مجبور و محکوم بھیڑیں

اکرم ثاقب

ہماری اس پیاری دنیا میں ننانوے فی صد سے زیادہ لوگ محکوم اور مجبور ہیں۔ ابھی تک کوئی معاشرہ، کوئی تہذیب، کوئی تمدن ان ننانوے فی صد بھیڑوں کو آزاد چراگاہ فراہم نہیں کرسکا جہاں یہ اپنی مرضی سے سوچیں اور اپنی زندگی گزار سکیں

کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکی کہ ان انسانی بھیڑوں کو کچھ ہی حقوق دے دیے جائیں۔ ہاں ایک حق ہر جگہ میسر ہے اور وہ ہے خدمت کرنے کا۔۔ یہ بھیڑیں جتنی چاہے خدمت کر سکتی ہیں، اس سے آپ کو کوئی معاشرہ نہیں روکے گا۔ حکمران ٹولے یہ خدمت ان مجبور و محکوم بھیڑوں کو انسان مان کر نہیں کرواتے، بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کمزور عوام ان کی خدمت کریں۔ ان کےلیے دودھ، گوشت اور اون پیدا ہوتے رہیں اور یہ ہر طرح سے اپنی عیش و عشرت کو دوام بخشتے رہیں

جتنا بڑا سیاسی یا مذہبی لیڈر ہوگا، اتنا ہی بڑا نوسر باز ہوگا۔ ایک عظیم فراڈیا اس میں چھپا ہوگا۔ اس لیڈر کا تعلق کسی بھی شعبۂ زندگی سے ہو، وہ آپ کو دھوکا ہی دے رہا ہوگا۔ وہ آپ کو مرنے کے بعد کی دنیا میں حوروں کے خواب دکھا رہا ہوگا مگر خود اسی فانی دنیا میں چار شادیوں کے علاوہ بھی بہت سی حوروں کا مالک و مسیحا ہوگا۔ بہت سی مظلوم و بے سہارا خوبصورت عورتوں کا سہارا بنتا رہا ہوگا اور انہیں سہانے خواب دکھا کر ان کی زندگیوں کی بے حرمتی کررہا ہوگا۔ سیاسی مداری آپ کو حکمرانی کے حق کا چارہ ڈال کر آپ کو اپنے پیچھے بھاگنے پر مجبور کررہا ہوگا۔ ہماری اس دنیا میں مغرب و مشرق اور مذہب کی تفریق کے بغیر یہ لوگ ہر جگہ اور ہمیشہ سے موجود پائے گئے ہیں۔ یونانیوں کے فلسفے کی بنیاد اور مغربی نظام ہائے معیشت کی اساس ان ہیں کی مرہونِ منت تھی

میرے خیال میں افلاطون اور ارسطو نے ان ہی سیاسی اور مذہبی بڑوں کی عیاشیوں کو دوام بخشنے پر اپنے فلسفے گھڑے۔ جدید معاشیات کے بانیوں نے بھی اسی ٹولے کے عیش و نشاط کو طول دینے کےلیے طلب و رسد کے قوانین پیش کیے۔ اگر کارل مارکس جیسے کسی انسان کے دل میں عام آدمی کا درد پیدا ہوا تو اس بھیڑیوں کے ٹولے نے اس سے اس کی بات چھین لی اور برابری پیدا کرنے کے بجائے اور وسائل کی مساوی تقسیم کے بجائے اسے بھی سوشل اور کمیونزم جیسے آمرانہ نظاموں میں ڈھال لیا کہ وہی حکمران طبقہ ہی مستفید ہو سکے

اس طبقے کے عالمگیر اجارہ دار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ہی خیر خواہ ہیں۔ عدالتیں ان ہی کو ریلیف دیتی ہیں، انتظامیہ اسی طبقے کی فرمانبردار ہوتی ہیں۔ یہ بھیڑیا صفت استحصالی گروہ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت عوام کو تقسیم کرتا ہے، کبھی مذہبی فرقوں میں تو کبھی سیاسی گروہوں میں۔ مریدین اپنے اس روحانی پیشوا کےلیے بھیڑ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔ اور وہ ہمیشہ اپنی بھیڑوں کو اس طرح کی جادوئی گھاس ڈال کر بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ اسی کے در کی ہو رہتی ہیں۔ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کرنا ہی اس روحانیت سے لبریز فراڈیے کا فرضِ اولین ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ زیادہ دودھ، گوشت اور اون کےلیے اپنی بھیڑوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور انہیں سچ سے ددور رکھنے کی ہر ممکن تگ و دو کرتا ہے۔ اس نے حقیقت کو ایسا بھیڑیا بنا کر پیش کیا ہوا ہے کہ اگر اس کی بھیڑیں اس کے روحانی مندر کی حدود پھلانگیں گی تو وہ بھیڑیا انہیں کھا جائے گا

یہی طریق ہر ملک کے اس طبقے کا ہے کہ عوام کو شعور سے شعور کے نام پر ہی عاری رکھا جائے۔ اگر عوام کو شعور آگیا اور اپنی بھیڑ جیسی حیثیت کا اندازہ ہوگیا تو پوری دنیا میں انقلاب آجائے گا اور سچ کا بول بالا ہوجائے گا۔ اسی لیے سیاسی مرشد، روحانی پیشوا اور انتظامی پیش رو ان بھیڑوں کی جہالت کے علم سے پرورش میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ہمیشہ انہیں صرف اپنے ہی مذہبی فرقے کے سچا ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ باقی سب جھوٹے اور گمراہ ہیں۔ یہی حال سیاست دانوں کا ہے، جو اپنے کالے کرتوتوں پر اپوزیشن کے عیبوں کا پردہ ڈال کر اپنی بھیڑوں کو اپنے سچا ہونے کا جھوٹا یقین دلاتے رہتے ہیں کہ یہ بھیڑیں کسی دوسرے راستے پر نہ چل دیں۔ انہیں وعدوں اور لاروں کی ہری ہری گھاس ہی کیا، پورے باغ کا مالک دکھاتے رہتے ہیں اور یہ بھیڑیں اپنے اپنے چرواہے کے ہاتھ میں دھوکے اور فریب کی ہریالی کے پیچھے اس کے گن گاتی بھاگتی رہتی ہیں

اس ٹولے کو عوام کی جسمانی، مالی یا روحانی حالت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کی روحانیت بھی ان کی ذات کی پوجا تک محدود ہے اور ان کی سیاست بھی انہی کے گرد گھومنے کا نام ہے۔ اگر کوئی مرید یا کارکن سرِمو بھی انحراف کرے گا تو وہ گمراہی کے راستے پر چلے گا۔ اس بات کا یقین یہ اپنے جھوٹے اور من گھڑت بیانیوں سے اور بیانوں سے ہمیشہ دلاتے رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی بھیڑ بھٹک کر کسی دوسرے راستے پر جا نکلے تو وہاں بھی ایک ایسا ہی پیشوا یا لیڈر دام پھیلائے بیٹھا ہوگا۔ بھیڑ نے تو بس ریوڑ بدلا، کام وہی ہوگا، دودھ، اون اور گوشت فراہم کرنا اور اپنے مالک کے مفادات کا خیال رکھنا

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close