کراچی یونیورسٹی کا پوائنٹ اور اس سے وابستہ یادیں

سید علی عمران

موجودہ دور میں یونیورسٹی میں پڑھنے والے لڑکے عام طور پر اب بائک کا استعمال کرتے ہیں اور اکثریت کو تو پوائنٹ میں سفر کرنے کا تجربہ بھی نہیں. یوں وہ یونیورسٹی کی ایک ایسی زندگی سے بے خبر رہتے ہوے یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہو جاتے ہیں کہ جس کی یادیں اور دوستیوں کو زندگی بھر فراموش نہیں کیا جا سکتا. بلاشبہ یونیورسٹی کے پوائنٹس میں آنا جانا خود ایک الگ دنیا ہے.

یونیورسٹی میں تو کسی مخصوص ڈیپارٹمنٹ میں ایڈمیشن ہوتا ہے، لہٰذا ساری جان پہچان بھی ڈیپارٹمنٹ کی حد تک محدود ہوتی ہے لیکن دراصل تعلقات تو بنتے ہی یونیورسٹی کے پوائنٹ کے ذریعے ہیں. آپ اپنے علاقے کے جس پوائنٹ میں سفر کرتے ہیں، اس میں آپ کے علاقے کے تمام افراد، جو یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، وہ بھی سفر کرتے ہیں، یوں آپ کے تعلقات ان تمام لوگوں سے قائم ہو جاتے ہیں اور یونیورسٹی میں ہر ڈیپارٹمنٹ کے اندر آپ کا کوئی نہ کوئی واقف کار موجود ہوتا ہے۔۔ اور بات یہاں پر نہیں رکتی بلکہ پوائنٹ کے دوستوں کے دوستوں سے بھی آہستہ آہستہ شناسائی ہوتی جاتی ہے اور یوں آپ یونیورسٹی میں بیگانے نہیں ہوتے ہر جگہ کوئی نہ کوئی جاننے والا ملتا رہتا ہے.

ہم نے جب 1999 میں یونیورسٹی میں ماسٹرز میں ایڈمیشن لیا تو پہلے سمسٹر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے پوائنٹ نہیں چلتے تھے، مگر دوسرے سمسٹر سے پوائنٹ چلنا شروع ہوئے. میری رہائش ملیر میں تھی لیکن پوائنٹ ملیر کے اندرونی علاقوں میں نہیں شروع کیے گئے، بلکہ آزمائشی بنیادوں پر ملیر 15 سے چلائے گئے.ل، کیونکہ ملیر سے بہت بڑی تعداد میں لوگ کراچی یونیورسٹی جاتے تھے، اس لیے تین پوائنٹس ملیر پندرہ سے براہ راست چلتے، جب کہ ایک داؤد چورنگی والا اور دوسرا اسٹیل ٹاؤن والا پوائنٹ بھی ملیر والوں کے لیے دستیاب ہوتا تھا.

سب سے زیادہ رش آٹھ بجے چلنے والے پوائنٹ میں ہوتا تھا. ہمارے دور میں بھی لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لڑکے نسبتاً کم ہوا کرتے تھے، لہٰذا اس پوائنٹ میں 75 فیصد لڑکیوں کی سیٹیں ہوتی تھیں اور باقی پر پیچھے لڑکے بیٹھا کرتے تھے. لڑکوں کا سیٹ پر قبضہ کرنے یا گھیرنے کا الگ ہی انداز تھا. جو بھی پہلے آجاتا تو وہ اپنے بیگ سے کاغذ نکالتا اور ہر کاغذ کو ایک ایک سیٹ پر رکھتا اور کاغذ پر پتھر رکھ دیتا، بس اب کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس سیٹ پر بیٹھ جائے اور یوں دوست آتے جاتے اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے جاتے. باقی بچارے لڑکے جلدی آنے کے باوجود بھی کھڑے ہی رہتے. پوائنٹ میں رش اتنا ہوتا تھا کہ پہلے دروازے پر لڑکیاں اور دوسرے دروازے پر لڑکے لٹکے ہوئے ہوتے تھے.

جب یہ پوائنٹ ملیر 15 سے تھوڑا آگے نکلتا تو بالکل گنجائش نہیں ہوتی تھی بیچارے شاہ فیصل کالونی والے صرف حسرت سے پوائنٹ کو جاتا ہوا دیکھتے تھے، کیونکہ ان کے پاؤں رکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی. سچ تو یہ ہے کہ پوائنٹ میں ’تل دھرنے کی جگہ نہیں‘ کا محاورہ سراپا حقیقت بن جاتا تھا۔

پوائنٹ سے واپسی کا بھی بالکل الگ رنگ تھا۔ سب لوگوں کو پوائنٹ کے ٹرمینل پر آنا پڑتا تھا، جو کہ اپلائیڈ کیمسٹری کے سامنے موجود ہوا کرتا تھا. واپسی میں، جن لوگوں کی کلاسیں جلدی ختم ہوجاتیں، وہ سیٹوں کو گھیرنے لگتے۔ یہی وہ جگہ تھی، جہاں پر سب کی اپنے دوستوں کے دوستوں سے بھی ملاقات ہو جاتی اور جان پہچان بننا شروع ہو جاتی. اپنی سیٹ حاصل کرنے کے بعد ٹرمینل پر خوب شور شرابا شروع ہوتا. ہر آدمی کی الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں محفل لگی ہوتی تھی. یوں پوائنٹ کے دوستوں کے ڈپارٹمنٹ کے دوستوں سے بھی شناسائی ہوتی چلی جاتی، اس طرح پوائنٹ میں سفر کرنے والے اکثر افراد کا ہر ڈپارٹمنٹ میں کوئی نہ کوئی تعلق یا جاننے والا ضرور ہوتا تھا.

اپلائیڈ کیمسٹری کے لڑکے اس زمانے میں بہت تیز ہوا کرتے تھے کیونکہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں خواتین نہیں ہوا کرتی تھیں، اس لیے ادب و آداب کا بلکل خیال نہیں کرتے تھے اور انتہائی واہیات نعرے لگایا کرتے تھے، جن کا ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا.

واپسی میں جب پوائنٹ چلتا تو اس قدر بھرا ہوا ہوتا تھا کہ کبھی کبھار تو دروازے پہ لٹکے ہوئے طلباء کو ایسا لگتا تھا کہ اب ہاتھ چھوٹ جائے گا اور اس حالت میں بھی اندر موجود دوستوں سے ہنسی مذاق کرنے اور ان کے نئے نئے نام لے کر آواز لگانے کا سلسلہ نہ رکتا، کوئی ایسا نا ہوتا جس کا نیا نام نا رکھا گیا ہو. زندگی ہی عجیب تھی۔ن وہ لمحات اب کبھی واپس نہیں آ سکتے.

ہمارے دوستوں کا گروپ عام طور پر دروازے پر ہی کھڑا ہوتا تھا کیوں کہ واپسی میں لیٹ آتے تھے. جب پوائنٹ یونیورسٹی سے نکل کر ڈرگ روڈ کے قریب سی او ڈی چیک پوسٹ کے پاس پہنچتا تو ہمارا گروپ اس طرف متوجہ ہو جاتا اور چونکہ میری آواز کی پیچ بہت زیادہ اونچی تھی، اس لیے میں زور سے بولتا ”پریڈ دائیں طرف رخ کرے گی، سامنے سلام“ اور دروازے پر لٹکے ہوئے تمام لڑکے ان کو سلام پیش کرتے۔ ڈیوٹی پر موجود ایک سپاہی تو ہمیشہ ہنس کر جواب دیتا، جب کہ دوسرا ہمیں پکڑنے کے چکر میں رہتا، مگر ہر دفعہ بچ جاتے اور یہ سلسلہ مہینوں چلتا رہا۔ ایک دفعہ جو ہم نے سلامی دی تو وہ بھاگتا ہوا آیا، ہمیں یقین تھا کہ پوائنٹ اسپیڈ بریکر سے نکل کر اسپیڈ پکڑ لے گا لیکن آگے ٹریفک جام ہو گیا اور اس نے ہم کو پکڑ لیا مگر حیران کن طور پر شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور چھوڑ دیا. موجودہ دور میں تو اب اس طرح کا مذاق سوچنے کی خواب میں بھی کوئی کوشش نہیں کر سکتا، بہت سنہرے دن تھے وہ۔۔۔

ایک دفعہ سب کو پوائنٹ کے اندر جگہ مل گئی، ہم بالکل آخر میں بیٹھے تھے اور ہمارے دو دوست تنویر اور عمیر بہت آگے بیٹھے ہوئے تھے، ان کو ہم اپنے پاس بلا رہے تھے مگر وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک ہمارے ایک دوست نے زور سے لہکی ہوئی آواز لگائی ”تنویر کو عمیر کو اماں بلا رہیں“ دوسرے دوست نے پورا زور سے چیخ کر کہا ”آجا بیٹا روٹی کھا لے“ پھر تو پیچھے بیٹھا ہوا پورا گروپ سریلے انداز میں شروع ہو گیا.

ایک دفعہ پوائنٹ کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ایک موٹر سائیکل والا لڑکیوں والے دروازے کے پاس بار بار بائیک لے کر جارہا تھا، جس پر لڑکوں والے دروازے سے ہمارے ایک دوست نے زور سے کہا ”وہاں خواتین میں کہاں جا رہے ہو، مردوں میں آجاؤ“ وہ لڑکوں کے دروازے کے پاس آ گئے اور تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ وہ لڑکے آگے گئے اور عین سفاری پارک کے ہاتھی کے سامنے جاکر موٹرسائیکل پوائنٹ کے سامنے کھڑی کردی اور ٹریفک رکوا دیا، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے تمام پوائنٹس بھی رک گئے. ہم لوگ بھی سب نیچے اتر گئے۔ میں تھوڑا سا آگے چلا گیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک نہیں تھے بلکہ تین موٹر سائیکلیں تھیں، جس پر دو دو افراد کر کے چھ افراد تھے اور وہ ہماری طرف بڑھنے لگے۔ میں کافی آگے آ گیا تھا، اب جو میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو سارے دوست واپس پوائنٹ میں جا چکے تھے اور میں ہی اکیلا بچ گیا تھا۔ پھر تو سفاری پارک کے ہاتھی کے سامنے جو میری درگت بنی، وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔۔ بس شکر ہے کہ ہاتھ پاؤں نہیں ٹوٹا. تھوڑی دیر مارپیٹ کر کے وہ لوگ نکل گئے اور میں پٹ کر جب پوائنٹ میں چڑھا تو حسرت سے اپنے دوستوں کو دیکھ رہا تھا، جن کے چکر میں میں نیچے گیا اور وہ پیچھے سے غائب ہو گئے تھے۔۔ سب شرمندگی سے منہ نیچے کئے ہوئے تھے۔ پورے راستے پوائنٹ میں ایک دم خاموشی رہی گویا پوائنٹ کو سانپ سونگھ گیا تھا. اگر بات یہیں ختم ہو جاتی تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا، راستہ روکنے کی وجہ سے پورے کراچی کے پوائنٹس بھی روڈ پر روکے ہوئے تھے اور ان میں سوار طلباء پورا تماشہ دیکھ رہے تھے.

یہ ہمارا آخری سمسٹر تھا اور امتحان میں دو ہفتے ہی رہ گئے تھے. ان آخری دو ہفتوں میں میرا گزر یونیورسٹی میں جہاں سے بھی ہوتا اور کوئی بھی لڑکوں یا لڑکیوں کی ٹولی بیٹھی ہوتی، ان میں سے ایک نے ضرور وہ واقعہ دیکھا ہوا ہوتا، میری طرف ان میں سے کوئی ایک اشارہ کرتا اور پورا واقعہ سناتا اور پھر پورا گروپ زور زور سے قہقہے مارتا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close