بھارت: الیکٹرانک فضلہ کیسے غریب بچوں کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے؟

ویب ڈیسک

لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونز میں قیمتی دھاتیں تو ہوتی ہیں، تاہم تلف شدہ ایسے الیکٹرانک آلات سے ان کے نکالنے کا عمل بہت خطرناک ہے اور عام طور پر غریب بچے یہ کام کرتے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ غیر منظم کام کسی طرح کی بھی نگرانی کے بغیر ہو رہا ہے

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کا مشرقی علاقہ سیلم پور ملک کے سب سے بڑے الیکٹرانک ویسٹ یا تکنیکی فضلے کو تلف کرنے کی جگہ ہے اور لگ بھگ پچاس ہزار لوگ اس فضلے سے قیمتی دھاتیں نکال کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ یہ کام کرنے والوں میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، جو ای-کچرے کو تلف کر کے، اس سے قیمتی دھات نکال کر اور ری سائیکل کر کے روزی کماتے ہیں

تیرہ سالہ ارباز احمد اور اس کا دوست سلمان پلاسٹک کا ایک بڑا تھیلا لے کر الکٹرانک فضلے کے ڈھیر میں سے اپنے کام کی چیز تلاش کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے ننگے ہاتھوں سے سرکٹ بورڈ اور آلات کے دیگر حصوں کو توڑ رہے ہیں۔ وہ بغیر کسی حفاظتی بندوبست کے دھات نکالنے کے لیے سڑک کے کنارے ایسے مواد کو جلاتے ہیں۔ یہ دونوں دوست آج اب تک چار سو روپے کے قیمتی دھات نکال چکے ہیں

احمد کہتے ہیں ”ایسے بھی دن ہوتے ہی،ں جب ہم دس گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں اور زیادہ پیسے کما لیتے ہیں۔ میری کمائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ میں کتنی تیزی سے ڈمپنگ گراؤنڈ پہنچتا ہوں اور کیا حاصل کر پاتا ہوں۔ بعض دن ایسے بھی ہوتے ہیں، جب مجھے مفید دھاتیں بھی مل جاتی ہیں“

پانچ برس قبل احمد اور ان کا خاندان روزی کی تلاش میں ریاست اتر پردیش سے دارالحکومت دہلی منتقل ہوا تھا۔ چھ ارکان پر مشتمل خاندان کی کفالت اور انہیں دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کے لیے، احمد کے والد الیکٹرانک ویسٹ مارکیٹ میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی اس کام پر لگانے کا فیصلہ کیا

احمد ایسے ہزاروں بچوں میں سے ایک ہیں، جو پارا، سیسہ اور آرسینک جیسی زہریلی دھاتیں گلی میں جلاتے رہتے ہیں، کیونکہ سیلم پور کی یہ صنعت غیر رسمی اور غیر منظم ہے

’گلوبل ای ویسٹ مانیٹر 2020‘ نامی ادارے کے مطابق ”سن 2019ع میں دنیا نے مجموعی طور پر 53.6 ملین میٹرک ٹن ای-کچرا پھینکا۔ اس میں بھارت نے 3.2 ملین میٹرک ٹن ای-کچرا پیدا کیا اور اسے ختم کرنے یا پھر ری سائیکلنگ کے لیے اس کا بیشتر حصہ سیلم پور میں بغیر کسی ضابطے کے پھینکا جاتا ہے“

ہر صبح یہاں کمپیوٹرز، ڈیسک ٹاپس، اسکرینز، موبائل فونز اور ایئر کنڈیشنرز کے فضلے سے لدے ٹرک اتارے جاتے ہیں۔ انہیں چننے والے کباڑ کو پہلے الگ الگ کرکے سرکٹ بورڈز، بیٹریوں اور کیپسیٹرز کو اس میں سے چھانٹتے ہیں۔ اس میں سے کچھ کو کیمیائی مواد میں ڈبو دیا جاتا ہے یا تھوڑا سونا، تانبا اور دیگر دھاتیں حاصل کرنے کے لیے اسے جلایا جاتا ہے۔ کچرا چننے والے افراد اس تیزابی عمل کے دوران زہریلے مادوں سے دوچار ہوتے ہیں

اسی خطرے کیے پیشِ نظر بھارت نے اس غیر منظم صنعت سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور سن 2011 اور 2016 میں قوانین کا ایک سلسلہ بھی متعارف ہوا، جس میں تمام ای ویسٹ ری سائیکلنگ سہولیات کی اجازت اور رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے تحت کچرے کو تلف کرتے وقت حفاظتی آلات استعمال کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہیں

تاہم یہ قوانین محض کاغذوں تک محدود ہیں اور ان کا عملی اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے اور بھارت میں ای ویسٹ مارکیٹ کی اکثریت غیر منظم ہے

ماحولیات سے متعلق ایک این جی او ‘ٹوکسکس لنک’ نے حکومت پر مزید سخت قوانین متعارف کرانے اور زمین پر اسے کے موثر نفاذ کی نگرانی کے لیے دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ادارے کو ان مہلک حالات میں کام کرنے والے بچوں کی صورتحال پر بھی تشویش لاحق ہے

تنظیم کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ستیش سنہا سیلم پور سائٹ کا باقاعدگی سے دورہ کرتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ غریب خاندان اپنے بچوں کو اضافی آمدن کے لیے ای ویسٹ نکالنے پر مجبور کرتے ہیں

ستیش سنہا بتاتے ہیں ”بچہ مزدوری کو روکنے اور بچوں کو ای ویسٹ کیمیکلز کے خطرناک ایکسپوزر سے بچانے کے لیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بچوں کے تحفظ اور فضلہ کے انتظام سے متعلق موجودہ قوانین پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مختلف ایجنسیاں، جیسے بچوں کے حقوق کے گروپ، دوسرے محکموں جیسے کہ ضلعی سطح کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں“

ڈاکٹر پرویز میاں سیلم پور کے علاقے کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور وہ ای ویسٹ اٹھانے والے بچوں کی صحت کے خطرات کے بارے میں کافی فکرمند ہیں۔ ان کا کلینک سیلم پور کی گنجان گلیوں میں واقع ہے اور وہ روزانہ بہت سے ایسے بچوں کا علاج کرتے ہیں، جو دھاتوں میں پائے جانے والے کیمیکل کے زہریلے مادوں کے مسلسل ربط کی وجہ سے جلد کی سنگین بیماریوں اور پھیپھڑوں کے دائمی انفیکشن میں مبتلا ہیں

ڈاکٹر پرویز میاں بتاتے ہیں ”ہر سال مریضوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی صحت کی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ خطرناک کیمیکلز کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں میں آگاہی کا واضح فقدان ہے، جو بچوں کے دائمی طور پر بیمار ہونے کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اہم وجہ ہے“

ادھر سیلم پور کی تنگ گلیوں میں احمد اور اس کا دوست مارکیٹ میں آنے والے ای-کچرے کی نئی کھیپ کو تلف کرنے اور اس میں چھانٹنے کے تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے لیے اس کا مطلب زیادہ آمدن ہے۔ تاہم اس آمدن کے لیے انہیں کئی خطرات کا سامنا بھی ہے، جن میں سے کئی خطرات کے بارے میں وہ جانتے بھی نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close