بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں واقع نہرو میموریل میں کشمیر سے متعلق بعض ایسی دستاویزات موجود ہیں، جنہیں ڈی کلاسیفائی کرنے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت یہ کہہ کر اس سے گریز کر رہی ہے کہ ان دستاویزات کو منظرِ عام پر لانے سے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں
گزشتہ دنوں برطانیہ کے ایک روزنامہ ’دی گارجین‘ نے ایک خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی حکومت نے کشمیر پر 1947ع کی خفیہ دستاویزات کو عام کرنے سے انکار کر دیا ہے
کشمیر سے متعلق نہرو میموریل میں موجود ان خفیہ دستاویزات کو ’بچر فائلز‘ کہا جاتا ہے۔ دستاویزات میں ممکنہ طور پر یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے الحاق کے وقت جواہر لال نہرو کن لوگوں سے متاثر ہوئے اور ان کے فیصلوں پر کون لوگ اثرانداز ہوئے۔ علمی اور تاریخی منظرنامے پر ’بچر فائلز‘ میں موجود معلومات بہت اہم ہو سکتی ہیں
یہ دستاویزات بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور انڈین آرمی کے غیر ملکی کمانڈر ان چیف جنرل فرانسس رابرٹ روے بچر کے درمیان 1948 اور 1949 کے دوران کشمیر کے حالات پر رسمی اور غیر رسمی بات چیت (خط و کتابت، گفتگو اور نوٹس وغیرہ) پر مبنی ہے
واضح رہے کہ جنرل بچر کشمیر میں آپریشن کے انچارج تھے۔ انہوں نے ان دستاویزات کو خود دو قسطوں میں نہرو میموریل کے حوالے کیا تھا۔ پہلی بار یہ دستاویزات 1965ع اور پھر 1970ع میں نہرو میموریل کو دی گئیں اور تب سے یہ دستاویزات نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کے بند کمروں میں محفوظ ہیں
بھارت میں ان دستاویزات پر شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے۔ تاہم 2019ع میں جب مودی سرکار نے اچانک جموں و کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں غیر اعلانیہ سیاسی ایمرجنسی نافذ کی تو بچر دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے مطالبات بھی سامنے آنے لگے
بچر دستاویزات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے گزشتہ کچھ سالوں میں ’حقِ اطلاعات‘ قانون کے تحت شہریوں نے کئی درخواستیں حکومت کو دی ہیں، تاکہ بچر فائلز کو سامنے لایا جا سکے، لیکن حکومت ہر بار اسے منظر عام پر لانے سے یا تو گریز کرتی رہی یا اس طرح کے مطالبات کو خاموشی سے کنارے لگاتی رہی
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے بچر دستاویزات کو منظرِ عام پر نہ لانے سے متعلق کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے۔ لیکن ‘دی گارجین’ اخبار نے بھارتی وزارتِ خارجہ اور نہرو میموریل کے درمیان حالیہ دفتری سطح کی معلومات کے تبادلے کا ذکر کیا ہے۔ اخبار نے آف دی ریکارڈ معلومات کے حوالہ سے کہا ہے کہ بھارتی حکومت بچر دستاویزات کو عام کرنے کے حق میں نہیں
اس ضمن میں دہلی یونیورسٹی میں ماڈرن تاریخ کی استاذ مایا جان کہتی ہیں ”تاریخی منظرنامے سے دیکھا جائے تو بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے لیے نہرو اور اس وقت کے متعدد انگریز افسروں کے درمیان خط و کتابت اور تفصیلی طور پر تبادلہ خیالات کا پتا چلتا ہے، جو دستاویزی اور کتابی شکل میں موجود ہیں۔“
ان کے بقول، بچر دستاویزات سے ہمیں نہرو کے کشمیر کے ساتھ جذباتی تعلق کے بارے میں پتا چلتا ہے، دستاویزات میں کہانی جو بھی ہو، ہمیں حق ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں معلومات ہوں
مایاجان کے خیال میں ایسا ممکن ہے کہ کئی اسکالرز نے بذات خود بچر دستاویزات کو دیکھا ہو لیکن اس سے متعلق تفصیلی معلومات موجود نہیں اس لیے تصورات کا سہارا لے کر کچھ بھی کہنا مشکل ہے، تاہم کشمیر جس کے پاس ایک لمبے عرصہ تک اپنا آئین، اپنا جھنڈا اور اپنی خود مختاری رہی ہے، جہاں کئی طرح کی بنیادی سیاسی تبدیلیاں لائی گئیں ہیں، اس کے بارے میں ہر اچھی اور بری چیز جاننا ہمارا علمی حق ہے
واضح رہے کہ بھارت میں ‘حقِ اطلاعات’ کا قانون اپنے شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ ایک عام شہری ایک معمولی درخواست داخل کر کے حکومت سے کسی بھی طرح کی معلومات اور دستاویزات حاصل کر سکتا ہے۔ اسی قانون کے تحت ونکٹیش نایک نامی شہری نے بچر فائل کو منظر عام پر لانے کے لیےکئی درخواستیں داخل کی ہیں
ونکٹیش نایک کہتے ہیں کہ وہ کشمیر پر ایک فلم کی ریسرچ کے دوران نہرو میموریل میں موجود تھے، جہاں وہ جنرل بچر کا انٹرویو پڑھ رہے تھے اس دوران انہیں خیال آیا کہ جنرل بچر نے نہرو کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت اور تبادلہ افکار کی دستاویزات خود میموریل کو دی ہیں
ان کے مطابق ”جب ہم نے میموریل سے گزارش کی کہ ہمیں بچر فائلز دیکھنا ہیں، تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ دستاویزات کلاسیفائڈ ہیں“
تاہم ونکٹیش نے دستاویزات تک رسائی کے لیے نہرو میموریل کے خلاف ایک درخواست مرکزی کمیشن برائے اطلاعات میں جمع کرائی، جہاں انہیں میموریل کی پرائیویسی کے حقوق کا حوالہ دیا گیا
ونکٹیش اب تک ان دستاویزات کو حاصل نہیں کر پائے لیکن ان کی کوششیں جاری ہیں
بچر دستاویزات کے مطالعے کے لیے سامنے آنے والی درخواستوں کے پیشِ نظر نہرو میموریل نے وزارتِ خارجہ سے رابطہ کیا۔ دی گارجین کے مطابق نہرو میموریل نے یہ تجویز پیش کی کہ ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وزارتِ خارجہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے
جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے پروفیسر اور تاریخی دستاویزات پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر سچدا نند کے مطابق نہرو میموریل میں موجود کئی دستاویزات کلاسیفائڈ ہیں، جن میں اندراگاندھی کی کئی دستاویزات بھی شامل ہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں دستاویزات کا کلاسیفائڈ ہونا غیر معقول ہے
سچدانند کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو ان دستاویزات سے کچھ بھی سیاسی فائدہ ہوتا یا نہرو کا برا تصور پھیلانے میں مدد ملتی تو یہ اب تک منظر عام پر آچکی ہوتیں
انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ نہرو نے بی جے پی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے بارے میں کچھ لکھا ہو یا ان دستاویزات میں ایسے واقعات شامل ہوں، جو بی جے پی کے کشمیر کے مؤقف کو کمزور کرتے ہوں، تو اسی خوف میں حکمراں جماعت ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے سے کترا رہی ہے
انہوں نے سوال کیا ”جب سب کچھ پبلک ڈومین میں ہے تو انہیں پبلک کرنے سے کیا نقصان ہوجائے گا؟ ایسے وقت میں جب کہ بی جے پی صبح و شام تاریخ کے صفحات کو کرید کرید کر سچ جھوٹ ملا کر ملک کو گمراہ کررہی ہے اور کشمیر پر بڑے بڑے تاریخی دعوے کررہی ہے، میر ا ماننا ہے کہ بی جے پی کی حکومت کو یہ دستاویزات سامنے لانے چاہئیں“
راشٹریہ جنتا دل کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا نے بچر فائلز کو عام کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خراب ہونے کی وزارتِ خارجہ کی دلیل سے متفق نہیں۔ ان کے بقول دستاویزات کو عام نہ کرنا بی جے پی حکومت کی ایک بڑی غلطی ہوگی
وہ کہتے ہیں ”ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ جب کشمیر کے الحاق کی بات ہورہی تھی تو اس وقت بھارت کے سب سے بڑے لیڈر اور افسر کے درمیان کیا بات چیت ہو رہی تھی۔“
منوج جھا نے نے رواں ماہ پارلیمنٹ میں صدارتی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کشمیر پر ایک بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دہلی کے دربار سے ملک کی نارملسی کو محسوس کرنا اور کشمیر میں جا کر اسے محسوس کرنے میں فرق ہے۔ مہینوں سے کشمیر میں بلڈوزر چلائے جارہے ہیں اور لوگوں کے گھر توڑے جا رہے ہیں۔ کشمیر کو زمین کا ٹکڑا سمجھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہاں زندہ لوگ بستے ہیں۔