پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کیسے کام کرتے ہیں؟

ویب ڈیسک

اتوار کو اٹلی کے قریب غیرقانونی تارکین وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں تقریباً باسٹھ لوگ موت کا شکار ہو گئے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں بیس پاکستانی بھی تھے، جن میں سے سولہ کو بچا لیا گیا، جبکہ چار ہلاک یا لاپتہ ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر ہلاکتوں میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں کسی حادثے کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ پاکستان سے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے والے درجنوں پاکستانی سمندری حادثوں، انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں فائرنگ یا یورپ کے غیرمحفوظ لمبے زمینی اور سمندری سفر کے دوران بھوک اور موسمی حالات کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں جان گنواتے رہے ہیں

کچھ اندازوں کے مطابق ہر برس کم از کم بیس ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان سے ایران اور ترکی کے ذریعے یونان اور اٹلی وغیرہ کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ ان غیرقانونی تارکینِ وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں

نقل مکانی کے متعلق کام کرنے والی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے یہی راستہ اور طریقہ استعمال کرتے ہیں

آئی او ایم کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن پاکستان سے یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا جانے کے لیے تین راستے استعمال کرتے ہیں، جن میں سے یورپ جانے کے لیے بلوچستان، ایران اور ترکی کا راستہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس راستے پر پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے تفتان کے علاوہ منڈ بلو اور پشین کے خفیہ راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے

آئی او ایم کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث منظم گروہ جعلی کاغذات کی تیاری سے لے کر بری، بحری اور فضائی سفر کے لیے تارکین وطن سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں

کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے زمینی راستے کے ذریعے ایران سے ترکی جانے کے لیے ایک ایجنٹ کم سے کم پچیس سو ڈالر لیتا ہے، جبکہ یونان پہنچانے کے لیے چار ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں۔ کچھ سمگلرز فضائی رستوں سے بھی لوگوں کو غیرقانونی طور پر یورپ منتقل کرتے ہیں جس کے لیے وہ اٹھارہ ہزار ڈالر تک وصول کرتے ہیں

تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو یورپ بھجوانے کے لیے لی گئی اس رقم میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے کیونکہ یہ نقل مکانی کے راستوں کو مدنظر رکھ کر طے کی جاتی ہے اور راستے بھی خطرات اور سہولت کے پیش نظر بدلتے رہتے ہیں

پاکستان سے آسٹریلیا جانے والے عام طور پر اصلی پاسپورٹ پر ملائشیا یا تھائی لینڈ جاتے ہیں اور وہاں سے ان کو زمینی یا سمندری راستوں سے غیرقانونی طور پر پہلے انڈونیشیا اور پھرسمندر کے راستے سے آسٹریلیا پہنچایا جاتا ہے۔ اس سفر کے لیے تیرہ ہزار کے قریب ڈالر لیے جاتے ہیں

پاکستان سے غیرقانونی طور پر مشرق وسطٰی جانے والے افراد کو ایران کے رستے عمان لے جایا جاتا ہے، لیکن ان کے لیے فضائی سفر بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس سفر کے لیے کاغذات کی تیاری کے اخراجات کے علاوہ کم از کم ایک ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں

انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے قائم پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ذیلی شعبے کے ایک متعلقہ عہدیدار کے بقول ، تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں اور حکومت کی طرف سے سرحدوں پر سخت کنٹرول کے نظام کی وجہ سے اب غیرقانونی طور پر باہر جانے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے

وہ دعویٰ کرتے ہیں ’غیرقانونی طور پر باہر جانے والوں کی تعداد میں کم از کم 10 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی، سرحدوں پر سخت انتظامات اور آگاہی کا فروغ ہے۔‘

عالمی سطح پر انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے کام کرنے والے بین الااقوامی ادارے ’انٹرنیشنل سینٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈیویلپمنٹ‘ کی پاکستان میں پراجیکٹ مینجر حنا مقصود کے مطابق پاکستان اب بھی دنیا کے بیس بڑے ممالک میں شامل ہوتا ہے، جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ غیرقانونی طور پر دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں

انہوں نے کہا ’غیرقانونی تارکین وطن کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے ادارے یورو سٹیٹس کے مطابق پاکستان سے صرف سنہ2021 میں 22 ہزار 765 افراد غیرقانونی طور پر بیرون ملک گئے۔‘

ان اعداد و شمار کے مطابق ہر ماہ دو ہزار کے قریب لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں، جن کے اعداد و شمار کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے

حنا مقصود نے بتایا کہ 2015 کے بعد سرحدوں پر روک تھام کا بہتر نظام نافذ ہوا ہے، جس کے بعد غیرقانونی نقل و حمل میں کچھ کمی آئی ہے

ان کا کہنا تھا کہ حکومت باہر جانے والے افراد کی بہتر کونسلنگ کر کے اور ان کے لیے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کے زیادہ سے زیادہ مراکز کھول کر اس مسئلے پر قابو پا سکتی ہے

وہ کہتی ہیں ’ہمارے ادارے نے اپنے طور پر لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے مقامی سطح پر مختلف علاقوں اور اداروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ حکومت اگر قانون نافذ کرنے والے اور روزگار فراہم کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائے تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔‘

ایف آئی اے کے عہدیدار کے مطابق حکومت غیرقانونی طور پر باہر جانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مجرم نہیں بلکہ متاثرہ فریق ہوتے ہیں۔ تاہم سمگلروں کے خلاف مقدمات درج کر کے بھرپور کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اور ان کے خاتمے کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر عمل کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close