بالی وڈ میں سارے مسلمان درزی کیوں ہوتے ہیں؟

حسنین جمال

’مشن مجنوں‘ میں ال لیگل ایٹم بم بنا رہا ہے پاکستان؟؟؟ قانونی طریقے سے کون سا ملک پتلون قمیص پہن کے ایپلیکیشن دیتا ہے کہ بھیا ایٹم بم بنانا ہے، تھوڑا سا یورینیئم ملے گا؟ تم لوگوں نے کیسے بنایا ایٹم بم؟ کسی پولیس ولیس کے دفتر میں چٹھی جمع کرائی تھی کیا؟

سدھر جاؤ پیارے بالی وڈ! تم لوگ تامل فلموں سے ویسے ہی ہار گئے ہو، اب مسلمان اور پاکستانی آڈئینس بھی کھو دو گے یار!

جاؤ، پاکستانیوں کو دیکھو تو سہی۔۔ سرمہ لگائے چار خانے والی چادر پہ ٹوپی پہنے اب تو ادھر اپنے گھر میں کوئی نئیں گھومتا بھئی

ابا جان
آداب
مصطفیٰ بھائی، اڑا دوں؟
اوپر اللہ نیچے اماں۔۔۔
جیسے آپ کہیں گے جناب
اب اجازت دیجیے امی جان
یہ سب ابھی کا نئیں چل رہا، تم لوگ نائنٹیز سے اس دھندے میں لگے ہوئے ہو۔ ’روجا‘ تھی، خواہ مخواہ کی پنگا فلم، پھر ’غلام مصطفیٰ‘ میں بھی وہی حلیہ تھا مسلمانوں کا، نانا پاٹیکر لڑ رہے ہیں، قلابازیاں کھا رہے ہیں، گولیاں وج رئی ہیں لیکن ٹوپی، تعویذ اور چارخانہ رومال جسم پہ سے نئیں ہٹتا۔۔۔ پھر وہ ’سرفروش‘ آئی، زخم فلم تھی۔۔۔ پھر تم لوگ کشمیر کے پیچھے پڑ گئے!

ابھی تیس پینتیس سال پہلے تک کشمیری بیچارے تمہاری فلموں میں ٹورسٹ گائیڈ ہوتے تھے، چھوٹی موٹی دکان کرتے تھے، جھیلوں میں کشتی چلاتے تھے اور ہیروئن گانا گاتی تھی۔۔۔ پھر تم لوگوں نے ان کو بھی وہی سرمچو بندوقچی بنا دیا۔۔۔ ابے جنگ لڑنے کون سرمہ لگا کے جاتا ہے یار؟

تم لوگوں کو فلم بنانی ہے بناؤ لیکن تھوڑا ہوم ورک کر لو بھائی۔ تمہاری آڈئنس بہت زیادہ تھی اور وہ انہی حماقتوں کی وجہ سے بالکل وڑ گئی ہے اب! سمجھو تم کو حلیم بیچنی ہے لیکن دکان کھولنے سے پہلے حلیم بنانی آنا چاہیے کہ نئیں؟ ابھی دال کے طریقے پہ حلیم بنا کے بیچو گے تو بھیا یہی ہوگا! پن انٹنینڈڈ!

تمہاری فلموں میں اچھے مسلمان اب وہی رہ گئے ہیں، جو وطن کو مذہب پہ ترجیح دیں۔ باقی اکھا مسلمان چوبیس گھنٹے پورے ممبئی کو اڑانے پہ تلا ہوا ہے۔۔۔ اتنے سارے خان ہم نے تم کو دیے۔۔۔ شاہ رخ، سلمان، عامر، سیف، امجد۔۔۔ تم نے ہم کو کیا دیا؟ کشمیر فائلز؟ بھوج؟ یہ مشن مجنوں؟ اور وہ خان بے چارے بھی عزت بچا کے بیٹھے ہیں بس۔۔۔ بلکہ وہ عدنان سمیع خان بھی جب سے گئے ہیں، چپ سادھی ہوئی ہے!

ابے مسلمان ہمیشہ درزی یا قصائی نئیں ہوتے، ان میں کوئی مڈل کلاس بھی ہوتی ہے۔ پروفیسر، ڈاکٹر، کوئی وکیل، سافٹ ویئر انجنیئر۔۔۔ تم کو جو بھی نظر آتا ہے اسے نواب بنا دیتے ہو، بادشاہ بن جاتا ہے یا پھر ’بھائی‘ بن جاتا ہے۔ مصطفیٰ بھائی، لڑکا جینوئن ہے، کلٹی نئیں کھائے گا! یاد ہے؟

یاد کرو، امر اکبر انتھونی بھی تمہی لوگوں نے بنائی تھی، پاکیزہ، مغل اعظم، چودھویں کا چاند۔۔۔ وہ جس میں گرودت جی کیسے پیارے لکھنوی بنے تھے، تہذیب تھی بھئی، اپنی شعلے میں ہی وہ ہنگل تھے، حلیہ وہی تسبیح ٹوپی والا لیکن کم از کم کیریکٹر تھا یار۔۔۔ پہلے تم لوگ ہم کو نرا آتنک وادی نئیں سمجھتے تھے، ہم بھی تم کو عزت دیتے تھے قسم بہ خدا!

ابھی تم لوگ پوری دنیا میں اسلامو فوبیا بیچنے کے لیے جو لچ فرائے کر رہے ہو، اس کا نتیجہ پتہ ہے کیا ہوگا؟ ہوگا بھی کیا، ہو چکا ہے۔۔۔ تمہاری فلموں کے مسلمان کریکٹر کا لوگ اب مذاق اڑاتے ہیں بس! تمہاری ایک بہت بڑی مارکیٹ تم لوگ تقریبآ کھو چکے ہو

ہمارے بزرگ تمہارے ساتھ امن کی آشا پہ لڈیاں ڈالتے ہیں، تمہارا سدھو آتا ہے ہم گلے سے لگاتے ہیں، ہم کرتار پور کھول دیتے ہیں، ہم ہر جگہ تمہیں پورا مارجن دیتے ہیں لیکن تم بار بار ہم پہ ہی پیاز کترنے سے باز ہی نہیں آتے

یش چوپڑا ہمارے لاہور میں پیدا ہوئے، وہ لاہور کی ثقافت کو اچھی طرح جانتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اچکن، ٹوپی اور آداب عرض کروانا نہیں چھوڑا، وجہ کیا تھی؟

میرے محترم استاد عارف وقار سناتے ہیں کہ لندن میں ان کی ملاقات یش صاحب سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ بھئی یہ فلموں میں آپ کیسا پاکستان دکھاتے ہیں؟ کون شیروانی پہنتا ہے؟ کون کرتا ہے آداب عرض؟ کبھی آپ آئے پارٹیشن کے بعد وہاں؟ آپ تو لاہور کے رہنے والے تھے، آپ کو واقعی نہیں پتہ کہ وہاں لوگ کیسے رہتے ہیں، کیا کھاتے پیتے ہیں؟ آپ نے یو پی کا کلچر سارا اٹھا کے تو پاکستان دکھا دیا؟

’پہلے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے، پھر کہنے لگے کہ ہم نے ایک پاکستانی خاتون کنسلٹنٹ رکھی تھیں، اس سے پوچھ پوچھ کے کرتے تھے۔ جب میں نے زیادہ تنقید کی تو بالآخر بولے کہ ’یار، بات یہ ہے، انڈین کیریکٹرز جو ہیں، ان سے الگ تو دکھانا تھا نا؟ تو پھر انہیں تھوڑا سا ڈفرنٹ دکھانے کے لیے کیا کرتے؟ اس طرح کا لباس اور ڈائیلاگ اسی لیے دیے ان کرداروں کو۔‘

میرے استاد کہتے ہیں کہ پہلے اسٹیریو ٹائپ بنانا اور پھر اس کو بیچنا۔۔۔ یہ چل رہا ہے بھائی تم لوگ کا گیم!

گیم جو بھی ہے، اس مرتبہ طبیعت سے روسٹنگ ہو گئی بھیا، آئندہ احتیاط کرو اور کوئی نیا چورن بیچو۔

تمہارا ہمسایہ

آداب جناب من

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close