بی بی سی نے دو سال سے معاوضہ نہیں دیا: تجزیہ کار دوران خبرنامہ بول پڑے

ویب ڈیسک

نیویارک – بی بی سی عربی نے معمول کے مطابق مصر سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار مہدی عفیفی کو یوکرین کی تازہ ترین صورت حال پر اپنے تجزیات پیش کرنے کے لیے پروگرام میں شامل کیا، تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ سیاسی تجزیے کے بجائے رقم کی عدم ادائیگی پر بات ہوگی

بی بی سی عربی کی اینکر نے مہدی عفیفی سے یوکرین معاملے پر امریکی صدر جو بائیڈن کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے سوال کیا۔ عفیفی نے جواب کے آغاز میں تجزیاتی روش کو برقرار رکھا اور کہا ’جی بالکل امریکی صدر کو بعد میں یہ خیال آیا کہ ان کا بیان مبہم تھا، جس نے بہت تناؤ پیدا کیا۔ اس سے یہ تاثر جا سکتا تھا کہ انہوں نے روس کو یوکرین جانے کے لیے اجازت دی ہے۔‘

یہاں تب سب معمول کے مطابق تھا۔ لیکن اس کے بعد مہدی نے گویا اعلان کر دیا کہ اب وہ یوکرین کی صورت حال پر تجزیہ نہیں بلکہ اپنی مرضی کے موضوع پر بات کریں گے

مہدی عفیفی یوں گویا ہوئے ’فی الحال سب سے اہم موضوع جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ بی بی سی نے مجھے بطور تجزیہ کار دو سال سے معاوضہ ادا نہیں کیا۔ بی بی سی کے اعلیٰ عہدیدار کہاں ہیں؟ ادوارد جلاد ثامر عبدالوھاب اور باقی لوگ کہاں ہیں؟‘

یہ بات کرتے ہوئے مہدی عفیفی کیمرے پر کچھ کاغذات دکھانے کی کوشش کرتے رہے، جس پر عربی اور انگریزی میں تحریر درج تھی۔ انگریزی کے حروف میں بی بی سی عربی کے عہدیداروں کے نام اور ایک جملہ واضح لکھا ہوا نظر آ رہا تھا کہ ’میرے پیسے کہاں ہیں؟‘

بی بی سی عربی کی اینکر نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ شائد ان کا گمان تھا کہ ناظرین کی خاطر مہدی عفیفی یوکرین کے موضوع پر واپس آ جائیں گے

اینکر نے عفیفی کو موضوع پر واپس لانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’مہدی صاحب، آپ آج خبر نامے میں ہمارے ساتھ ہیں۔ آپ کے خیال میں ہمارے ناظرین اس بات میں دلچسپی رکھتے ہوں گے کہ آپ کی رقم ادا نہیں ہوئی؟ جو آپ کہہ رہے ہیں، میں اسے سمجھ سکتی ہوں۔‘

مگر مہدی عفیفی مبینہ طور پر دو سال سے واجب الادا رقم پر ہی بات کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے یوکرین کے موضوع پر واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے رقم اور فیس کی ادائیگی پر بات جاری رکھی

بی بی سی عربی کی اینکر نے اس موقع پر پروگرام کو یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ’میں اپنے ناظرین سے معذرت خواہ ہوں اور میں آپ کے لیے بھی معذرت خواہ ہوں مہدی صاحب۔ شکریہ مہدی صاحب۔ یہ خبر نامہ جاری ہے۔‘

یاد رہے کہ مصر سے تعلق رکھنے والے مہدی عفیفی نیو یارک میں سیاسی تجزیہ کار ہیں، جو بی بی سی عربی سمیت دیگر نشریاتی اداروں پر تجزیات پیش کرتے ہیں

دوسری جانب بی بی سی عربی نے اس واقعے پر رد عمل دیتے ہوئے اپنے آفیشل فیسبک پیج پر ایک پوسٹ شیئر کی ہے۔ اس پوسٹ کے مطابق ’بی بی سی اپنے نیوز پروگرامات میں شرکت کرنے والے افراد کو براہ راست کوئی معاوضہ ادا نہیں کرتا۔‘

بی بی سی عربی کے مطابق ’بعض اوقات اپنے مہمانوں کو ان کے وقت کے عوض ایک مخصوص رقم ادا کی جاتی ہے۔ ہم نے مہمان (مہدی عفیفی) سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘

بعدازاں مہدی عفیفی نے اس حوالے سے کہا کہ میں بی بی سی عربی سے 2019 سے مطالبہ کر رہا تھا کہ مجھے اعزازیہ دیا جائے۔ یہ طے شدہ اوسط رقم تھی جو مجھے ہر پروگرام میں شرکت پر ملنی تھی۔ وہ لوگ مجھے 2019 سے لے کر 2022 تک ٹالتے جا رہے تھے۔‘

مہدی عفیفی کا کہنا تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں بی بی سی کی انتظامیہ پر پروگرام کے دوران اپنی بھڑاس نکالوں گا۔ میں نے اس کاغذ کا استعمال کیا تاکہ انتظامیہ کو اپنے مسئلے سے آگاہ کر سکوں جو میری درخواست کا جواب نہیں دے رہی

جب عفیفی سے پوچھا گیا کہ وہ اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بی بی سی عربی نے مجھے 2019 سے کہا ہوا تھا کہ وہ مجھے اعزازیہ ادا کریں گے۔ انہوں نے مجھے ایک فارم بھی بھیجا جو پُر کرنے کے بعد میں نے دس مرتبہ انہیں ارسال کیا۔ جواب میں انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کا ایڈریس درست نہیں ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بینک کے ذریعے رقم بھجوانے کے لیے ایڈریس کا ہونا ضروری ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس میرا نام تھا۔ بینک اکاؤنٹ نمبر تھا۔ فون نمبر تھا۔ انہیں صرف یہی چاہیے تھا

ان کے مطابق: ’تینتیس مزید ادارے جن کے ساتھ میں کام کرتا ہوں، انہیں رقم بھجوانے کے لیے میرا ایڈریس نہیں چاہیے۔ میں نے بار بار کوشش کی۔ پھر انہوں نے جواب دیا کہ کرونا وبا تھی۔ ہمیں مسئلہ تھا۔ میرے انتظار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میرا خیال تھا بی بی سی ایک معتبر ادارہ ہے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ مجھے رقم ادا کریں گے۔‘

مہدی عفیفی نے بی بی سی کی جانب سے رابطہ کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بروز جمعہ اس واقعے کے دو روز بعد مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی، جہاں پر کوئی بی بی سی پبلک ریلیشن افسر بات کرنے کا دعویدار تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں گے۔ وہ مجھے ایک ای میل کریں گے جس کے بعد مجھے انہیں تمام واجب الادا رقم کا حساب بھیجنا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ تمام تفصیلات پہلے بھی بہت مرتبہ بھجوا چکا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ انتظامیہ نے پہلے کچھ ارسال نہیں کیا۔ وہ مجھے اعزازیہ دلوانے کے لیے راضی تھے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اتوار کو انہیں تمام تفصیلات دوبادہ ارسال کروں گا۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close