اٹلی کے علاقے کلابریا کے مشرقی ساحل پر تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے سے کم از کم 28 پاکستانیوں سمیت 59 تارکین جاں بحق ہو گئے
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اٹلی کے صوبے کروٹون میں جنوبی ساحل کے قریب ناہموار سمندر میں 140 سے زائد تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی، جس کے نتیجے میں بچوں سمیت کم از کم 59 افراد ہلاک ہو گئے
واضح رہے کہ غربت، بے روزگاری یا دیگر وجوہات کی وجہ سے سالانہ ایک بڑی تعداد میں لوگ افریقہ کی جانب سے اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں
ابتدائی اطلاعات کے مطابق جس کشتی پر مہاجرین سوار تھے، وہ ایک کمزور کشتی تھی اور خراب موسم کے باعث وہ ایک پتھر سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی
زندہ بچ جانے والوں نے بتایا ہے کہ اس کشی میں 150 افراد سوار تھے۔ اٹلی کے صدر نے کہا ہے کہ ان کی اکثریت مشکل حالات سے فرار اختیار کر رہے تھے
اٹلی کے وزیر داخلہ میٹیو پیانٹیڈوسی، جنھوں نے اس مقام کا دورہ کیا، نے بعد میں بتایا کہ تقریباً 30 افراد اب تک لاپتہ ہیں
اب تک یہ واضح نہیں کہ کشتی کے ڈوبنے سے قبل اس میں کتنے لوگ سوار تھے۔ ریسکیو حکام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کشتی میں 200 سے زیادہ افراد سوار تھے جس کا مطلب ہے کہ تقریباً 60 سے زیادہ افراد کا کوئی پتہ نہیں
اِنسا نیوز ایجنسی اور اطالوی میڈیا کے مطابق ’سٹیکیٹو دی کوترو‘ کے ساحل سے تقریباﹰ ستائیس لاشیں ملی ہیں، جب کہ بیس سے زائد لاشیں پانی میں تیر رہی تھیں۔ اٹلی کی اڈنکرونوس نیوز ایجنسی کے مطابق ایک کمزور کشتی پر ایک سو سے زائد ایسے مہاجرین سوار تھے، جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے
لکڑی کی یہ کشتی کئی روز قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی، جس میں افغانستان اور دیگر کئی ممالک کے لوگ سوار تھے، مقامی حکام کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 59 ہے جبکہ 80 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے، جن میں سے 20 کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے
اڈنکرونوس نیوز ایجنسی کے مطابق متاثرہ کشتی پر ایران، پاکستان اور افغانستان کے مہاجرین سوار تھے جبکہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ مقامی پولیس نے بھی ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کیوں کہ ابھی تک تمام ڈوبنے والے مہاجرین کی لاشیں نہیں ملی ہیں
اطالوی اخبار کے مطابق سمندری لہریں کشتی کے سواروں میں سے تقریباً 27 کی لاشیں اٹلی کے صوبہ کرٹون کے تفریحی مقام سٹیکاٹو دی کٹرو کے ساحل پر لے آئی تھیں
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی نے اٹلی کے کوسٹ گارڈز کے حوالے سے بتایا کہ اب تک 40 کے قریب افراد زندہ بچ گئے ہیں
اٹلی کے سرکاری ٹی وی نے کہا کہ بچ جانے والوں میں سے 27 بظاہر اپنے طور پر ساحل تک پہنچے
کلابریا پہنچنے والے تارکین وطن کے جہاز عام طور پر ترکی یا مصر کے ساحلوں سے روانہ ہوتے ہیں، جن میں سے اکثر اٹلی کے طویل جنوبی ساحلی پٹی کے دور دراز علاقوں تک پہنچتی ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشتی میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے تارکین وطن سوار تھے، مرنے والوں میں ایک شیرخوار بچی اور متعدد بچے شامل ہیں۔ پاکستانیوں کا تعلق گجرات ،کھاریاں، منڈی بہاؤالدین سے بتایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں والدین اپنے بیٹوں کی لاشوں کے منتظر ہیں
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر ڈوبنے والے بحری جہاز میں پاکستانیوں کی ممکنہ موجودگی سے متعلق رپورٹس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، روم میں پاکستان کا سفارتخانہ اطالوی حکام سے حقائق جاننے کے لئے رابطے میں ہے
واضح رہے کہ سمندری راستے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے اٹلی ایک اہم لینڈنگ پوائنٹ ہے، جہاں وسطی بحیرہ روم کے راستے کو دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں شمار کیا جاتا ہے
ہر سال بہت سے لوگ ایشیا اور شمالی افریقہ سے بحیرہ روم کا خطرناک راستہ عبور کرتے ہوئے یورپی یونین تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجا کر یورپ آنے والے ان مہاجرین کی پہلی منزل اٹلی یا پھر جزیرہ مالٹا ہوتی ہے۔ کشتیاں اکثر بھری ہوئی اور غیر محفوظ ہوتی ہیں، جس کے باعث اکثر سنگین حادثات ہوتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اس سال جمعرات تک 13 ہزار سے زائد تارکین وطن سمندری راستے سے اٹلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس اسی دورانیے کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی بنتی ہے
گزشتہ ہفتے اٹلی کی دائیں بازو کی وزیر اعظم جورجیا میلونی کی حکومت نے ایک نیا قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت مہاجرین کو بچانے کے لیے کی جانے والے امدادی کارروائیوں کو مزید مشکل بنا دیا گیا ہے
تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم مسنگ مائگرینٹ پروجیکٹ کے مطابق 2014 سے ابتک وسطی بحیرہ روم میں کم از کم 20 ہزار 333 افراد جاں بحق اور لاپتہ ہو چکے ہیں
مائگرینٹ آف شور ایڈ سٹیشن کی ڈائریکٹر رجینا کیٹرامبون نے بتایا کہ یورپی ممالک کو مل کر ان لوگوں کی مدد کرنا ہو گی
ان کا ادارہ بحیرہ روم میں ریسکیو آپریشن کرتا ہے
انھوں نے کہا کہ ’یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ جو ملک افریقہ اور مشرق وسطی کے قریب ہیں، ان کو اس مسئلے کے حل میں آگے بڑھنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب تک یورپی ممالک میں ملک کر ان لوگوں کی مدد کرنے پر کوئی تعاون نہیں ہو رہا۔ انھوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ کہ وہ ریسکیو کے نظام کو مضبوط کریں اور تارکین وطن کے لیے محفوظ اور قانونی راستے بنائیں
دوسری جانب روئٹرز کے مطابق اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے تارکین وطن کی کشتی کے حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت مزید سانحات کو روکنے کے لیے غیر قانونی سمندری ہجرت روکنے کے لیے پرعزم ہے
وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم جارجیا میلونی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں انسانی جانوں کے خاتمے پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہیں اور ان کی حکومت (تارکین وطن افراد) کی روانگی کو روکنے اور ان کے ساتھ ان سانحات کو سامنے لانے کے لیے پرعزم ہے اور ایسا کرتی رہے گی
قصبے کے میئر انتونیو کیراسو نے رائے نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ساحل ہر لوگ اترتے ہیں لیکن ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا۔‘
کسٹم پولیس نے کہا ہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک فرد کو انسانی اسمگلنگ کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔
دوسری جانب یورپی ملک بلغاریہ کی پولیس نے دارالحکومت صوفیہ کے قریب ایک ٹرک سے بچے سمیت 18 افغان تارکین وطن کی لاشیں دریافت ہونے پر چار افراد کو حراست میں لیا ہے
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بلغاریہ کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لوکورسکو گاؤں کے قریب ملنے والا ٹرک لکڑی اور کمپارٹمنٹس میں چھپے غیرقانونی تارکین وطن کو لے جا رہا تھا
نیشنل تحقیقاتی سروس کے سربراہ نے رپورٹرز کو بتایا کہ تارکین وطن میں سے بعض کا دم گھٹ گیا
’تارکین وطن نے غیرقانونی طور پر ہمسایہ ملک ترکیہ کی سرحد عبور کی اور جنوب مشرقی بلغاریہ کے شہر یامبول کے قریب ٹرک پر چڑھنے سے قبل دو دن تک جنگل میں چھپے رہے۔‘
وزیر صحت آسن میدزیدیف نے کہا کہ پانچ بچوں سمیت 34 تارکین وطن کو صوفیہ کے ہسپتالوں میں پہنچایا گیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر ہے
انہوں نے کہا ’اس ٹرک میں بند ہونے والوں کو آکسیجن کی کمی کا سامنا تھا۔ وہ بے سدھ پڑے تھے اور انہوں نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔‘
ایک سینیئر پولیس اہلکار اتاناس ایلکوف نے کہا کہ حراست میں لیے گئے چار افراد میں سے ایک کو پہلے ہی انسانی سمگلنگ کے الزام میں سزا سنائی جا چکی ہے
ان کا کہنا تھا کہ مزید ثبوت ملنے پر فردِ جرم عائد کی جائے گی
بلغاریہ اس راستے پر واقع ہے جسے مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے آنے والے تارکین وطن یورپی یونین میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں
زیادہ تر تارکین وطن اس ملک میں رہائش اختیار نہیں کرتے بلکہ اکثر سمگلروں کے وسیع نیٹ ورکس کا استعمال کرتے مغربی یورپ کے امیر ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔