پاکستان کی بگڑتی معیشت: نوجوانوں کے مستقبل پر غیر یقینی کے تاریک سائے منڈلانے لگے

ویب ڈیسک

پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بہت سے والدین کو مجبوراً بچوں کی تعلیم ترک کروا کر ان سے کام کرانا پڑ رہا ہے جبکہ صدر پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کی نصف آبادی کو مزدوری یا گداگری کرنا پڑ سکتی ہے

سولہ سالہ نادیہ اپنی والدہ کے ہمراہ روزانہ لاہور کی گنجان گلیوں میں ایک تھکا دینے والا سفر طے کرتی ہیں۔ ایک گھنٹہ طویل یہ مسافت ان کے گھر سے اس گھر تک کی ہے، جہاں وہ بطور ملازمہ کام کرتی ہیں اور واپسی کی ہوتی ہے

نادیہ کے اس مشکل سفر کی ابتدا پچھلے سال ہوئی تھی، جب انہیں مجبوراً پڑھائی چھوڑ کہ اپنی والدہ کے ساتھ کام شروع کرنا پڑا تھا۔ تب ان کے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے میں سات سال کا عرصہ باقی تھا، لیکن ان کے غریب خاندان کو مالی سہارے کی بھی ضرورت تھی

نادیہ کے والد امین ایک سیکیورٹی گارڈ ہیں، جن کی ماہانہ آمدنی صرف اٹھارہ ہزار روپے ہے۔ جب ان سے نادیہ کے تعلیم چھوڑنے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ”وہ میری بیٹی ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ آگے اللہ مالک ہے“

اب صورتحال یہ ہے کہ نادیہ اور ان کی والدہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات بچانے کے لیے روزانہ اپنے کام کی جگہ تک پیدل سفر کرتی ہیں۔ یہ صورتحال اب پاکستان میں تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کے اثرات سے نبرد آزما لوگوں کے لیےکوئی غیر معمولی بات نہیں رہی

سالوں کی مالی بد انتظامی، مالی بدعنوانی، مقتدر قوتوں اور اشرافیہ کی لوٹ مار، کمزور عدالتی نظام اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور گزشتہ موسم گرما میں آئے تباہ کن سیلابوں اور عالمی سطح پر توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے صورتحال کو مزید بدتر بنا دیا ہے

ایک طرف جہاں پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، وہیں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 6.5 بلین ڈالر کے ایک بیل آؤٹ پیکج کی بحالی کے سلسلے میں ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی شرائط عائد کی ہیں

اس مد میں حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کردیا ہے، ساتھ ہی حکام نے ایندھن پر عائد سبسڈی ختم اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ بھی کیا ہے، جس کا کم آمدنی والے خاندانوں پر منفی اثر پڑے گا

اس حوالے سے نادیہ کی والدہ معراج کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب گیس، بجلی اور گھر کے دیگر بڑھتے اخراجات کی وجہ سے ان کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو وہ نادیہ کو اسکول کیسے بھیجیں

عالمی صنفی مساوات کی درجہ بندیوں میں پاکستان کی رینکنگ مسلسل مایوس کن رہی ہے اور شادی کے وقت جہیز دینے کی رسم کی بنا پر بیٹیوں کو عموماً مالی بوبھ میں اضافے کا باعث تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن امین کی سوچ ذرا مختلف ہے

امین اس امید سے اپنی چھ بیٹیوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے خاندان کی نسلوں سے چلی آ رہی غربت ختم کر سکیں گی

فی الحال امین کی پانچ بیٹیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، جن کی اسکول فیس ان کے آجر دیتے ہیں۔ لیکن بڑھتی مہنگائی اور بگڑتی معاشی صورتحال کے باعث اب انہیں اپنی تیرہ سالہ دوسری بیٹی کی تعلیم کا سلسلہ بھی شاید ختم کرانا پڑے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ بھی نادیہ ہی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی

اپنی والدہ کے ساتھ کام سے واپسی کے بعد نادیہ روزانہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ رات گئے، جب ان کی بہنیں پڑھائی میں مصروف ہوتی ہیں تو وہ اپنے دو کمرے کے کرائے کے گھر کے فرش پر تھکن سے چور ہو کر گر پڑتی ہیں

ان کا کہنا ہے کیونکہ ان کے خاندان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پوری آمدنی اپنی والدہ کو دے دیتی ہیں۔ ان کو امید ہے کہ اپنے والدین کا مالی بوجھ بانٹ کر وہ شاید اپنی بہنوں کا مستقبل روشن بنا پائیں

تعلیم کو ادھورا چھوڑ دینا صرف لڑکیوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ بڑھتے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کئی والدین اپنے بیٹوں کو بھی تعلیمی اداروں سے نکال کر کام پر لگا چکے ہیں، تاکہ وہ بھی مہنگائی کے اس دور میں دو پیسے لا کر ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ تعلیم کے بعد ملازمتوں کی عدم دستیابی بھی تعلیم کا سلسلہ ترک کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے

اسی ہفتے صدر پاکستان عارف علوی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کی نصف آبادی کو مزدوری یا گداگری کرنا پڑ سکتی ہے

اس وقت پاکستان کی مجموعی آبادی لگ بھگ بائیس کروڑ بیس لاکھ ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق اس کا پانچویں سے زیادہ حصہ خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ اور بڑھتی مہنگائی، جو اب تیس فی صد کے قریب پہنچ گئی ہے، نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے

ملک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے دولتمند لوگ اب بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس محصولات مجموعی ملکی پیداوار کا صرف نو فی صد ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایشیا میں یہ اوسط شرح بیس فی صد ہے

اسی ماہ سوشل میڈیا پر لاہور میں کینیڈین آؤٹ لیٹ ‘ٹم ہورٹنز’ کے باہر لوگوں کی لمبی قطاروں کی تصاویر گردش کر رہی تھیں۔ ان میں اکثریت ان صاحبِ حیثیت افراد کی تھی، جو سات سو روپے کی کافی پینا چاہتے تھے، جس کی قیمت پاکستان میں اکثر مزدوروں کی یومیہ اجرت سے بھی زیادہ ہے

ان کے برعکس نادیہ کا خاندان دن میں صرف دو وقت کھانا کھا پاتا ہے، انہوں نے دودھ خریدنا بند کر دیا ہے اور گوشت اب ان کی دسترس سے باہر ہے۔ لیکن نادیہ کہتی ہیں کہ اگر ان کو اب بھی آٹے اور اسکول کی کتابوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ان کا انتخاب کتابیں ہوں گی

جبکہ ان کی والدہ معراج اپنی کمسن بیٹی کی تعلیم ختم کرانے اور اس کے ممکنہ تاریک مستقبل کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دکھ ”ایک ماں کو اندر سے کھا جاتا ہے۔‘‘

دوسری جانب خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ایسے گھرانوں کی بھی کمی نہیں ہے، جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔ ایسے میں مہنگائی میں روز افزوں اضافے نے نوجوانوں کے مستقبل کو تو غیر یقینی سے دوچار کیا ہی ہے ، لیکن جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی دشوار بنا دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close