جامشورو کی حدود میں بحریہ ٹاؤن-ٹو ’کراچی‘ کے نام سے لے کر زمین کے حصول میں بے قاعدگیوں تک اس سے تنازعات کی ایک طویل فہرست جڑی ہوئی ہے، لیکن اب اس پر عوام کے اربوں روپے داؤ پر لگانے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں
بحریہ ٹاون ٹو کے منصوبے پر نہ صرف کئی سوالات نے جنم لیا ہے بلکہ متعدد الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ مثلاً کیا بحریہ ٹاون کراچی ٹو کا منصوبہ غیر قانونی ہے؟ تو دستیاب دستاویزات نے میگا منصوبے کو واضح طور پر مشکوک بنا دیا ہے
دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لیے 4 دیہوں پر مشتمل 2 ہزار 16 ایکڑ زمین کی منظوری دی گئی تھی اور منظور کی گئی زمین کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ منظوری کے برعکس مبینہ طور پر منصوبہ کئی ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے
واضح رہے کہ یہی معاملہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے پہلے فیز کے حوالے سے بھی عدالت میں ثابت ہو گیا تھا ، لیکن اس عدالتی فیصلے، جس میں بحریہ ٹاؤن کراچی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا، پر عمل درآمد بنچ نے حیران کن طور پر بارگیننگ کے ذریعے اسے جرمانے میں تبدیل کر دیا تھا
بحریہ ٹاؤن کے مطابق فیز ٹو منصوبے کی زمین پیراڈائز ریئل اسٹیٹ پرائیوٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے، جبکہ پیراڈائز ریئلل اسٹیٹ نے بحریہ ٹاون ٹو کو زمین جنرل پاور آف اٹارنی پر منتقل کی۔ منصوبے پر وزارتِ دفاع کے کی پوائنٹ انسٹالیشن ڈویژن کو شدید تحفظات ہیں
وزارت دفاع کی جانب سے 19ع جنوری کو چیف سیکرٹری سندھ کو خط بھی لکھا گیا، جس میں کہا گیا کہ ضلع جامشورو میں پی اے ایف بیس بولھاڑی اور دیگر حساس تنصیبات کے اطراف تیزی سے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کی جا رہی ہیں اور تیزی سے جاری تعمیراتی کام قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے
علاوہ ازیں بحریہ ٹاون ٹو کا منصوبہ جنگلات کی زمین پر تعمیر کیا جا رہا ہے اور گزٹ آف پاکستان کے مطابق جن 4 دیہوں پر تعمیرات کی جا رہی ہیں، وہ جنگلات کی زمین ہے۔ 4 دیہوں میں دیہہ ببر بند، دیہہ حتھل بُتھ، دیہہ اُٹھ پلان اور دیہہ سری شامل ہیں
مزید یہ کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو این او سی کے لیے جمع کرایا گیا فارم بھی مکمل نہیں اور نامکمل معلومات ایس بی سی اے کے فارم کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایس بی سی اے نے نامکمل فارم کے ہوتے ہوئے منصوبے کے لیے 2019ع میں این او سی جاری کیا
دستاویزات کے مطابق ایس بی سی اے نے بحریہ ٹاون ٹو کو بغیر مالکانہ حقوق کے این او سی جاری کیا اور این او سی جاری کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر جامشورو سے مالکانہ حقوق کی تصدیق کے لیے ایک مہینے کا وقت بھی دیا۔ دیگر بنیادی سہولتوں کی این او سی کے لیے بھی ایک ماہ کا وقت دیا گیا
بحریہ ٹاون ٹو نے حیسکو اور ایس ایس جی سی کا این او سی مبینہ طور پر ایس بی سی اے کو جمع نہیں کرایا گیا، جبکہ متعلقہ محکموں کے این اوسیز اور مالکانہ حقوق کے بغیر ایس بی سی اے منصوبے کا این او سی جاری نہیں کرسکتا۔ سی اے اے، ایئرفورس اور محکمہ ماحولیات سمیت دیگراداروں سے بھی مبینہ طور پر این او سی حاصل نہیں کیا گیا
مزید برآں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ سرکاری زمین پرائیوٹ آدمی کو کیسے منتقل ہوئی؟ اس کا بھی ٹھوس ریکارڈ موجود نہیں جبکہ فارم سیون اے اور بی میں درج کی گئی معلومات بھی مشکوک ہیں۔ فارم سیون اے میں زمین کو حق قبضہ کی بنیاد پر منتقل کیا گیا اور لوگوں کے زبانی دعوؤں پر زمین کے کاغذات بنائے گئے۔ زبانی دعوؤں کی بنیاد پر حاصل کی گئی زمینوں پر اینٹی کرپشن نے 2005 میں جعلسازی کے مقدمات قائم کیے
دستاویزات کے مطابق بحریہ ٹاون ٹو کے منصوبے کی 2 دیہیں 2012 میں ایل یو ڈپارٹمنٹ نے این ایچ اے کے حوالے کی تھیں اور ایل یو ڈپارٹمنٹ صرف سرکاری زمین ہی کسی دوسرے محکمے کو دینے کا مجاز ہے۔ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ پرائیوٹ زمین سرکاری ادارے کو دینے کا اختیار نہیں رکھتا اور بحریہ ٹاون ٹو کا دعویٰ ہے کہ منصوبے کی زمین پیراڈائز ریئل اسٹیٹ پرائیوٹ لمیٹڈ پرائیوٹ شخصیات سے حاصل کی گئی
ایل یو ڈپارٹمنٹ نے 2012 میں دیہہ حتھل بتھ اور دیہہ ببر بند کی زمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو منتقل کر دی تھی اور وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری سے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے 2 ہزار 673 ایکڑ زمین این ایچ اے کے حوالے کی تھی۔ ایل یو ڈپارٹمنٹ نے 2017 میں ڈی سی ملیر ٹھٹہ اور جامشورو کو زمین منسوخ کرنے کے احکامات دیئے تھے اور منسوخی کی وجہ این ایچ اے کی جانب سے زمین کی قیمت سندھ حکومت کو ادا نہ کرنا تھی
این ایچ اے کی پٹیشن پر سندھ ہائی کورٹ نے ایل یو ڈپارٹمنٹ کے 2017 کے احکامات کو معطل کر دیا اور ایس بی سی اے قوانین کے مطابق کسی بھی پرائیوٹ سوسائٹی پر 15 فیصد پلاٹ ایس بی سی اے کے ساتھ مارگیج کرنا ضروری ہے
اس کے ساتھ ہی بحریہ ٹاون ٹو کے منصوبے میں ایس بی سی اے کے ساتھ مارگیج کا معاملہ بھی مشکوک ہے اور بحریہ ٹاون کی جانب سے مارگیج ڈیڈ کے بجائے سادہ کاغذ پر تفصیلات جمع کرائی گئیں اور جمع کرائی گئی تفصیلات میں پلاٹس پر کوئی نمبر درج نہیں جبکہ سادہ کاغذ پر پیراڈائز ریئل اسٹیٹ لمیٹڈ کے اٹارنی کے دستخط بھی موجود نہیں
بحریہ ٹاون ٹو کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ کے سرکٹ کورٹ حیدرآباد میں پٹیشن زیرسماعت ہے جو ڈی 129/23 حیدرآباد کے رہائشی صلاح الدین کی جانب سے دائر کی گئی ہے
سندھ ہائی کورٹ نے سولہ محکموں، سرکاری افسران اور بحریہ ٹاون کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے جبکہ بحریہ ٹاؤن کے کراچی میں پہلے منصوبے پر کئی شکایات اور الزامات سامنے آچکے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن اسپورٹس سٹی کی نان کلئیر زمین میں اب بھی کئی متاثرین کے کروڑوں روپے پھنسے ہوئے ہیں۔