پاکستان ’کچرے کا گھر‘ کیوں بن رہا ہے؟

عارفہ رانا

ہر ملک میں ہر طرح کا کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن اس میں کچھ کچرے کی اقسام ایسی ہیں، جو ری سائیکل ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب کچھ اقسام ایسی بھی ہیں، جو ماحول دوست نہیں ہیں، ان کو ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا

ایسے کچرے کو تلف کرنے کے لیے مخصوص طریقہ کار اپنانا پڑتا ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ممالک ویسٹ مینجمنٹ پر بہت زور دیتے ہیں۔ ویسٹ مینجمنٹ کا مطلب اس کچرے یا فضلے کو محفوظ اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانا ہے، کیونکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے

بڑھتی ہوئی فضلہ کی سطح کے اہم محرک آبادی میں اضافہ، تیزی سے شہروں کا آباد ہونا، اقتصادی ترقی، غیر رسمی شعبے کی ترقی، صنعتی تنوع اور صحت کی دیکھ بھال کی وسیع سہولیات کی فراہمی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے تیس برسوں میں، یہ عوامل عالمی فضلہ کی پیداوار میں 3.40 بلین ٹن اضافہ کریں گے

ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کچرے کے ڈھیر کا انتظام ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کوڑے سے متعلق خطرات کا زیادہ خطرہ ہے کیونکہ ان کا 90 فیصد فضلہ اکثر غیر پائیدار طریقے سے ضائع کر دیا جاتا ہے

یہ طرز عمل صحت عامہ، ماحولیاتی اور آب و ہوا کے متعدد مسائل کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان بھی ان چیلنجز سے محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان سالانہ تیس ملین میٹرک ٹن میونسپل سالڈ ویسٹ پیدا کرتا ہے، جو کہ ملک میں ویسٹ مینجمنٹ آپریشنز سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ میونسپل حکام بڑے شہروں میں صرف 50-80 فیصد شہری فضلہ جمع کرتے ہیں اور دیہی علاقوں میں بہت کم

صورتحال کو مزید خراب کرنے والا ایک اور عنصر یہ ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کے لیے اپنا فضلہ پھینکنے کے لیے مقبول ترین مقامات میں سے ایک بن گیا ہے۔ ایران، سعودی عرب، برطانیہ، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، ریاستہائے متحدہ امریکہ (یو ایس اے)، بیلجیم، جرمنی، اسپین، کینیڈا اور اٹلی پاکستان میں کچرا پھینکنے والے ممالک میں شامل ہیں

باسل کنونشن پر پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے دستخط ہیں۔ نتیجے کے طور پر خطرناک فضلہ کی کوئی بھی درآمد یا برآمد باسل کنونشن کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ ناقص فضلہ کے انتظام کا ایک اور نقصان میتھین گیس کا اخراج ہے۔ سڑنا، چاہے قدرتی ہو یا جان بوجھ کر جلانا، لینڈ فل ڈمپنگ، یہ میتھین کے اخراج کا تیسرا بڑا بشریاتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے

کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پچیس گنا زیادہ گرمی کے اثرات رکھنے کی وجہ سے، اس گیس کو ایک انتہائی طاقتور گرین ہاؤس گیس قرار دیا گیا ہے۔ کچرے کو غلط طریقے سے ٹھکانے نہ لگانا بھی شدید بارشوں کے دوران ڈرین بند ہونے اور گھریلو سیلاب کی ایک بڑی وجہ ہے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان یہ فضلہ یا کچرا درآمد کیوں کرتا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسے ری سائیکلنگ کی صنعت کے ذریعے استعمال کیا جا سکے، جو ملک بھر میں کراچی، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور خیبرپختونخوا میں پھیلی ہوئی ہے

ری سائیکلنگ کی صنعت نے درآمد شدہ کچرے سے سونا، تانبا اور ایلومینیم جیسی دھاتیں نکالی ہے۔ یہ فضلہ بحری جہاز میں نکلتا تو ری سائیکلنگ کے لیے ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں پہنچ کر یہ ری سائیکل کم ہی ہوتا ہے اور اس امر کا خیال بالکل نہیں کیا جاتا کہ اس میں خطرناک فضلہ بھی شامل ہے

اس فضلے کو یا تو جلایا جاتا ہے یا پھر ترقی پذیر ملک میں سہولیات نہ ہونے کے باعث اس کو غیر قانونی طور پر پھینک یا دبا دیا جاتا ہے۔ مگر درآمد کنندہ ملک اس فضلے کو ری سائیکل میں شمار کرتا ہے۔ پاکستان کے ساحلوں پر یہ فضلہ بکھرا پڑا ہے، جو سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہے

پاکستان نے ٹھوس فضلے کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے متعدد قوانین بنائے ہیں۔ ان قوانین میں 1997ء کا پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ، خطرناک مادوں کے قوانین 2003ء، پنجاب کے خطرناک مادوں کے قوانین 2020ء کا مسودہ، سندھ کے خطرناک مادوں کے قوانین 2014ء، ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز 2005ء اور نیشنل کوالٹی اسٹینڈرڈ کے قوانین شامل ہیں

پاکستان کو کچرے کے ڈمپنگ گراؤنڈ بننے کے ابھرتے ہوئے خطرے کے جواب میں حال ہی میں ویسٹ مینجمنٹ پالیسی 2022ء منظور کی گئی۔ اگرچہ یہ قدم قابل ذکر ہے اور ویسٹ مینجمنٹ کے لیے حکومت کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں لیکن جدید تکنیکوں کو لاگو کرنے اور ملک کی طرف سے برآمد/درآمد کیے جانے والے کچرے کی نگرانی کے لیے ریگولیٹری اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے

ویسٹ مینجمنٹ کے موثر اقدامات پاکستان کے لیے اپنی بین الاقوامی ماحولیاتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور زبردست ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں، اس طرح ماحولیاتی اور موسمیاتی تحفظ میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹھوس فضلہ کے انتظام کی جدید تکنیک ماحولیاتی اور انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرتے ہوئے فضلے سے زیادہ پائیدار طریقے سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہے

اس کے علاوہ زیادہ سخت ریگولیٹری اور غیر ریگولیٹری اقدامات تیار کیے جائیں اور مناسب بجٹ کے وسائل کے ساتھ نافذ کیے جائیں۔ مثلا ری سائیکلنگ کی صنعت کو رسمی معیشت میں باضابطہ بنانا، فضلہ جمع کرنے کو بہتر بنانے کے لیے سیکٹر کو فنڈز اور ترغیبات فراہم کرنا اور خطرناک کچرے کے لیے گھریلو اہداف کا تعین اور نگرانی کے پروٹوکول کو جگہ پر رکھنا ریگولیٹری اقدامات کی چند مثالیں ہیں

غیر ریگولیٹری اقدامات میں تعلیم، صفائی سے متعلق مذہبی خطبات، بیداری کی مہم، صنعتوں کی استعداد کار میں اضافہ، ان کے فضلے کے انتظام کے لیے مختلف شعبوں کے لیے ہدایات جاری کرنا اور عوام میں صفائی کا احساس پیدا کرنا شامل ہو سکتا ہے

آخر میں ایک زیادہ فعال اور ماحول دوست فضلے کے انتظام کا طریقہ ملک کو صاف ستھرا، سرسبز اور آنے والی نسلوں کے لیے زیادہ پائیدار بنائے گا

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close