طارق کا راستہ

امر گل

آج اس کے چہرے پر تھکن اور آنکھوں میں نیند کے آثار نمایاں تھے، پوچھنے پر بتایا کہ وہ کئی دنوں اور راتوں سے نہ ٹھیک سے سو پایا ہے نہ ہی آرام کر پایا ہے. یہ طارق عزیز ہے، میرے بچپن کا یار!

اگرچہ ہمارے گاؤں بھی الگ الگ ہیں اور ہم پڑھے بھی الگ الگ  اسکولوں میں، لیکن اسکول کے زمانے میں ایک ادبی اور نیم سیاسی تنظیم "لطیف سنگت سندھ” نے ہمیں ایک ساتھ جوڑ دیا تھا. ہم نے کٹھے تقاریری مقابلوں میں حصہ لیا اور مختلف تعلیمی، تخلیقی اور تعمیری سرگرمیوں کا حصہ بھی بنے. یہ وہ دور تھا جس میں شعور کی پختگی نہ ہونے کے باوجود میں طارق میں مستقبل کا ایک کامیاب انسان دیکھ رہا تھا، لیکن بعد کے حالات نے نہ میرے اس خیال کو صحیح ثابت کیا اور نہ ہی غلط… اس کی وجہ خود طارق ہے اور اس کی زندگی سے جڑے نشیب و فراز..

کالج کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہم شاگرد سیاست میں بھی ایک ساتھ سرگرم رہے. اس کی آنکھوں کی روشنی میں اب مزید چمک آ گئی تھی، لیکن یہ وہ دور تھا جس میں طارق کے قدم آہستہ آہستہ اس دنیا کی طرف بڑھ رہے تھے، جس میں انسان سکون تلاش کرنے کے لیے داخل ہوتا ہے لیکن خود کو بھی گنوا بیٹھتا ہے. اس کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو ہمارے معاشرے کے اکثر ذہین اور باصلاحيت نوجوانوں کے ساتھ ہوتا ہے. معاشرے کی عدم توجہی اور بے حسی نے کیسے کیسے ہیرے خاک میں ملادیے، اگر معاشرہ کبھی اس کا حساب لگانے بیٹھے تو وہ نتائج کے آئینے میں اپنی صورت دیکھنے کے بھی قابل نہ رہے..

اس کے بعد ہم اپنی اپنی زندگیوں میں کھو گئے، ہم میں ایک قدر مشترک تھی، ہم دونوں کا تعلق بے چین روحوں کے جنونی قبیلے سے تھا. معاشرے کی لگی بندھی سوچ اور نپے تلے رویے سے ہٹ کر اپنی راہ بنانا کچھ اتنا آسان نہیں ہے، ہم ہمیشہ اسی مشکل سے دوچار رہے. وہ بے چین روح رکھنے والا طارق اس راہ میں یوں بے راہ ہوا کہ نشے کی لت کا ایسا عادی بنا کہ اسے دیکھ کر میں بشمکل اپنے آنسو ضبط کر پاتا. میں خود بھی اپنے شکستہ وجود کو منتشر ہونے سے بچانے کے جتن کر رہا تھا. اس لیے کبھی آوارگی، کبھی مصوری اور کیلیگرافی، کبھی فوٹوگرافی، کبھی شاعری… کبھی کچھ تو کبھی کچھ.. یہ سب میرے، خود کو یکجا رکھنے کے بنائے ہوئے بہانے تھے..

اس دوران ہم کبھی ملتے، تو گھنٹوں ہماری بحث چلتی رہتی.. خدا جانے، یہ ہماری ملاقاتیں ہوتیں یا ہم ایک دوسرے کو کاندھا دینے چلے آتے تھے…؟

طارق نے منشیات کا شکار ہونے کے بعد زندگی کو جس طرح بھگتا، اگر کوئی اور ہوتا تو کب کا ٹوٹ کر بکھر چکا ہوتا… زندگی کے بیس پچیس سال کوئی معمولی عرصہ نہیں تھا، لیکن طارق ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا.. کئی بار کے علاج معالجے کے بعد بھی وہ خود کو اس دلدل میں دھنسنے سے نہ بچا پایا، لیکن اس کی ہمت اب بھی زندہ تھی… اور وہ بالآخر اس دلدل سے نکل ہی آیا… اور ایسا نکلا اس نے کہ ایک دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیا!

آج میں اسی طارق کے ساتھ ڈملوٹی میں کھڑا تھا، جس نے منشیات کے دیو کو شکست دے کر اس کے منہ سے اپنی زندگی دوبارہ حاصل کر لی تھی. ہم اسی ڈملوٹی میں کھڑے تھے، جس کے کنوؤں سے انگریز دور سے لے کر آج تک کراچی کو میٹھا پانی ملتا ہے، لیکن جو خود منشیات کے زہر میں گھرا ہوا ہے.

طارق جب منشیات کی لت سے نکلا تو اس نے اپنے علاقے ملیر کو اس بلا سے بچانے کی ٹھان لی اور ملیر سے منشیات کو ختم کرنے کی تحریک کی داغ بیل ڈالی. منشیات کے عادی افراد سے ملا، ان کے گھر والوں سے… ان کی منتیں کیں.. پورے علاقے میں جگہ جگہ اس لت کے خلاف بیداری کی مہم چلائی اور ریلیاں نکالیں. اسے دھمکیاں بھی ملیں لیکن وہ عزمِ مصمم کے ساتھ ڈٹا رہا.

ہم نے تین ماہ قبل ڈملوٹی میں بھی منشیات کے بڑھتے ہوئے آزار کے خلاف ایک ریلی نکالی تھی، جس میں چند ہی لوگ شریک تھے، ہم ایک طرف تقریریں کر رہے تھے اور دوسری طرف لوگ کھیل کود میں مصروف تھے. میدان کے گرد بیٹھے تماشائی کھیل کے ساتھ ساتھ ہمارا تماشا بھی دیکھ رہے تھے شاید، اس دن یہ سب کچھ دیکھ کر میں نے طارق کے چہرے پر مایوسی کے آثار بھی دیکھے، میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا، دیکھنا یہیں سے امید کی کرن پھوٹے گی… جانے وہ کیسی مبارک گھڑی تھی، جس میں خدا نے میرے منہ سے یہ الفاظ کہلوائے تھے.. اور وہی ہوا… اس علاقے کے لوگوں نے منشیات کے خلاف وہ کر دکھایا جو واقعی میں ناقابلِ یقین تھا.. جس علاقے میں منشیات سرِعام فروخت ہو رہی تھی اور جہاں دس سے بارہ سال کے بچے بھی منشیات کے عادی بن گئے تھے، آج وہاں اس علاقے کے باہمت فیض بھائی، سر سلیمان، جاوید، علی بھائی، فضل اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اس لعنت کو تقریباً ختم کر دیا ہے. آج منشیات کے عادی لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کا علاج طارق اپنے قائم کیے گئے ہسپتال میں کر رہا ہے ، جس کا نام اس نے "راستہ” رکھا ہے.. جو اگرچہ مالی وسائل کی شدید کمی کا شکار ہے، لیکن اس کے باوجود طارق سب کچھ ﷲ کے حوالے کیے، اپنے کام میں مگن ہے.

طارق نے جس "راستہ” کی بنیاد رکھی ہے، یہ زندگی کا راستہ ہے، یہ وہ راستہ ہے جس پر ماؤں کی، آنسوؤں میں بھیگی ہوئی دعائیں اور پھیلے ہوئے دامن سایہ کیے ہوئے ہیں. جہاں طارق ان کے بچوں کو اپنے سگے بھائیوں کی طرح پھر سے زندگی کے راستے پر ڈالنے میں جٹا ہوا ہے… آج طارق کی آنکھوں میں نیند انہی لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے رتجگوں کی وجہ سے ہے، وہ نہ تو تھکا ہے اور نہ ہی مایوس ہوا ہے. لیکن ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی اس امید کو زندہ رکھنے میں دامے درمے قدرے سخنے اس کا ساتھ دیں اور اس کے دست و بازو بنیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close