تباہ کن سیلاب سے سندھ میں کسانوں کی تباہ حالی ”ہم پچاس سال پیچھے جا چکے!“

ویب ڈیسک

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، کسان اس سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگا رہے ہیں تاہم اس کے طویل المعیاد اثرات پہلے ہی واضح ہو چکے ہیں

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق سندھ کے ایک کسان اشرف علی بھنبرو نے بتایا کہ ہم پچاس سال پیچھے جا چکے ہیں۔ اشرف بھنبھرو کی ڈھائی ہزار ایکڑ زمین پر کپاس اور گنے کی فصل کٹائی کے قریب تھی، اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے

مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہیں اور بالخصوص سندھ بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے

یہ صوبہ طاقتور دریائے سندھ کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم ہے، جس کے کناروں پر صدیوں سے کھیتی باڑی کی جا رہی ہے اور یہاں آب پاشی کے نظام کا ریکارڈ چار ہزار سال قبل مسیح سے ہے

سندھ میں جہاں زراعت صدیوں سے کی جارہی ہے اور اسی طرح یہاں کے مسائل دو طرفہ ہیں

سندھ ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے زیرآب ہے لیکن نکاسی آب کہیں نہیں ہو رہی کیونکہ دریائے سندھ کی سطح پہلے ہی مکمل ہے۔ ایسے میں حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا، جس کی صوبے بھر سے تباہ حال لوگ دہائیاں دے رہے ہیں

اشرف علی بھنبرو کا کہنا تھا کہ ایک موقع پر بارش مسلسل 72 گھنٹے ہوتی رہی، اور ان کا صرف خام مال کا کم از کم 27 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کھاد اور پیسٹیسائیڈز کی لاگت شامل ہے، ہم نے اپنا نفع شامل نہیں کیا، جو اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا تھا کیونکہ بمپر فصل تھی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب تک کھیتوں سے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی، اشرف علی بھنبرو جیسے کسان سردیوں کی فصل گندم کی بوائی نہیں کر سکیں گے جو کہ ملک میں تحفظ خوراک کے لیے کلیدی ہے

سکھر سے چالیس کلومیٹر دور شمال مشرق میں سموں خان گاؤں میں اپنی زمین پر انہوں نے کہا ہمارے پاس ایک مہینہ ہے، اگر اس عرصے میں پانی ختم نہیں ہوا تو گندم کی پیداوار نہیں ہو سکے گی

پاکستان کئی برسوں میں گندم کی پیدوار میں خودکفیل ہے لیکن حال ہی میں درآمد پر انحصار کیا ہے تاکہ ملک میں محفوظ ذخائر کو یقینی بنایا جا سکے

روس سے کم قیمت پر گندم خریدنے کے باوجود اسلام آباد بمشکل گندم درآمد کر سکتا ہے

ملک غیرملکی قرض دہندگان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے، گزشتہ ہفتے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام بحال ہوا ہے، جس سے وہ غیر ملکی قرض کی قسط بھی ادا نہیں کرسکتا، اندازے کے مطابق سیلاب سے ہونے والے تقریبا دس ارب ڈالر کے نقصانات کی تو بات ہی نہ کریں

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سکھر سے سموں خان جاتے ہوئے ہائی وے پر سیلاب کی تباہی کے چونکا دینے والے مناظر تھے

کچھ جگہوں پر اتنی دور تک پانی تھا، جہاں تک نظر دیکھ سکتی تھی، جہاں پر کپاس کی فصل سیلاب میں ڈوبی نظر آرہی تھی، ان کے پتے براؤن ہو گئے ہیں، جس میں شاید ہی کوئی بیل نظر آئے

سکھر سے تیس کلو میٹر دور شمال مشرق میں ایک کسان لطیف ڈنو نے بتایا کہ کپاس کو بھول جائیں

بڑے زمیندار ممکنہ طور پر سیلاب سے باہر نکلیں گے لیکن لاکھوں چھوٹے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا

زیادہ تر کسان صوبے بھر کے مختلف دیہاتوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی زمینوں پر خوراک لگا کر کمائی کر سکیں گے

لیکن وہ بھی زیر آب ہیں، اور لاکھوں کسان سیلاب میں گھرے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر رہنے کی جگہ تلاش کررہے ہیں

ہر سیزن میں اپنے چھ فیملی ممبران کے ہمراہ مزدوری کرنے والے سعید بلوچ نے بتایا کہ کچھ بھی نہیں بچا

صرف کسان ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ سپلائی چین سے جڑے تمام لوگ اس کے منفی اثرات محسوس کر رہے ہیں

صالح پٹ میں کپاس کے تاجر وسیم احمد نے بتایا کہ ہم برباد ہو گئے، وہ دیگر لوگوں کی طرح مہنگائی اور منڈی میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خریداری کے لیے ایڈوانس میں رقم ادا کرتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ دو سو من (تقریباً آٹھ ہزار کلو) کی توقع کے خلاف صرف پینتیس من حاصل کی جا سکی

سندھ میں کپاس کی منڈی میں ایک چھوٹے اسٹور میں دو لڑکے بھیگی ہوئی کپاس کو چیک کر رہے تھے کہ شاید کچھ بچائی جا سکے

تاجر احمد نے بند دکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ منڈی اور حتیٰ کہ جننگ فیکٹریز بھی بند ہو چکی ہیں

بے بسی کا احساس بہت زیادہ ہے، لیکن کپاس چننے والا لطیف ڈنو اللہ سے امید رکھتا ہے

ان کا کہنا تھا ”ہم اللہ کی طرف دیکھتے ہیں، وہ ہی بچانے کا والا ہے۔“

لائیو اسٹاک کا نقصان

سندھ میں سیلاب کی وجہ سے اب تک لائیو اسٹاک کے شعبے میں دس ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے

ڈائریکٹوریٹ جنرل لائیو اسٹاک سندھ کی جانب 31 اگست 2022 تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق لائیو اسٹاک کے شعبے میں تیس ہزار جانوروں کی ہلاکت کے علاوہ تیرہ ہزار باڑے جزوی اور چھ ہزار باڑے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں

ادارے کے مطابق یہ نقصانات کا ابتدائی تخمینہ ہے اور اس شعبے میں نقصان میں اضافے کا مزید اندیشہ ہے

تیس ہزار مویشیوں کی ہلاکت سے تین ارب روپے اور باڑوں کی تباہی سے سات ارب روپے کا نقصان ہوا ہے

سندھ کے تقریباً تمام اضلاع میں بارشوں اور سیلاب سے یہ شعبہ متاثر ہوا ہے۔ سندھ میں مویشیوں کی ہلاکت اور باڑوں کی تباہی کے حوالے سے سب سے زیادہ نقصان لاڑکانہ میں ہوا ہے۔ لائیو اسٹاک کے ساتھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ زراعت کا ہے

زراعت کا نقصان

محکمہ زراعت سندھ کے شعبہ ایکسٹینشن کے ڈائریکٹر علی نواز چنڑ نے اتوار کو بتایا ’سندھ میں کپاس کی 100 فیصد فصل کو نقصان ہوا ہے‘

سندھ کے ضلع سانگھڑ کا شمار پاکستان میں کپاس کی فصل کی زیادہ پیداوار دینے والے اضلاع میں کیا جاتا ہے

مقامی کاشت کاروں کے مطابق ضلع سانگھڑ کی اراضی کے لحاظ سے سب سے بڑی تحصیل کھپرو میں کپاس کی فصل مکمل طور پر سیلاب کے باعث تباہ ہوگئی ہے

ضلعے میں شدید سیلابی صورتحال کے بعد سندھ حکومت نے صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح سانگھڑ کو بھی آفت زدہ قرار دیا ہے

تحصیل کھپرو کے نواحی گاؤں حاجی فیض محمد ہنگورجو کے رہائشی حاجی ریاض ہنگورجو اور ان کے چچازاد بھائیوں اور چچا کی کل ملا کر 650 ایکڑ زرعی زمین ہے، جس میں 450 ایکڑ پر کپاس کی کاشت کی جاتی تھی

سیلابی صورتحال کے بعد 450 ایکڑ میں سے صرف 75 ایکڑ زمین سیلاب سے محفوظ رہی جب کہ باقی ساری زمین مکمل طور پر زیر آب آگئی ہے۔

حاجی ریاض ہنگورجو نے بتایا کہ بارشوں کے بعد ہر طرف سیلابی صورت حال ہے اور نکاسی آب کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی

ان کے مطابق: ’یہ بارشیں اور سیلاب عین اس وقت شروع ہوئے جب فصل تقریباً پک گئی تھی۔ اچھی پیداوار کے آسرے پر کاشت کاروں نے نہ صرف اپنی تمام جمع پونجی بلکہ قرضہ لے کر کپاس کی فصل کاشت کی۔ مگر اب فصل تباہ ہونے کے بعد ایک طرف تو کوئی آمدنی نہیں ہوگی۔ جمع پونجی بھی ختم ہوگئی اوپر سے قرضہ بھی ادا کرنا ہوگا۔‘

محکمہ زراعت سندھ کے شعبہ ایکسٹینشن کے ڈائریکٹر علی نواز چنڑ نے بتایا کہ ’22 اگست تک سندھ میں کپاس کی فصل کو 44 فیصد نقصان ہوا تھا، مگر 21 اور 22 اگست کو آنے والی بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث زرعی زمینوں سے نکاسی آب نہیں ہوسکی اور صوبے میں کپاس کی فصل مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے۔‘

’کپاس کی فصل سے اگر دو دن تک بارش یا سیلاب کے پانی کی نکاسی نہ کی جائے تو وہ مکمل طور تباہ ہوجاتی ہے۔ صوبے بھر میں زرعی زمین مکمل طور پر زیر آب ہے اور نکاسی آب کی کوئی جگہ نہیں ہے، اس لیے کپاس کی فصل مکمل طور تباہ ہوئی ہے۔ اب پانی میں کھڑی فصل سے کچھ کپاس نکالی جائے گی، مگر اس کا معیار انتہائی خراب ہوگا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close