مہمانوں کی آمد مرحبا!

وسعت اللہ خان

بچپن کی یادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کبھی گھر میں اعلان ہوتا کہ کل پرسوں کوئی اہم مہمان آنے والا ہے اور وہ چند دن قیام بھی کرے گا تو بس پھر کیا تھا، سب لگ پڑتے۔۔

فرش چمکائے جاتے، کونوں کھدروں میں جمع شدہ کچرا کھرچ کھرچ کے صاف ہوتا، بستر کی چادریں، تکیوں کے غلاف اور تولیے دھو کے استری کر کے بدلے یا تہہ کر کے رکھےجاتے، چارپائیوں تلے مدت سے پڑے گرد آلود جوتے جھاڑ پونچھ کے الماریوں کے نچلے خانے میں ترتیب وار جمع ہو جاتے۔ باورچی خانے میں پڑے فالتو برتن اسٹور میں اور اسٹور سے پھول دار ڈنر سیٹ اور واٹر سیٹ رسوئی میں منتقل ہو جاتے۔

بیت الخلا کی دن میں دو بار دھلائی صفائی کا حکم فوراً نافذ ہو جاتا۔ پرانی صابن دانیاں پھینک کے نئی میں نیا صابن دھرا جاتا۔ بجلی کے سوئچ بورڈز پر لگے میلے بٹنوں کی بھی مہین چیتھڑوں سے صفائی ہوتی۔ بچوں کو دھمکی آمیز نرم لہجے میں ضروری ہدایات جاری ہوتیں، مثلاً مہمان کے کمرے کے باہر شور نہیں مچانا۔ کھانے کی میز پر ندیدہ پن نہیں دکھانا، مہمان جتنا پوچھے، بس اتنا جواب دینا ہے۔ مہمان کے سامنے ”تم اور تو‘‘ کے بجائے ہر بڑے چھوٹے کو (کم ازکم چند روز کے لیے) صرف آپ کہہ کے مخاطب کیا جائے، بصورتِ دیگر مہمان کی رخصتی کے بعد مناسب تادیبی و تعزیری کاروائی ہو گی۔

بچپن کی یادوں کا یہ باب بے طرح مجھے یوں یاد آ رہا ہے کہ ان دنوں ہمارے ریاستی بزرگوں کو کچھ خصوصی مہمانوں کا انتظار ہے ۔ان کے بارے بس اتنا بتایا گیا کہ وہ ہمارے لیے 70 سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تحفہ لے کر آ رہے ہیں۔ ان کے سواگت کے لیے پہلے ہی اسپیشل انویٹسمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (خصوصی سرمایہ کاری کا سہولت کار ادارہ) بن چکی ہے۔

ویسے بھی اب عالمی برادری میں ہماری شہرت یہی ہوتی جا رہی ہے کہ ’تم آؤ گے تو کیا لاؤ گے، ہم آئیں گے تو کیا دو گے۔‘

چنانچہ آج کل کاشانہِ ریاست کی رگڑائی و ہمواری کا کام جاری ہے تاکہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے اور مہمانوں کا قیام خوش گوار رہ سکے۔ بجلی اور گیس کی چور بازاری کے خاتمے کے لیے متعلقہ محکمے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لٹھ لے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

ڈالر کی اسمگلنگ روک کے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دینے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو نیند سے اٹھا کے ہڑبڑا دیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کو بُھوسے میں سے سوئی کی طرح نکال کے ان کا کریا کرم کرنے کی کوششوں میں بھی زور پیدا ہو گیا ہے۔ قومی خسارہ کم کرنے کے لیے گیس پٹرول اور بجلی کے رعائتی نرخوں کی ڈھال ہٹا کے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے خونخوار قیمتوں کو عوام پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

نجکاری کی وزارت کے لیے آنے والے دن بہت مصروف ہوں گے۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز، ایئر پورٹس ، بجلی کے تقسیم کار ادارے، کارپوریٹ فارمنگ اور معدنیات وغیرہ سمیت متعدد سرکاری شعبے جلد از جلد نج کاری کے لیے شارٹ لسٹ کیے جا رہے ہیں۔

ریاستی انصرام میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے احتسابی ادارے نیب کے ایکٹ میں گزشتہ حکومت کی من مانی ترامیم کو کالعدم قرار دے کر اربوں روپے کی ہیرا پھیری سے متعلق مقدمات باہمی پارلیمانی افہام و تفہیم سے نمٹائے جانے کے عمل کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ چنانچہ اب ملک میں کرپشن میں کمی کے ذریعے قطار سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو دوبارہ ڈسپلن کرنے کے لیے نیب کو اس کے نوکیلے دانت واپس ملنے کا امکان ہے۔

جن شریر سیاسی بچوں نے پدرانہ شفقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی بزرگوں سے حد سے زیادہ بدتمیزی شروع کر دی تھی، انہیں پھر سے تمیز سکھانے کے لیے کان اینٹھنے کا ایک علیحدہ انتظام وضع کیا گیا ہے ۔

ان نادان و ناہنجار بچوں کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے مقدمات کے ٹھنڈے گرداب میں غوطے دیے جا رہے ہیں۔ جس طرح بدتہذیب بچوں کو والدین تنگ آ کے کچھ دیر کے لیے اندھیرے کمرے میں بند کر دیتے ہیں، اسی طرح ریاست ایسے بد عقلوں کو جیل میں رکھ رہی ہے تاکہ انہیں لگ پتہ جائے کہ ’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے‘ کی کہاوت کا حقیقی مطلب کیا ہے ۔

اور پھر چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں جب یہ جھنجوڑے ہوئے بچے حصہ لیں گے تو سرمایہ کاری کے لیے سازگار سیاسی و اقتصادی استحکام لانے کی خاطر خاندان کے دیگر سعادت مند بچوں کی طرح فرماں برداری کے فوائد کے کما حقہ قائل ہو چکے ہوں گے۔

تب تک انہیں یہ سبق بھی ازبر ہو چکا ہوگا کہ والدین کی شفقت اور لاڈ پیار کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچہ باپ کی داڑھی پکڑ کے جھول جائے اور اس کے سر پر سرکس کے بازی گروں کی طرح چڑھنے کی کوشش کرے۔

انتخابات کا جو بھی نتیجہ مرتب ہوگا، سب کو قبول کرنا ہوگا اور یوں ویسا والا سیاسی استحکام آجائے گا، جس کے نتیجے میں وہ سو ارب ڈالر آئیں گے کہ جن کی اطلاع ہم تک ڈالر لانے والے ممکنہ مہمانوں سے بھی بہت پہلے پہنچا دی گئی ہے۔

یعنی منڈپ سجا دیا گیا ہے، شامیانے تن چکے ہیں، کرسیاں بچھ گئی ہیں، ریڈ کارپٹ بھی کھل گیا ہے۔ خالی دیگیں کھڑک رہی ہیں، باورچی اور باوردی بیرے مستعد ہیں، بس مہمانوں کے آنے کی دیر ہے۔

اگر اوپر والوں سے پوچھو کہ کون کون سے لدے پھندے مہمان آ رہے ہیں، کتنے ہیں، نام کیا ہیں، کب تک قیام کریں گے، کیا کیا تحائف لائیں گے اور ہم انہیں کون کون سے منصوبے بطور نذرانہ پیش کریں گے؟

ایسے بچگانہ سوالات کا فی الحال بس ایک ہی جواب میسر ہے۔ بزرگوں کے لبوں پر ایک پراسرار خاموش مسکراہٹ۔۔

اس کے برعکس ہمارے پڑوس میں جی ٹوئنٹی ہو گئی۔ بھارت سے براستہ خلیجی ممالک یورپ تک امریکی سرپرستی میں اربوں ہا ڈالر کی سرمایہ کاری کا ابتدائی خاکہ بھی سامنے آ گیا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دلی میں جی ٹوئنٹی کے بعد دو اضافی دن بھی گزار لیے اور اس دوران پچاس ارب ڈالر کے صرفے سے ریاست گجرات میں دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کے منصوبے میں آرامکو اور ریلائنس انڈیا کے اشتراک سمیت خلائی و دفاعی منصوبوں، سیمی کنڈیکٹرز کی تیاری اور قابلِ تجدید توانائی اسکیموں میں کل ملا کے اگلے پانچ برس میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اسی عرصے میں دو طرفہ تجارت 43 ارب سے بڑھا کے 100 ارب ڈالر تک پہنچانے کی یاد دادشتوں کا بھی تبادلہ ہو گیا۔

مگر گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔ اگر ہمارے ریاستی بزرگوں نے اگلے پانچ برس میں انہی برادر ممالک کی جانب سے 100 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی خوش خبری سنائی ہے تو کسی بنیاد پر ہی سنائی ہوگی۔ ہمیں نہ ان کی اور نہ مجوزہ سرمایہ کاری کرنے والوں کی نیت پر شبہہ ہے۔

چنانچہ فرش کی صفائی، بستر کی چادریں، جوتوں کی پالش، کپڑوں کی استری اور صابن دانی کی صفائی سمیت کسی کام سے منہ نہیں موڑنا۔

کوا تو منڈیر پر بیٹھ گیا ہے، مہمان بھی بس آتے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے یہ نجات دھندہ سفید گھوڑے پر بیٹھ کے آ جائیں۔ جیسا کہ ہم نسل در نسل سنتے آ رہے ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close