سے بچاؤ کی تدابیر کو نہ صرف نظر انداز کر دیا جاتا تھا بلکہ ان کو استعماری کنٹرول کا ہتھکنڈہ سمجھا جاتا تھا۔ فینون الجیریا کے محکومین کا موازنہ ایک عام غیر استعماریت زدہ معاشرے کے مریضوں سے کرتا ہے جہاں مریض ہسپتال کا رخ پورے اعتماد کے ساتھ کرتا ہے اور اپنے آپ کو خوشی اور اعتماد کے ساتھ علاج کے لیے ڈاکٹر کے حوالے کرتا ہے۔ وہ یہ توقع کرتا ہے کہ علاج کے دوران میں اسے چند تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا لیکن ایسا اس کے بھلے کے لیے ہو گا۔ وہ یہاں ایک سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ایک جرمن قیدی (مریض) ایک فرانسیسی ڈاکٹر پر ویسا اعتماد کر سکے گا جیسا وہ جرمن ڈاکٹر پر کرتا ہے۔ جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔ فینون کا اصرار ہے کہ استعمار زدہ معاشروں میں بداعتمادی کی فضا اس سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ الجیریا کے ہسپتالوں میں اچانک مرنے والے قیدیوں کی موت کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ سمجھا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں
عام الجیریائی باشندہ ہسپتال سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں کے سوالوں کا مختصر اور ناکافی جواب دیتا ہے۔ جسمانی معائنے پر مقامی باشندوں کے جسم اکڑ جاتے ہیں۔ دوبارہ معائنے کی تاریخ پر اکثر مریض غیر حاضر رہتے ہیں۔ دوران علاج تجویز کردہ ادویات چھوڑکر روایتی دوائیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ ان ادویات پراصرار اور ان کی افادیت پر یقین کو بنیادی طور پر اپنے کلچر سے وفاداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ استعمار کا تجویز کردہ علاج صرف اس صورت میں قبول کیا جاتا جب مریض ہر دوسرے علاج سے مایوس ہو جاتا۔ مریضوں کی یہ ہچکچاہٹ صرف فرانسیسی ڈاکٹروں سے مخصوص نہیں تھی بلکہ فینون جیسے غیر فرانسیسی ڈاکٹروں کے طرف بھی یہی رویہ رکھا جاتا کیونکہ وہ بھی غیر روایتی طریقہ علاج استعمال کرتا تھا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ بے سبب نہیں تھا۔ ڈاکٹروں کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ معاشرے کے طبقہ امراء سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی دولت اور جاگیروں کے قصے زبان زد عام تھے اور استعماری نظام میں توسیع ان کے مفاد میں تھی۔ ساٹھ سال سے زائد پہلے لکھی جانے والی اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر اور فارماسسٹ مریضوں کے بارے میں معلومات خفیہ ایجنسیوں کو فراہم کرتے تھے۔ الجیریا کے ہسپتالوں میں پولیس کے جاسوس ہر وقت موجود رہتے۔ عدالتوں میں پولیس تشدد کے شکار افراد کے مقدمات میں ڈاکٹر پولیس کا ساتھ دیتے۔ تشدد کے نئے طریقے اور اس کے لئے استعمال ہونے والی نئی ادویات سے ڈاکٹر پولیس اور فوج کو آگاہ رکھتے۔ الیکٹرک شاکس اور تشدد کے کئی طریقے ڈاکٹروں ہی کے تجویز کردہ تھے
جنگ آزادی کے آخری مراحل تک الجیریا کے قائدین طبی عملے پر عوام کے عدم اطمینان کا ادراک کر چکے تھے۔ اسی لیے انھوں نے الجیریا کے ڈاکٹروں پر مشتمل اپنا ایک نظام صحت تشکیل دے لیا تھا۔ عوام نے اس نظام صحت کو زیادہ اعتماد سے استعمال بھی کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی روایتی طریقوں کے علاوہ انھوں نے صحت کی جدید سہولیات سے استفادہ بھی شروع کر دیا
فینون نے اس پورے باب میں دواساز کمپنیوں کے کردار کو زیادہ اجاگر نہیں کیا۔ شاید وہ کمپنیوں کی ان کارگزاریوں سے واقف نہیں تھا، جن تک بعد کے محققین نے رسائی حاصل کی۔ 2019ء میں شائع ہونے والی لورینس مونیس کی کتاب The Colonial Life of Pharmaceuticals میں فرانس کے زیر تسلط ویتنام میں دواساز کمپنیوں کے کردار کا ایک مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب شواہد کے ساتھ یہ دکھاتی ہے کہ ادویات کس طرح اس سماجی تبدیلی کا سبب بنتی ہیں، جو استعماریت کسی معاشرے میں لانا چاہتی ہے۔ عالمگیریت (globalisation) کی مضبوط گرفت نے دوا ساز کمپنیوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ دنیا کی کمزور اقوام کے باشندوں پر اپنے تجربات کر سکیں۔ صحافی سونیا شاہ کی2006ع۔ میں شائع ہونے والی کتاب The Body Hunters میں ان تجربات کی تفصیل بھی بتائی گئی ہے۔ ڈاکٹر ہیلن ٹیلی (Hellen Tilley) نے 2016ع میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں استعماریت کی صحت کے شعبے میں کارگزاری کے چار مراحل گنوائے ہیں۔ پہلے مرحلے میں وہ ان مضر طریقوں کا جائزہ لیتی ہے، جن کے ذریعے محکوم افریقی عوام کو جسمانی طور پر ضرر پہنچایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ متعدد متعدی بیماریوں کے شکار ہو گئے۔ دوسرے مرحلے پر مصنفہ استعماریت کے روا رکھے گئے عدم مساوات پر مبنی اس سلوک کی وضاحت کرتی ہے، جو مقامی اور یورپی باشندوں کے مابین رکھا جاتا ہے۔ برصغیر میں برطانوی استعمار یت نے ذہنی مریضوں کے لیے قائم کردہ شفاخانوں میں یہی فرق روا رکھا۔ (Sohail et al، 2017 ; Ernst، 1991 ) تیسرے درجے پر استعماریت محکوم ملکوں کے عوام پر نئی ادویات پر تحقیق کے لیے ان پیشہ ورانہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری بھی نہیں کرتی، جن کی وہ اپنے معاشروں میں سختی سے پابندی کرتی اور کرواتی ہے۔ چوتھے مرحلے پر یہ مقالہ دکھاتا ہے کہ استعماریت کس طرح روایتی طریقہ ہائے علاج کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ کم و بیش یہی باتیں فینون نے 1959ء میں الجیریا کے نظام صحت اور طب کے شعبے کے حوالے سے کی تھیں۔ اس کتاب کا آخری باب الجیریا کی جنگ آزادی کی جانب غیر مقامی افراد اور گروہوں کے رویے کے بارے میں ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس جنگ کو دور یا نزدیک سے دیکھ رہے تھے
فینون ان یورپی ڈاکٹروں اور دانشوروں کی بات کرتا ہے جو استعماری راج اور اس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فینون ان کو استعمار کا طرف دار سمجھتا ہے۔ یہ یورپی دانشور جنگ آزادی کی کامیابی کو تادیر ایک دیوانے کا خواب سمجھتے رہے۔ یورپ کے جمہوریت پسند شہری بھی ان حالات کو سمجھنے سے قاصر تھے جن کے سبب الجیریا کی آزادی کا حصول جنگ کے بغیر ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ ایسے حالات سے یہ جمہوریت پسند یا تو ناواقف رہتے یا ایسی خبریں فرانس میں ان تک پہنچنے ہی نہ پاتیں۔ لیکن جب فرانسیسی باشندے الجیریا کی جنگ آزادی کے سپاہیوں کے تشدد کا نشانہ بنتے تو فرانس کے جمہوریت پسند دانشور اس کی مذمت کیے بغیر نہ رہ پاتے اور الجیریا کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کو وہ حل تجویز کرتے جو یقیناً ان کی شکست پر منتج ہوتے۔ الجیریا میں بائیں بازو کے دانشور بھی مسلح جدوجہد کی مذمت کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی ہمدردیاں الجیریا کی عوام کے ساتھ مگر حمایت فرانس کے ساتھ تھی۔ ان کے اسی دوغلے پن کے سبب گو یہ الجیریا کے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات رکھتے تھے مگر فرانس میں ان کو پھر بھی ”عرب“ ہی سمجھا جاتا تھا
الجیریا میں آباد یہودی الجیریا کی آزادی کے سوال پر منقسم تھے۔ تاہم جنگ آزادی کے قائدین نے 1956ء میں ان کے تحفظات دور کر کے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس باب میں فینون نے انتہائی کامیابی سے کسی بھی استعمار زدہ علاقے میں رہنے والی اقلیتوں کا جنگ آزادی میں کردار واضح کیا ہے۔ یہ اقلیتیں جس طرح استعمار کے مقابل کھڑے ہونے میں خوف محسوس کرتی اور فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہوتی ہیں یہ باب اس امر کے بیان پر مبنی ہے
اس کتاب کے نتیجہ کلام کے طور پر آزادی سے قبل آزادی کی خوشخبری اور ذمہ داریوں کے طرف اشارہ کرتے ہوئے فینون کہتا ہے ”اس کتاب میں ہم نے الجیریا کے انقلاب کے کچھ پہلووں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس انقلاب کی انفرادیت اور خوبصورتی الجیریا کے عوام کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک شمار کی جائے گی۔ اس قوم کی اس تحریک نے ہر طرح کی نفسیاتی اور جذباتی غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ایک جدید اور جمہوری معاشرے کے طور پر اب یہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہے“ (Fanon، 165۔ p۔ 179 )
افتادگان خاک ( The wretched of the earth)
فینون کی تیسری ”کتاب افتادگان خاک“ اس کی وفات سے چند مہینے پہلے مکمل اور شائع ہوئی۔ فینون کی یہ سب سے زیادہ مشہور ہونے والی کتاب ہے۔ آج کی تاریخ تک اس کے بائیس تراجم کی اطلاع ہے۔ پاکستان میں اس کا اردو ترجمہ ”افتادگان خاک“ کے نام سے محمد پرویز اور سجاد باقر رضوی نے 1969ء میں کیا تھا۔ سندھی زبان میں اس کا ترجمہ عبدالوحید آریسر نے 1983ء میں کیا جو ”مٹی ہانا ماٹھو“ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا سب سے پہلا ترجمہ 1962ء میں سویڈش میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انگریزی میں فیرنگٹن نے اس کا ترجمہ1963ء میں کیا۔ یہی وہ ترجمہ ہے جو اب تک سب سے زیادہ پڑھا گیا۔ انگریزی زبان میں اس کا دوسرا ترجمہ2004ء میں شائع ہوا یہ رچرڈ فلکوکس نے کیا تھا۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ1963ء میں جبکہ فارسی ترجمہ1970ء میں شائع ہوا۔ اس کا فارسی ترجمہ ڈاکٹر علی شریعتی اور ایران کے سابق صدر ابوالحسن بنی صدر نے مل کر کیا تھا۔
افتادگان خاک کے پہلے انگریزی ترجمہ میں فرانسیسی ژاں پال سارتر کا مقدمہ شامل تھا۔ جبکہ دوسرے ترجمہ میں ساختخ کے ساتھ ساتھ ہومی۔ کے۔ بھابھا کا پیش لفظ بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے یہ دوسرا ترجمہ زیادہ قیمتی ہو گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج bhi ”افتادگان خاک“ کا جائزہ ژاں پال سارتر کے مقدمے کے بغیر لینا ناممکن اور نامناسب لگتا ہے
سارتر کے اس مقدمے کے بارے میں اس کی اپنی رائے یہ تھی کہ فینون کی کتاب کو اس کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فینون نے اس کتاب میں یورپی باشندوں کو مخاطب ہی نہیں کیا شاید اسی لیے سارتر کا پورا مقدمہ یورپ کے باشندوں کو مخاطب کر کے لکھا گیا ہے۔ سارتر بار بار یورپ اور اس کے باشندوں کو مخاطب کر کے باور کراتا ہے کہ ایک یورپی باشندے کے طور پر میں نے ایک دشمن کی کتاب ہتھیالی ہے اور اس میں اپنا علاج ڈھونڈ رہا ہوں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اس کتاب کو پڑھیں۔ ”اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد تمھیں روشنی کے گرد کچھ اجنبی نظر آئیں گے۔ ان کے قریب جاؤ اور ان کی باتیں سنو۔ شاید وہ تمھیں دیکھ لیں مگر وہ تمھیں نظر انداز کر کے اپنی آواز نیچی کیے بغیر اپنی گفتگو جاری رکھیں گے۔ ایسے میں تم یہ کتاب کھڑکی سے باہر پھینکنا چاہو گے کیونکہ یہ تمھارے بارے میں نہیں ہے۔ لیکن دو وجہ سے تمھیں یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔ ایک فینون نے اپنے بھائیوں کے لیے تمھارا تجزیہ کیا ہے۔ اور ان کے لیے تمھاری بیگانگی کی وجوہات بیان کی ہے۔ اس کتاب کا فائدہ اٹھاؤ اور اپنے آپ کو دریافت کرو۔ ہمارے ظلم کے شکار افراد ہمیں اپنے زخموں اور بیڑیوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔ گو تمھارا استعمار اور استعماریت سے تعلق نہیں ہے مگر تم ان سے بہتر بھی نہیں ہو۔ دوسری وجہ اس کتاب کو پڑھنے کی یہ ہے کہ اینگلز کے بعد فینون وہ ہے جس نے تاریخ میں دایہ گیری کا کام کیا ہے۔ اس نے یہ کام اس لیے اپنے ذمے نہیں لیا کہ وہ خود بچپن میں تکلیف دے تجربات سے گزرا ہے بلکہ وہ لبرل منافقت کی اس جدلیات کو ہمارے سامنے کھولنا چاہتا ہے جس نے اس کو ویسا بنا دیا جیسا وہ آج ہے“ ۔ (سارتر کا مقدمہ صفحہ xlix) جاری ہے
بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
-
فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)
-
فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (5)