بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں پچاس ہزار سے زائد افراد کو بے گھر کرنے کے ایک عدالتی فیصلے نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرح کھینچ لی ہے
ہلدوانی میں گھروں کو توڑنے کے فیصلے پر اب اسٹے لگ چکا ہے، لیکن اس سے اکثریت مسلمان متاثر ہونے والے تھے
ہلدوانی ریلوے اسٹیشن سے متصل دائیں جانب تقریباً چار کلومیٹر تک کچھ بستیاں آباد ہیں، جس میں غفور بستی اندراپورم بھی شامل ہے۔
تاہم انڈین ریلوے کا کہنا ہے کہ یہ زمین ریلوے کی ملکیت ہے جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ نگر پالک کی زمین پر آباد ہیں اور 1971 کے قانون کے مطابق اس زمین کے مالک ہوگئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ہلدوانی کی یہ بستیاں ریلوے کی زمین پر بسائی گئی ہوں، مگر ایسی زمین جس پر سینکڑوں خاندان برسہا برس سے آباد ہوں اور حکومت کی جانب سے جائز زمینوں پر ملنے والی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہوں، اسے کچھ دنوں میں خالی کروانے اور آبادکاری کے منصوبے کے بغیر کوئی پیش رفت کرنے کے عمل نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے اس عمل کو مسلمانوں کے خلاف تعصب سے تعبیر کیا جا رہا ہے
سماجی کارکن محمد اخلاق سمجھتے ہیں کہ اس انہدامی کارروائی کے پیچھے بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی) کے سیاسی محرکات اور مفادات ہیں کیونکہ اس علاقہ سے بی جے پی صرف ان ہی بستیوں کی وجہ سے ہار جاتی ہے اور یہاں کے ووٹ انہیں نہیں ملتے
ایک درخواست گزار عبدالملک کا کہنا تھا ”ہم یہ مانتے ہی نہیں کہ جس زمین کو ریلوے خالی کروانا چاہتا ہے، وہ اس کی زمین ہے۔ اگر ریلوے کے کسی ترقیاتی پروجیکٹ کے لیے زمین درکار ہے تو اس کے پاس دوسری سائیڈ میں خالی اراضی موجود ہے“
مقامی طلبہ و طالبات بھی کہتے ہیں کہ مکانات خالی کرنے کے نوٹس دے کر انہیں ذہنی و نفسیاتی طور پر خوفزدہ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے
واضح رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیرِ اقتدار بھارتی ریاستوں اتراکھنڈ، آسام اور مدھیہ پردیش میں ہزاروں مسلم خاندانوں کے بے گھر ہو جانے کا خطرہ شدید ہو گیا ہے
اتراکھنڈ میں نینی تال ضلع کے ہلدوانی قصبہ میں ہزاروں کنبوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے۔ کیونکہ مقامی انتظامیہ نے 4365 مکانات کو منہدم کرنے کے نوٹس دے دیے ہیں
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مکانات 78 ایکڑ اراضی پر ریلوے کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے ہیں اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں منہدم کرنے کے لیے نشانات لگا دیے گئے ہیں
جس علاقے کو منہدم کیا جانا ہے، وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں۔ ان میں 95 فیصد مسلمان اور 5 فیصد ہندو ہیں۔ یہ لوگ تقریباً 80 برس سے یہاں آباد ہیں۔ یہاں تقریباً بیس مساجد، کمیونٹی سینٹراور متعدد اسکول بھی ہیں۔ عدالت نے ان سب کو منہدم کرنے کا فیصلہ سنایا ہے
اپوزیشن کانگریس کے مقامی رکن اسمبلی سمت ہردیش کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے مقدمے کی درست طور پر پیروی نہیں کی، جس سے لوگ مایوس ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں رہنے والے لوگوں کے پاس وہ تمام سرکاری دستاویزات موجود ہیں، جو حکومت جاری کرتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ لوگ کانگریس کے امیدوار کو کامیاب بناتے رہے ہیں اس لیے شاید انہیں اسی کی سزا دی جارہی ہے
دوسری جانب بی جے پی کی حکومت والی شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی مبینہ غیر قانونی تجاوزات کو خالی کرانے کے لیے مکانات کو منہدم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تقریباً پانچ ہزار مکانات میں سے بیشتر مکانات مسلمانوں کے ہیں
آسام سے رکن پارلیمان بدرالدین اجمل نے اس حوالے سے بھارتی صدر دروپدی مرمو کو ایک خط لکھ کر ان سے حکومت آسام کو ہدایت دینے کی درخواست کی ہے کہ کم از کم اس سردی کے موسم اور کوئی متبادل انتظام ہونے تک لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل نہ کیا جائے
بدرالدین اجمل کا کہنا تھا ”سب سے قابلِ اعتراض بات یہ ہے کہ بے دخلی کی یہ مہم جانبدارانہ انداز میں چلائی جارہی ہے اور ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کو ان علاقوں سے نکال دیا گیا ہے جہاں وہ دہائیوں سے رہ رہے تھے“
اعداد و شمار کے مطابق مئی2021 سے اب تک آسام میں چار ہزار سے زائد افراد کو ان کے مکانات سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔