عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے وقت اپنی جماعت کے ارکانِ اسمبلی کی بے وفائی پر ان کا ایک مکالمہ ”کوئی رہ تو نہیں گیا؟“ بہت مقبول ہوا تھا، ان دنوں منچلے سوشل میڈیائی صارفین نئی حکومت پر ”کوئی چیز مہنگی ہونے سے رہ تو نہیں گئی؟“ کا مکالمہ چست کر رہے ہیں
اس کی وجہ مہنگائی کا وہ طوفان ہے، جس نے پچاس سال کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، جس کے باعث ضروریاتِ زندگی پوری کرنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔ ایسے میں پیٹرول کی قیمت میں بار بار اضافہ بھی متوسط طبقے کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو رہا ہے
کراچی کے نوجوان محمد حیدر بھی ان میں سے ایک ہیں، جو مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ انہوں نے محدود امدنی میں ہر بار پیٹرول کی قیمت میں الجھنے سے بچنے کے لیے جنوری کے آخری ہفتے میں اپنی پرانی خیبر کار کو بیچ کر نئی 125 سی سی بائیک پر شفٹ ہونے کا سوچا تھا
چار افراد کے کنبے کے سربراہ حیدر چاہتے تھے کہ کار بیچ کر بائیک پر آنے جانے سے پیٹرول بھی بچے گا اور ٹریفک میں پھنسنے سے بھی محفوظ رہ سکیں گے۔ لیکن یکم فروری سے تین مارچ تک بائیک کی تین بار بڑھتی قیمتوں نے ان کی اس امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے
حیدر کہتے ہیں ”گاڑی بہت پرانی ہونے کی وجہ سے جنوری میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ کی ہی بِک سکی، لیکن تمام رقم لے کر رواں ہفتے جب بائیک لینے گیا تو اس کی قیمت میری گاڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی قیمت سے بھی زیادہ نکلی۔“
اپنی اس بے بسی پر وہ سوال کرتے ہیں ”اب کوئی مجھے صرف یہ بتائے کہ ہم جیسے لوگ جائیں تو کہاں جائیں؟“
ملک میں پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ہمیشہ متوسط اور کم آمدنی والوں کو اپنی محدود آمدنی میں پیٹرول کی قیمت کے ساتھ اپنے روز مرہ معمولات زندگی کی گاڑی کے ساتھ اپنی سواری کی گاڑی کا پہیہ رواں رکھنے کی فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے
ان حالات میں طالب علموں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ متوسط اور کم آمدن والے افراد بھی مہنگے پیٹرول سے چھٹکارے کا حل چار پہیوں والی چھوٹی گاڑی کے استعمال کے بجائے دو پہیوں کی موٹر سائیکل کی سواری میں نظر آتا ہے
ایک جانب پیٹرول کی ہوش ربا قیمتوں میں جہاں کئی لوگ اب گاڑی کے بجائے موٹر سائیکل پر آنے جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، وہیں بائیکس کی بڑھتی قیمتوں نے محدود آمدنی میں گزر بسر کرنے والوں کے ہوش اڑا کر رکھ دیے ہیں
گذشتہ صرف ایک ہی ماہ کے دوران موٹر سائیکل کی قیمت میں تین مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے اور اب کم آمدن طبقے کے استعمال میں رہنے والی سواری یعنی سی ڈی 70 لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ جبکہ 125 دو لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ چکی ہے
کراچی سے تعلق رکھنے والے حیدر کے پاس اب نہ گاڑی رہی نہ وہ نئی بائیک خرید سکے اور اب ان کے پاس سکینڈ ہینڈ 125 سی سی بائیک خریدنے کا آپشن ہے تاہم اُن کے مطابق اس میں ایک بار پھر درد سری کے امکانات ہیں ”پہلے اپنے دو بچوں کو اسکول چھوڑنا ہوتا ہے اور پھر آفس جانا ہوتا ہے جو نرسری کے علاقے میں واقع ہے۔ آئے روز کے جھنجٹ سے بچنے کے لیے نئی بائیک پر منتقل ہونے کا پلان کیا تھا تاکہ مینٹینس آسان رہے“
بائیک کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا اندازہ لگانے کے لیے پاکستان میں بائیک بنانے والی مینوفیکچرنگ کمپنی اٹلس ہنڈا کے موٹر سائیکل کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو دانتوں کو پسینہ آ جاتا ہے
پاکستان میں کم خرچ اور بالا نشین سمجھے جانے والی نئی ہنڈا سی ڈی 70 کی قیمت میں یکم فروری سے تین مارچ (لگ بھگ ایک ماہ) کے دوران سولہ ہزار روپے کا اضافہ تین اقساط میں سامنے آیا ہے
ہنڈا کمپنی کی قیمتوں کے مطابق نئی سی ڈی 70 کی ٹیکس سمیت قیمت یکم فروری 2023ع کو ایک لاکھ 28 ہزار روپے 900 روپے تھی تاہم صرف پندرہ روز بعد ہی یہی بائیک نو ہزار روپے کے مزید اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 37 ہزار 900 کی ہو چکی تھی۔ یہی نہیں، کمپنی کی جانب سے 3 مارچ کو ایک بار پھر ان قیمتوں میں رد و بدل کیا گیا اورنیا اضافہ سات ہزار روپے کا سامنے آیا اور اب سی ڈی 70 کی موجودہ قیمت 1 لاکھ 44 ہزار 900 تک پہنچ چکی ہے
یاد رہے کہ نئی بائیک کی خریداری کے بعد رجسٹریشن اور سکیورٹی کے انتظامات کے پیسے اس کے علاوہ ہوتے ہیں
دوسری جانب پاکستان میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی آئیڈیل سمجھے جانے والی سی جی 125 کی قیمتیں بھی دسترس سے باہر ہی سمجھیں
یکم فروری 2023 کو 125 کی قیمت بشمول ٹیکس ایک لاکھ 94 ہزار 900 روپے تھی تاہم پندرہ ہی روز میں پہلے اس کی قیمت میں گیارہ ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔ اور اب 3 مارچ کو دوبارہ اضافے کے بعد اس کی قیمت دو لاکھ 14 ہزار 900 روپے ہو گئی ہے
محمد حیدر اپنی پرانی خیبر کار بیچ کر حاصل ہونے والی جو رقم لے کر بائیک لینے پہنچے تھے، وہ ناکافی ثابت ہوئی۔ نئی قیمتوں کے مطابق اب انہیں مزید بیس ہزار روپے جوڑنے پڑیں گے، لیکن کیا پتہ جب تک وہ بیس ہزار کی رقم کا بندوبست کریں، تب تک قیمتوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہو
ہونڈا کے علاوہ دیگر کمپنیوں جیسا کہ ’روڈ پرنس‘، ’یونائیٹڈ‘ اور دیگر معروف برانڈز کے بائیکس میں بھی اسی نوعیت کا اضافہ ہوا ہے
ایک ہی ماہ میں بائیک کی قیمتوں میں بار بار اضافے کے حوالے سے پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے عہدے دار عبدالوحید کا کہنا ہے ”موٹر سائیکل کی قیمتیں بڑھنے کی وجوہات بھی وہی ہیں، جس سے ملک کا کم و بیش ہر شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ اگر ہم ہنڈا کمپنی کی ہی بات کریں تو اس کی بائیکس کی 90 فیصد سے زیادہ مینوفیکچرنگ مقامی سطح پر ہی ہو رہی ہے لیکن اس کا تقریباً تمام خام مال بیرونِ ملک سے امپورٹ کیا جاتا ہے اور سپلائی سائیڈ پر رکاوٹوں کا اثر موٹر سائیکل کی قیمت پر پڑ رہا ہے“
ان کے مطابق ”موٹر سائیکل بنانے کے لیے جو میٹل (لوہا، المونیم وغیرہ) استعمال ہوتا ہے وہ بیرونِ ملک سے منگوایا جاتا ہے اور اس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جبکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا براہِ راست اثر بھی موٹر سائیکل بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور پاکستانی روپے کی قدر میں تنزلی بھی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے“
انہوں نے بتایا ”پاکستان میں موٹر سائیکل کے مقامی طور پر بننے والے پارٹس کا خام مال بھی بیرون ملک سے منگوانا ہوتا ہے کیونکہ مقامی طور پر بننے والے پارٹس کا معیار اچھی کمپنیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا اور یہ تمام چیزیں اس سستی سمجھے جانے والی سواری کی قیمت پر اثر انداز ہو رہی ہیں“
عبد الوحید کے مطابق ”کمپنی کی جانب سے قیمتیں بڑھنے کے باعث سپلائی سائیڈ پر رکاوٹیں بھی آئیں گی اور یقینی طور پر بائیک کی ڈیمانڈ میں کمی آنے کا خدشہ بھی ہو جاتا ہے تاہم جہاں مہنگائی کی شرح 35 فیصد سے زیادہ ہو گئی، وہاں اس کے بغیر چارہ نہیں۔“
مستقبل میں قیمتوں میں اضافے یا کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”ڈالر وہ پیمانہ ہے، جس سے ملک میں ہر چیز کی قیمت کو ناپا جاتا ہے۔ جب تک مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ کمی نہیں آتی، موٹر سائیکل کی قیمت میں کمی کا امکان نہیں۔ قیمتیں جب ہی کم ہو سکتی ہیں جب ڈالر کا بھاؤ کم ہو مگر کبھی بھی قیمتیں اس قدر کم نہیں ہوں گی جتنا کہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔“