جرم و سزا اور قید خانوں کی تاریخ

ڈاکٹر مبارک علی

تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی سوسائٹی میں نئے جرائم کی تعداد بھی بڑھی۔ جرائم کی روک تھام کے لیے قانون کے ذریعے سزائیں مقرر کی گئیں۔ مجرموں کو خطرے کا باعث سمجھتے ہوئے انہیں عام لوگوں سے علیحدہ رکھے جانے کا فیصلہ ہوا

اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مجرموں کو علیحدہ رکھ کر ان کی اصلاح کی جا سکے گی۔ قدیم اور عہدے وسطیٰ میں قید خانوں کا رواج نہ تھا۔ عام قیدی، جن کا تعلق اُمراء کے طبقے سے ہوتا تھا، ان کو قلعے کے تہہ خانوں میں قید کر دیا جاتا تھا۔ جہاں سے وہ یا تو معافی کے بعد رہا ہوتے تھے یا قید کی حالت ہی میں مر جاتے تھے

ہندوستان میں قید خانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عام مجرموں کو کہاں رکھا جاتا تھا، اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن قیدی اُمراء کو یا تو کسی امیر کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نگہداشت کرے یا پھر انہیں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا جاتا تھا

روایت یہ تھی کہ سازشی اور خطرناک قیدیوں کو روز صبح پوست کا پانی پلایا جاتا تھا، جس کے زہر سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اورنگزیب نے شہزادہ مراد کو یہیں قید کیا اور قید خانے میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ جب داراشکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو گرفتار کر کے لایا گیا تو فرانسیسی سیاہ برنیر کے مطابق شہزادے نے اپنے چچا یعنی اورنگزیب سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے پوست کا پانی نہ پلایا جائے۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں ذکر کیا ہے کہ کہ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں قید رکھا جائے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے

خطرناک مجرموں، باغیوں اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو فوراً سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ ابن بطوطہ نے محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ دربار کے باہر جلاد تیار کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے حکم پر مجرم کا سر اُڑا دیتے تھے۔ ایک ڈچ سیاہ نے جہانگیر کے دور میں بیان کیا ہے کہ عام مجرموں کو گھسیٹتے ہوئے لایا جاتا تھا اور پھر ان کو فوری قتل کر دیا جاتا تھا

یورپی ملکوں میں بھی ابتدائی زمانے میں قید خانے کا رواج نہ تھا۔ وہاں بھی قلعوں کو بطور قیدخانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے پیرس میں بیسٹل کا مشہور قلعہ تھا، جہاں سیاسی قیدی رکھے جاتے تھے۔ والیٹر کو بھی وہاں بطور قیدی رکھا گیا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے موقع پر 14جولائی 1789ء کو مجمعے نے قلعے پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑایا اور قلعے کو مسمار کر دیا

برطانیہ میں قیدی اُمراء کے لئے ٹاور آف لندن کی عمارت تھی، جہاں انہیں قید رکھا جاتا تھا اور سزائے موت کی صورت میں باہر ایک چبوترے پر پبلک کے سامنے اس کی گردن اُڑا دی جاتی تھی اور جلاد اس کے سر کو اُٹھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدار یا سازشی کا سر ہے۔ Thomas More کو یہاں قید بھی رکھا گیا اور 1535ء میں سزائے موت بھی دی گئی

انیسویں صدی میں برطانیہ میں نئے قید خانوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ ابتدا میں، جو قید خانے تعمیر ہوئے، ان کی عمارتیں بڑی شاندار تھیں۔ کوئی عمارت رومی طرز تعمیر کا نمونہ تھی اور کوئی گوتھک سٹائل کی۔ اس پر عوام میں سخت احتجاج ہوا کہ پبلک کے ٹیکسوں کا غلط استعمال کیا گیا۔ قیدیوں کے لئے ایسی شاندار عمارتوں کی ضرورت نہیں ہے

اس تنقید کے بعد قید خانے کی عمارتوں میں تبدیلی آئی۔ پہلے یہ شہر کے درمیان میں ہوتی تھیں لیکن بعد میں قید خانوں کو شہر کے باہر تعمیر کرایا گیا۔ قید خانوں کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کی وہ کالونیاں تھیں، جنہیں پینل کالونیز کہا جاتا تھا۔ یہاں معمولی جرائم کے قیدیوں کو بھی جلاوطن کر دیا جاتا تھا تاکہ ان سے بیگار کا کام لیا جائے

وہ سڑکوں کی تعمیر کریں، جنگلات صاف کر کے زراعتی زمین تیار کریں۔ ان میں خاص طور سے آسٹریلیا قابل ذکر ہے، جہاں برطانیہ نے بڑی تعداد میں مجرموں کو بھیجا۔ فرانس کی اس پالیسی کے بارے میں ایک فلم بنائی جو Papilon کے نام سے ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ فرانس کی Penal Colony میں قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا تھا۔ ان کے فرار ہونے کے امکانات بھی بہت کم تھے

ہندوستان میں انگریزی حکومت کے دوران یہاں بھی قیدیوں کو دوسری برطانوی نوآبادیات میں جلاوطن کرنے کی پالیسیوں پر عمل ہوا۔ اس موضوع پر Isolation کتاب، جسے Carolyn Strange اور Alison Bashfold نے مرتب کیا ہے۔ برطانیہ نے قیدیوں کے سلسلے میں جو پالیسی اختیار کی تھی، ایک تو یہ تھی کہ پورے برطانوی علاقے میں قید خانے تعمیر کئے جائیں

دوسرا طریقہ کار یہ تھا کہ مجرموں کو جلاوطن کر کے برما، سنگاپور اور موریشس میں جلاوطن کر دیا جائے۔ جلاوطنی کے خلاف ہندوؤں میں سخت ردعمل ہوا کیونکہ ایک تو ان کے لئے سمندر پار جانا ممنوع تھا۔ دوسرے ہندوستان سے باہر اُونچی ذات کے ہندوؤں کے لئے کھانے پینے کی تکالیف تھیں۔ وہ دوسری ذات کے لوگوں سے ملنے پر مجبور تھے لیکن حکومت کے جبر کے ہاتھوں وہ مجبور تھے

1789ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈمان کے جزائر کو دریافت کیا تو وہ اس وقت جنگلوں سے بھرا ہوا تھا اور ان جنگلوں میں کچھ مقامی قبائل رہتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پر قبضے کے بعد وہاں آہستہ آہستہ جنگلوں کو صاف کر کے کچھ عمارتوں کو تعمیر کیا اور انیسویں صدی میں جاکر انہوں نے انڈمان جزائر کو پینل کالونی بنانے کا فیصلہ کیا

یہاں آنے والے سیاسی قیدیوں میں جنوبی ہندوستان کے Moplas تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد باغیوں کی اکثریت کو یہاں بھیجا گیا۔ سندھ کے آرکائیو محکمے میں ان قیدیوں کی فہرست ہے، جنہیں کراچی کی بندرگاہ سے انڈمان لایا گیا تھا۔ 1860ء کی دہائی میں جب ہندوستان میں باغیوں پر مقدمے چلائے گئے تو ان کو بھی انڈمان جزائر میں جلاوطن کیا گیا۔ ان ہی میں سے ایک شخص جعفر تھانیسری تھے، جب وہ اپنی سزا مکمل کر کے واپس آئے تو انہوں نے اپنے تجربات کو ”کالا پانی‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا، جو اپنی جگہ بہت دلچسپ ہے

1872ء میں انڈمان جزائر ہی میں ہندوستان کے Viceroy لارڈ میو کو ایک پٹھان نے قتل کر دیا تھا۔ انڈمان جزائر میں ساورکر بھی ایک قیدی کی حیثیت سے رہے تھے۔ ان کی وہ کوٹھری، جہاں انہیں قید کیا گیا تھا، اب سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ ساورکر برطانوی حکومت سے معافی مانگ کر رہا ہوئے۔ اس کے بعد یہ قوم پرست ہندوستانی سے انتہا پسند ہندو ہو گئے اور ہندوتوا کا نظریہ پیش کیا۔ یعنی جن مذاہب کے ماننے والے اگرچہ ہندوستان میں پیدا ہوئے مگر ان کے مذہبی مقامات ہندوستان سے باہر ہیں، وہ ہندوستانی قوم کا حصہ نہیں ہو سکتے ہیں

آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے انڈمان جزائر کی جیل کو میوزیم بنا دیا گیا، جہاں آزادی کے ہیروز کے بارے میں تفاصیل جمع کرکے رکھی گئیں

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ برطانیہ اور فرانس کی طرح ہالینڈ نے جنوبی افریقہ میں روبن آئرلینڈ میں قید خانہ تعمیر کیا تھا۔ Apartheid حکومت نے Nelson Mandela کو یہاں 25 سال تک قید میں رکھا تھا، جہاں اس سے پتھر تڑوائے گئے تھے اور معمولی غلطی پر قید تنہائی میں بھی رکھا گیا۔ (تفصیل کے لئے دیکیھے Road To Freedom) جو منڈیلا کی یادداشتوں پر مشتمل ہے

یورپی حکومتوں کی یہ پالیسی بھی رہی ہے کہ ایک فرد کے بجائے تمام باغیوں کو سزا دی جائے۔ اس مقصد کے لئے کیمپ قائم کئے جاتے تھے، جنہیں خاردار تاروں سے گھیر دیا جاتا تھا اور پھر یہاں مخالف کمیونٹی کے مرد، عورتوں اور بچوں کو قید میں رکھا جاتا تھا، جو کنسٹریشن کیمپ (Concentration Camp) کے نام سے مشہور ہیں

اس قسم کا پہلا کیمپ 1896ء میں اسپین نے کیوبا میں قائم کیا تھا۔ برطانیہ نے Boers War، جو 1899-1902ء تک جاری رہی، اس میں بورز کے لوگوں کو قید کر کے رکھا گیا تھا۔ 1914ء کی پہلی جنگ کے دوران امریکہ نے جاپانیوں کو کیمپوں میں قید کیا تھا

1942ء کی بغاوت کے بعد برطانوی حکومت نے حر خاندان کو بھی کیمپوں میں رکھا تھا۔ اسی قسم کا ایک کیمپ حیدر آباد سندھ میں تھا۔ اس جگہ کو حر کیمپ کہا جاتا تھا۔ ہٹلر نے کیمپوں کے اس طریقہ کار کو امریکہ سے سیکھا تھا۔ ان کیمپوں میں اس نے کمیونسٹوں، خانہ بدوشوں اور یہودیوں کو نظر بند کیا تھا۔ انہیں ہی کیمپوں میں اس نے گیس چیمبر بنائے تھے، جہاں قیدیوں کو زہریلی گیس کی مدد سے مارا گیا تھا

جرم و سزا کی یہ طویل تاریخ ہے۔ امریکہ نے تجارت کی طرح جیلوں کی بھی تجارت شروع کر دی ہے۔ اب وہاں نجی کمپنیاں جیل تعمیر کرتی ہیں اور عدالتیں وہاں مجرموں کو بطور قیدی بھیجتی ہیں، جن سے محنت و مشقت کا کام لیا جاتا ہے۔ جیلوں کی یہ تجارت انتہائی منافع بخش ہے کیونکہ اکثر قیدی غریب ہوتے ہیں اور اپنی ضمانت کی رقم ادا نہیں کر سکتے ہیں، اس لئے انہیں قید کی حالت میں رہنا پڑتا ہے

اگر ہم پاکستان کی جیلوں کا ذکر کریں تو ان کی حالت بے انتہا افسوس ناک ہے۔ قید خانوں میں ضرورت سے زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے جگہ کی کمی ہے۔ جیل مینوئیل پر بھی عمل نہیں ہوتا ہے۔ اس ماحول میں قیدی اصلاح کی بجائے پہلے سے زیادہ مجرمانہ ذہن کے مالک ہو جاتے ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close