بے نظیر بھٹو کے قتل اور تحقیقات کے حوالے سے راؤ انوار کے نئے انکشافات

ویب ڈیسک

گزشتہ روز بے نظیر بھٹو کی پندرہویں برسی منائی گئی۔ انہیں پاکستان کی ایک ذی شعور سیاسی رہنما کہا جاتا تھا۔ ان کی سیاسی بصیرت اور جمہوری نظام کے لیے ان کی قربانیوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ پندرہ سال بیتنے کے باوجود بھی ان کے بے رحمانہ قتل کا معمہ حل نہیں ہو سکا

بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں27 دسمبر 2007ع کو بم دھماکے میں فائرنگ کے دوران فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ طویل تفتیش اور پوچھ گچھ کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پانچ کلیدی ارکان اعتراز شاہ، راشد احمد، شیر زمان، حسنین گل اور رفاقت حسین کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا۔ استغاثہ ان کے جرم میں ملوث ہونا ثابت نہیں کر سکا، جس پر عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

سانحے میں سیکڑوں زندگیا ں ضائع ہوئی تھیں۔ لیکن طندرہ برس گزر جانے کے باوجود بھی ملک کی مقبول رہنما کے قتل پر اسراریت کی چادر میں لپٹا ہوا ہے

سوال یہ رہ جاتا ہے کہ قتل کے منصوبہ سازوں کی شناخت ابتدا ہی میں ہو گئی تھی، لیکن عدالت نے انہیں معصوم قرار دے دیا ہو۔ ایسے میں لوگوں کو اس کیس کی تفتیش میں شامل ہونا چاہئے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور نہ ہی آخری کیس ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے شروع ہوا ، انہیں بھی لیاقت باغ میں ریلی کے دوران سید اکبر نے قتل کیا تھا اور قاتل کو بھی موقع پر ہی مار دیا گیا

یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ بے نظیر کے قتل کے بعد محترمہ کی جماعت پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی اور آج بھی پی ڈی ایم کے ساتھ شریک اقتدار ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس نے ایک قداور سیاسی شخصیت کے قاتلوں کو تلاش کر کے کیفر کردار تک پہنچانے کی دلجمعی سے کوشش نہیں کی، جو دور حاضر کے گاڈ فادر آصف علی زرداری کی بیوی اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی والدہ تھیں

سابق ایس ایس پی راؤ محمد انوار کو بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کا نہایت بااعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے رکن بھی تھے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو قتل کا معمہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں تھی، لہٰذا مسلسل پانچ سال تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی رہی اور آصف زرداری صدر مملکت بھی رہے، لیکن یہ گتھی سلجھ نا سکی

راؤ انوار نے انکشاف کیا کہ ”بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کے انچارج اور پھر وفاقی وزیر داخلہ بننے کے باوجود رحمان ملک نے ایک عرصے تک بے نظیر بھٹو کے موبائل فون کا فرانزک نہیں کرایا، پارٹی میں کوئی اس بات کو اہمیت ہی نہیں دیتا کہ اس معاملے کا کوئی نتیجہ نکلے‘‘

راؤ انوار کے بقول انہوں نے بے نظیر کے بلیک بیری ٹیلیفون حاصل کرنے کے لیے آصف زرداری تک سے رابطہ کیا تھا لیکن فون تفتیشی ٹیم کو نہ مل سکے، تفتیش ٹھیک انداز میں نہیں ہو رہی تھی کیونکہ نہ تفتیش کرنے والوں اور نہ ہی کروانے والوں کی کوئی دلچسپی دکھائی دے رہی تھی‘‘

راؤ انوار کے مطابق، اسی لیے انہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط نہیں کیے تھے

بے نظیر بھٹو کی پرنسپل سیکریٹری اور قتل کے وقت ان کے ساتھ موجود پارٹی کی ناراض رہنما ناہید خان کا کہنا ہے ”پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے اصولوں سے بہت دور جا چکی ہے۔ ان کی رائے میں بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی قیادت سنبھالنے والوں کے اہداف کچھ اور ہیں“

ناہید خان پارٹی رہنماؤں سے ناراضگی کے باوجود جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے پرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”بلاول پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر سے عوام میں مقبولیت دلا سکتے ہیں۔ ابھی پارٹی آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ بلاول آگے چل کر پارٹی کو اپنی والدہ کے رہنما اصولوں پر لے آئیں گے“

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں میں راؤ انوار کے مؤقف کے برخلاف رائے پائی جاتی ہے اور یہ رہنما بلواسطہ یا بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ کو تفتیش کے بے نتیجہ ہونے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں

پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک سینٹر تاج حیدر کہتے ہیں ”پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ یہاں بیک وقت دو سرکاریں پائی جاتی ہیں، ایک عوام کی اور دوسری اسٹیبلشمنٹ کی‘‘

ان کے بقول عوام نے اقتدار پیپلز پارٹی کو دیا اور عوام بے نظیر کے قاتلوں کو سزا پاتے دیکھنا چاہتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کے حق میں نہیں تھی

صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ بی بی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والا خلا پر کرنا تو مشکل ہے لیکن پھر بھی پارٹی کی نئی قیادت نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ سعید غنی مانتے ہیں کہ مزید بھی بہت کرنے کی گنجائش ہے لیکن پھر بھی ان کے بقول پارٹی نے اپنے اہداف بڑی حد تک حاصل کیے ہیں

غیر جانبدار مبصر اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ اس وقت پارٹی کی قیادت عوامی سیاست سے بہت دور ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے ”مفاہمت کی سیاست اپنانے سے پیپلز پارٹی کا عوام سے ناطہ ٹوٹ گیا ہے، ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ جس جماعت کا کبھی نعرہ تھا وہ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی محلاتی سازشوں کے مقابلے سے ہٹ کر ان میں شراکت کا الزام کیسے جھیل رہی ہے؟‘‘

بہرحال کچھ بھی ہو، لیکن اب تک کی تحقیقات سے یہ بات تو سامنے نہیں آ سکی کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا قاتل کون ہے یا ان کے قتل کے احکمات کس نے دیے؟ کیا یہ مان لینا چاہئے کہ حقیقی قاتلوں کو طشت ازبام کئے بغیر اس سانحہ ماضی کو دفن کردینا چاہئے؟ تمام درد اور زخم بھلا دئیے جائیں۔اب تک کی تحقیقات اور تفتیش کاروں کی ساکھ پر سوال نہ اٹھایا جائے؟ ہو سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اپنی سابق چیئر پرسن کے قتل کا معمہ حل کرنے میں دلچسپی نہ رکھتی ہو لیکن عوامی سوچ اور احساسات اس کے بالکل برخلاف ہیں۔ عوام ہر قیمت پر سچ جاننا چاہتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close