چاچا فیض محمد گبول کی برسی پر عقیدت کے چند الفاظ

اَمَر گُل

سوئے ہوؤں کے درمیاں
سدا کا جاگتا
دھرتی کا وہ حلالی بیٹا
دھرتی کی گود میں سر رکھ کر
گہری نیند سو گیا۔۔
اس نے سمندر سی وہ آنکھیں موند لیں،
جنہوں نے خدائی کے دعویدار فرعون کو روکا
اور وفائے وطن کے موسیٰ کو راستہ دیا۔۔
ملیر کے بنو اسرائیل بچھڑے کھاتے کھاتے
فلسطینی بن گئے
لیکن وہ تنِ تنہا راؤ انوار جیسے فرعونِ وقت سے لڑتا بِھڑتا رہا۔۔

اس نے مفلسی اور کسمپرسی میں بھی
ملک ریاض جیسے قارون کو دھتکار دیا
قارونِ وطنِ خداداد کی دولت کے باز نے
اس کے ایمان کو خریدنے کے لیے
کئی اونچی اڑانیں بھریں
اور بولی کے آسمان کو چھوا
لیکن اس جواں بوڑھے کے انکار کے سورج نے
اس کے پر جلا دیے
اور قارونِ وقت ملک ریاض کی دولت کا باز
جُھلس کر اس کے قدموں میں گر پڑا!

نمرود کے ہرکارے بھی
اسے ’راہِ راست‘ پر لانے کے لیے
اپنی زبانیں کبھی مکھن بناتے رہے
اور کبھی سانپ کا، زہر میں ڈوبا ہوا پھن!

وہ جانتا تھا
کہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے،
اس پر محل نہیں
صرف بے سر و سامانی ہے۔۔
وہ جانتا تھا
کہ اس نے جو راہ چُنی ہے،
اس راستے پر قیمتی کپڑوں کے تھان نہیں ملیں گے
بلکہ پولیس کے شکاری کتوں کے پنجے
اس کے پرانے کپڑوں کا گریباں تک چاک کر دیں گے!

وہ جانتا تھا
کہ جس راستے پر اس کے قدم چل پڑے ہیں،
اس پر دولت کا سائباں نہیں
صرف خودداری کی تپتی دھوپ ہے!

وہ جانتا تھا
کہ جس راستے کا اس نے انتخاب کیا ہے،
اس راستے پر چل کر
بڑی بڑی چمکتی گاڑیوں کا حصول ممکن نہیں
بلکہ اسے اپنے پاؤں تک چھلنی کرنے پڑیں گے!

اس نے سب کچھ جانتے ہوئے
آسائشوں کو تیاگ کر
آزمائشوں کو چُنا تھا،
کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا
کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔۔
وہ جانتا تھا
کہ یہ معاملہ محض ایک قطعہِ زمیں کی فروخت کا نہیں
بلکہ دھرتی کے سودے کا ہے،
سو اس غیرت مند بوڑھے نے
دولت کے ڈھیر کی بجائے
اپنی ماں کو چُنا۔۔
وہ دھرتی ماں سے محبت کی امر علامت بن گیا،
اس نے رہنے کے لیے ہمارے محبت بھرے دلوں کا انتخاب کیا،
اب وہ دنیا کے جھوٹے خداؤں سے انکار کا
روشن استعارہ بن کر
ہمیشہ عظمتوں کے آسمان پر
جگمگاتا رہے گا۔۔

وہ جانتا تھا
کہ مالکانِ ملیر کے خطابات سر پر سجائے ہوئے لوگوں نے
اپنی زبانوں پر سیاسی مصلحتوں کا تالا لگا کر،
چابی انتخابی سیاست کے جوہڑ میں پھینک دی ہے!!

لیکن پہوارو کا وہ عظیم بیٹا
خاموشی کے اس حبس زدہ موسم میں بھی
ملیر کی صدا بن کر گونجا!

لوگ اپنی جیبیں بھرتے رہے
اور وہ درویش
اپنی چاک گریباں خون آلود قمیض چھوڑ گیا
کیونکہ وہ جانتا تھا
کہ کفن میں کوئی جیب نہیں ہوتی۔۔!

یوں وہ ایک نحیف سا بوڑھا
فیلِ بدمست کے لیے ابابیل بن گیا،
اور ہمارے لیے منزلوں کی سبیل بن گیا۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close