سندھ کے ضلع میرپورخاص کے علاقے گلستان بلدیہ میں سستا آٹا خریدنے کا خواہشمند مزدور بھگدڑ کے باعث ہجوم کے نیچے کچلا گیا جب کہ نواب شاہ میں لڑکی سمیت تین خواتین کچلی گئیں
محکمہ خوراک سندھ کی جانب سے میرپور خاص کی بلدیہ گلستان میں ٹرکوں پر سستا آٹا سرکاری نرخ پر فروخت کیا جارہا تھا جس کے لیے شہری بڑی تعداد میں باہر نکل آئے۔ خواتین اور نوجوانوں نے ٹرک پر چڑھنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے ٹرک کو بھگا دیا جس سے متعدد افراد زمین پر گر گئے اور پھر افراتفری مچ گئی متعدد افراد نیچے گر گئے جس کے نتیجے میں سات بچوں کا باپ جاں بحق ہو گیا
شاہد خاصخیلی نے بتایا ’ہلاک ہونے والا شخص ہرسنگ کولہی دیہاڑی پر کام کرتا تھا، اس کی 6 بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا اور وہ گھر کا واحد کمانے والا تھا۔‘
دوسری جانب نواب شاہ کے علاقے سکرنڈ میں فلور مل کے باہر سرکاری نرخ پر سستا آٹا خریدنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے بچی سمیت 3 خواتین ہجوم کے پاؤں تلے دب کر زخمی ہو گئیں
اس کے علاوہ سستے آٹے کے حصول کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں ، انتظامات نہ ہونے کے باعث لوگ بھوکے رہ گئے
ڈپٹی کمشنر میرپورخاص زین العابدین میمن نے مظاہرین سے مذکرات کے بعد کہا ”اس واقع میں جو بھی ذمہ دار ہو گا اس کے خلاف کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام کو خط لکھیں گے۔“
لیکن سوال یہ ہے کہ زمہ دار کون ہے، اعلیٰ حکام کون ہیں، خط کس کو لکھا جائے گا اور کاروائی کون اور کس کے خلاف کرے گا؟
کچھ مہینے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک جلسے میں خطاب کے دوران کہا گیا ”اگر آٹا مہنگا ہوا تو میں اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا“ کا عامیانہ سا جملہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں آٹے کی قیمت اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور مارکیٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی اس بارے میں کوئی اچھی خبریں نہیں یعنی قیمتیں مزید بڑھنے کا امکان ہے
اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 5100 روپے فی چالیس کلو گرام تک پہنچ چکی ہے اور چکیوں پر آٹا ڈیڑھ سو روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ یوں اگر آپ چکی سے بیس کلو آٹے کا تھیلا خریدنے جائیں گے، تو وہ آپ کو تین ہزار روپے میں ملے گا
لگ بھگ ایک ماہ پہلے چکی پر آٹا 85 روپے سے یکمشت 100 روپے کلو ہوا تھا تو اس کا کچھ روز تک میڈیا پر چرچا ہوا اور پھر بات دب گئی تھی لیکن ایک ماہ کے دوران ایسا کیا ہوا کہ گندم اور آٹے کی قیمت کو اچانک پر لگ گئے اور قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا
ماہرین کے مطابق حالیہ سیلاب کے باعث زرعی زمینوں کی تباہی، صوبائی حکومتوں کی طرف سے فلور ملز کے گندم کوٹہ میں کمی، گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی حکومتوں کا گندم و آٹے کی فروخت میں غیر مؤثر کنٹرول بحران میں مسلسل اضافے کی وجہ بن رہا ہے
ماہر اجناس عبدالناصر شیخ کہتے ہیں کہ پاکستان تیس لاکھ ٹن گندم امپورٹ کررہا ہے لیکن یوکرین اور روس سے گندم مہنگی پڑے گی، اس کے برعکس بھارت سے ہمیں سستی گندم مل سکتی ہے۔ لیکن تجارتی تعلقات محدود ہونے کے باعث بھارت سے گندم نہیں منگوائی جا سکتی اور یوں مہنگی گندم ہی خریدی جائے گی
انہوں نے کہا کہ مارچ میں سندھ کی فصل منڈیوں میں آجاتی ہے، لیکن اس سال سیلاب کے باعث سندھ میں پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ملک میں پنجاب کی گندم پر انحصار کیا جائے گا، جس کی فصل اپریل کے تیسرے عشرے میں منڈیوں میں آنا شروع ہو جائے گی
یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت نے ذخیرہ اندوزی کے خلاف چاروں صوبوں میں ٹھوس کارروائی نہ کی اور اس کے ساتھ ساتھ بروقت گندم امپورٹ نہ کی تو اگلی فصل آنے پر بھی گندم اور آٹے کی قیمتیں کم نہ ہو پائیں گی اور غذائی بحران بڑھنے کا خدشہ ہے
پاکستان کے دو صوبوں سندھ اور پنجاب میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے ، سندھ میں گندم کی کٹائی 15 مارچ سے جب کہ پنجاب میں گندم کی کٹائی 15 اپریل سے شروع کردی جاتی ہے
ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے جہاں ملک کے بڑے حصے میں تباہی مچائی، وہیں فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ لیکن اس کے باوجود اس کے تدارک کے لیے حکومتی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے
صوبہ سندھ کے ایک بڑے زرعی رقبے میں ابھی تک زمین اس قابل نہیں ہوسکی کہ وہاں فصل کاشت کی جا سکے، سندھ میں گندم کی بوائی کا سیزن اکتوبر اور نومبر ہوتا ہے، جہاں ان مہینوں میں فصلوں میں پانی کھڑا تھا اور تاحال سندھ کے متاثرہ علاقوں میں زرعی زمینیں ہموار نہیں ہوسکیں
اس صورتِ حال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مارچ میں جب سندھ میں گندم کی کٹائی شروع ہوگی تو سندھ کے کئی ایسے کسان کٹائی کے بجائے اپنی زمینوں کی بحالی میں مصروف ہوں گے جن کی زمینیں سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی تھیں
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے زراعت منظور حسین وسان کے مطابق اس سال سندھ کے 10 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی بوائی نہیں کی جا سکی، جس وجہ سے فصل صرف 2.4 ملین ایکڑ پر ہوئی ہے
سیلاب نے سندھ کی 4.6 ملین ایکڑ زرعی اراضی کو تباہ کردیا ، جس میں کپاس کی 100 فی صد اور چاول کی 75 فی صد فصل شامل ہے
غلہ منڈی میں آڑھت ایسوسی ایشن کے صدر قمر بٹ، جو کہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے آڑھت سے وابستہ ہیں اور ان کی اگلی نسل بھی اب یہی کام کر رہی ہے، کہتے ہیں ”اجناس پر سرمایہ کاری کرنے والوں نے اتنے پیسے کبھی نہیں کمائے، جتنے حالیہ کچھ مہینوں میں کمائے گئے ہیں“
قمر بٹ کا کہنا ہے کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی پر اگر قابو پالیا جائے تو گندم کی قیمتیں نیچے آ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے کیوں کہ سندھ اور پنجاب کے بڑے بڑے گودام بڑے بڑے سیاست دانوں کے ہیں، ان پر کون ہاتھ ڈالے گا کسی افسر میں اتنی جرات نہیں
انہوں نے بتایا کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں نے ایک سے ڈیڑھ ماہ میں کروڑوں روپے اضافی کما لیے ہیں ، ابھی بھی کچھ لوگوں کے گوداموں میں ہزاروں بوریاں موجود ہیں جو وہ فروری یا مارچ میں مارکیٹ میں لائیں گے کیوں کہ ان مہینوں میں گندم کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومتی دعوے کے مطابق امدادی قیمت یا سبسڈی نرخ پر 1295 روپے میں 20 کلو کا تھیلا فروخت ہورہا ہے تو لوگ لگ بھگ ڈبل یعنی 2500 سے 2700 روپے میں اوپن مارکیٹ میں 20 کلو کا تھیلا کیوں خرید رہے ہیں اور چکیوں پر 3 ہزار روپے کا بیس کلو آٹا کیوں فروخت ہو رہا ہے
مختلف مارکیٹوں کے دکان داروں سے بات چیت کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ مخصوص دکانوں اور پوائنٹس پر سبسڈی والا آٹا آتا تو ہے لیکن فوراً بک جاتا ہے
عام لوگوں کے لیے آٹے کے ایک تھیلے کے لیے لمبی لائنوں میں لگنا آسان بات نہیں، سرکاری آٹا محدود مقدار میں آتا ہے اور طلب زیادہ ہونے کے باعث ایک دو گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے
محکمہ خوراک نے اب 20 کلو کے تھیلے دینے کے بجائے دس دس کلو کے تھیلے دینا شروع کر دئیے ہیں جن کی قیمت 650 روپے ہے اور لوگوں سے ان کے شناختی کارڈ کی کاپیاں بھی لی جارہی ہیں، اگر کسی کے پاس شناختی کارڈ کی کاپی نہیں تو اسے تھیلا نہیں دیا جا رہا
خواتین ایسے موقع پر سخت پریشان ہیں کیوں کہ اس دھکم پیل میں ان کے لیے الگ سے انتظام نہیں کیا گیا ، ایک خاتون بلقیس بی بی کا کہنا تھا کہ راشن ملنا کبھی اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اب بنا دیا گیا ہے ، آٹا اتنی مشکل سے مل رہا ہے کہ خدا کی پناہ
جبکہ سبسڈی والے آٹے میں خوردبرد کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں، ایک دکان دار ملک امین نے بتایا کہ بعض لوگوں کی شکایات ہیں کہ سبسڈی والا آٹا غیر معیاری ہوتا ہے، جس وجہ سے لوگ ان برانڈز کے ہی تھیلے خریدتے ہیں جن کی کوالٹی پر ان کو اعتماد ہوتا ہے
پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دیہاتی علاقوں سے بھی گندم ختم ہوگئی ہے ، دیہات میں زمیندار لوگ گھروں یا ڈیروں پر کام کرنے والوں کو اجرت کے طور پر گندم دے دیا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہورہا اور دیہات میں بھی گندم کی قلت نظر آرہی ہے
پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیدار گوہر سعید کا کہنا ہے کہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وفاق گندم بچانے اور اسے اسٹاک کرنے کی فکر میں ہے تاکہ ملک میں زرعی قلت پیدا نہ ہو، جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ صوبوں نے بھی گندم کی سپلائی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور سارا بوجھ اوپن مارکیٹ پر آگیا ہے
ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی بڑی اجناس میں گندم ، چاول اور کپاس شامل ہیں ، ایک زرعی ملک میں اجناس کی قلت ہونا حکومتی اداروں کی ناقص حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے
پاکستان میں ہر تین چار سال بعد گندم اور آٹے کی قلت کا معاملہ سامنے آتا ہے، جس پر حکومتی اداروں کی طرف سے وقتی طور پر ایکشن لیا جاتا ہے
سرکاری میٹنگز کی جاتی ہیں اور پھر بحران پر قابو پانے کے دعوے کیے جاتے ہیں ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ شعبہ حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی کبھی شامل نہیں رہا۔
ماہرین اجناس کا کہنا ہے کہ حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو، زراعت کے شعبے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں نہیں کی جاتیں۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے ، کسانوں کے لیے اسکیمیں شروع کرنے اور آنے والے برسوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پلاننگ کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
ماہرین کے مطابق ملک بھر میں زرعی زمینوں کو ختم کرکے وہاں ہاؤسنگ اسکیمیں بنانا بھی جاری ہے، جس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی، زرعی رقبہ کم ہونے اور آبادی بڑھنے کے باعث آنے والے سالوں میں اجناس کی قلت بڑھے گی
ماہرین کا کہنا ہے کہ گندم اور آٹے کا حالیہ بحران الارمنگ اور حکومتی اداروں کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ، اگر اب بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں غذائی بحران کا مورد الزام ٹھہرائیں گی۔