سنہ 2015ع میں ایک پاکستانی ٹی وی پروگرام ’نقطہِ نظر‘ میں سابق پولیس افسر راجہ انار خان کا ایک انٹرویو نشر کیا گیا، جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں شیخ مجیب الرحمان پر نظر رکھنے کے لیے قیدی کے طور پر فیصل آباد جیل میں قید رکھا گیا
اس وقت انار خان اسپیشل برانچ میں ایک نوجوان پولیس انسپیکٹر تھے
انار خان نے کہا ”شیخ مجیب نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کس جرم کی سزا سنائی گئی ہے؟ میں نے ان سے جھوٹ بولا کہ مجھے ایک لڑکی کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک اور قیدی خواجہ ایوب کو مجیب کا کھانا پکانے کی ذمہ داری دی گئی تھی، مجیب کو ہمیشہ سگار کے لیے تمباکو بھی فراہم کیا جاتا تھا“
رات کو راجہ انار خان شیخ مجیب کے سیل کے باہر سوتے تھے۔ صبح ہوتے ہی وہ شیخ مجیب کی الماری کا تالا کھولتے تھے۔ وہ شیخ مجیب کو بابا کہہ کر پکارتے تھے
راجہ انار خان نے کہا ”جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو فوجی حکومت نے ہم دونوں کو میانوالی جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا“
ان کا کہنا تھا ”شیخ مجیب کو ایک گاڑی میں بٹھایا گیا جو گدوں اور کمبلوں سے اس قدر بھری ہوئی تھی کہ شیخ کے بیٹھنے کے لیے بمشکل جگہ بچی تھی۔ گاڑی کے سائیڈ شیشوں پر جان بوجھ کر مٹی ڈالی گئی تھی تاکہ کسی کو خبر نہ ہو کہ اندر کون بیٹھا ہے؟“
راستے میں شیخ مجیب نے پوچھا کہ سڑکوں پر اتنی زیادہ فوج کیوں نظر آ رہی ہیں، جس پر راجہ انار خان نے جواب دیا کہ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں
مجیب الرحمان کی رہائی کے لیے اندرا گاندھی کا خط
13 مئی 1971 کو اندرا گاندھی نے امریکہ میں انڈیا کے سفیر لکشمی کانت جھا کے ذریعے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو ایک خط بھیجا، جس میں انہوں نے شیخ مجیب کی قید پر اپنی تشویش کا اظہار کیا
11 اگست کو انہوں نے نکسن کو پھر خط لکھا، جس میں یحییٰ خان کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ وہ شیخ مجیب کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے جا رہے ہیں، جس میں وہ بیرونِ ملک سے کوئی قانونی مدد حاصل نہیں کر سکیں گے
اس کے ساتھ انہوں نے دنیا کے تیئیس سربراہان مملکت سے شیخ مجیب کی جان بچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی اپیل کی
کتاب ’متھز اینڈ فیکٹس – بنگلہ دیش لبریشن وار‘ کے مصنف بی زیڈ خسرو لکھتے ہیں ”امریکی انٹیلیجنس ذرائع کا خیال تھا کہ یحییٰ مجیب کو پھانسی دینے کے خلاف تھے۔ ان کے سینیئر فوجی مشیروں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ مجیب کو سزائے موت سے دنیا میں پاکستان کی شبیہ خراب ہوگی“
نکسن کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے تھے، جس سے یحییٰ کو شرمندگی ہو۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان میں امریکی سفیر جوزف فورلینڈ سے کہا کہ وہ جنرل سے ذاتی حیثیت میں بات کریں
بی زیڈ کے مطابق ”یحییٰ نے جوز فورلینڈ کو بتایا کہ اگر مجیب کی رحم کی درخواست ان کے پاس آتی ہے تو وہ اس وقت تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کریں گے، جب تک کہ سویلین حکومت اقتدار نہیں لے لیتی۔ آپ یقین کر لیں کہ میں اس آدمی کو نہیں ماروں گا، حالانکہ میرا ماننا ہے کہ وہ غدار ہے“
میانوالی جیل میں ہوائی حملے کی پناہ گاہ
شیخ مجیب کے میانوالی جیل میں ہی قیام کے دوران انگریزی حرف ‘L’ کی شکل میں ایک ہوائی حملے کی پناہ گاہ بنائی گئی تھی، جس میں گدوں اور کمبلوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ بعد ازاں بنگلہ دیش پہنچ کر شیخ مجیب الرحمان نے لوگوں کو بتایا کہ جیل میں ان کی قبر کھودی گئی تھی، جہاں انہیں ممکنہ طور پر قتل کرنے کے بعد دفن کیا جانا تھا
انار خان نے کہا ”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ شیخ مجیب شاید یہ کہہ کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔“
یہ درست تھا کہ شیخ مجیب کو جیل میں قیام کے دوران کوئی اخبار، ریڈیو یا ٹیلی ویژن فراہم نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہیں پڑھنے کے لیے کتابیں دی گئی تھیں۔ بعد میں مجیب نے ایک اطالوی صحافی اوریانا فالاچی کے سامنے بھی اعتراف کیا کہ انہیں جیل میں پڑھنے کے لیے کتابیں دستیاب تھیں
سید بدر الاحسن شیخ مجیب کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں ”6 دسمبر سے لڑائی کے خاتمے کے درمیان مجیب الرحمٰن کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن جنگ کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار بھٹو کو سونپ دیا۔ اسی شام بھٹو نے ان سے بات کی۔ پاکستانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت مشرقی پاکستان پر دشمن کا قبضہ ہے لیکن جلد ہی ہم اسے اپنے بھائیوں کے مفاد میں واپس حاصل کر لیں گے‘۔ بھائیوں سے ان کی مراد مشرقی پاکستان میں رہنے والے بنگالی تھے“
جب مجیب کو سہالہ گیسٹ ہاؤس لے جایا گیا
پاکستان کی شکست کے بعد شیخ مجیب کو ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد کے قریب سہالہ گیسٹ ہاؤس لے جایا گیا۔ راجہ انار خان اور جیل سپرنٹنڈنٹ شیخ عبدالرحمٰن بھی ان کے ساتھ گئے۔ بعد ازاں الطاف گوہر، جو پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات تھے، کو بھی اسی گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں نظر بند کر دیا گیا، جہاں شیخ مجیب کبھی ٹھہرے تھے
انہوں نے بعد میں لکھا ”میں اسی بستر پر سو رہا تھا اور وہی کمبل استعمال کر رہا تھا جو مجیب نے کبھی استعمال کیا تھا۔ جیلر باہر گیا اور مجھے مونگ پھلی دکھائی، جو مجیب وہاں قیام کے دوران کھاتے تھے
ایک دن جیلر نے بتایا کہ ’میانوالی جیل میں مجیب تقریباً پاگل ہو گیا تھا اور دیوار سے سر پیٹنے لگا۔ وہ زور زور سے مجھے یحییٰ خان سے ملوانے کے لیے چیخ رہے تھے۔ میں ڈھاکہ میں ہونے والے قتل عام کو روک سکتا ہوں‘۔ جیلر عبدالرحمٰن نے یہ بات جنرل پیرزادہ کو بتائی لیکن مجیب کو یحییٰ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔“
بھٹو کی شیخ مجیب سے ملاقات
صدر بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو 27 دسمبر 1971 کو سہالہ گیسٹ ہاؤس میں شیخ مجیب سے ملنے آئے۔ اس ملاقات کے دوران انار خان پردے کے پیچھے کھڑے بھٹو اور مجیب کی گفتگو سن رہے تھے۔ ویسے یہ گفتگو ٹیپ کی گئی تھی
بھٹو کی سوانح عمری ’پاکستانز زلفی بھٹو: ہِز لائف اینڈ ٹائمز‘ میں مصنف اسٹینلے ولپرٹ نے ان ٹیپس کا ذکر کیا ہے۔ ”مجیب نے گفتگو کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ آپ یہاں کیسے پہنچے؟ بھٹو نے جواب دیا، میں اب پاکستان کا صدر اور چیف مارشل ہوں، میں ایک لا ایڈمنسٹریٹر ہوں
شیخ مجیب نے کہا، مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی لیکن یہ بتاؤ کہ بنگال کا کیا حال ہے؟ میں وہاں کے بارے میں بہت پریشان ہوں
جب بھٹو نے مجیب سے کہا کہ ڈھاکہ پر انڈیا کی افواج کا قبضہ ہے تو مجیب نے کہا کہ ’انہوں نے ہمیں مار دیا ہے، آپ مجھے ڈھاکہ جانے دیں، آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ اگر انڈینز نے مجھے جیل میں ڈالا تو آپ کو میری لڑائیاں لڑنی ہوں گی
بھٹو نے وعدہ کیا: ’مجیب ہم مل کر لڑیں گے۔‘
مجیب بھائی، کیا کوئی امکان ہے کہ ہم اب بھی ساتھ رہ سکیں؟“
سٹینلے والپرٹ پھر لکھتے ہیں ”مجیب جانتے تھے کہ وہ بھٹو جیسے چالاک آدمی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کا ہر لفظ ٹیپ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ڈھاکہ جانے دو اور معاملات کو سنبھالنے دو۔ میرا یقین کرو، میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ انڈین فوج وہاں پہنچے
بھٹو نے کہا کہ ’مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے، اسی لیے میں نے آپ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر بھٹو نے مجیب کو اپنی دلی خواہش بتائی، مجیب بھائی، کیا کوئی امکان ہے کہ ہم اب بھی ساتھ رہ سکیں؟ ڈھاکہ میں میرے لوگوں سے بات کریں اور پھر اس بارے میں بتائیں“
مجیب کو وزیراعظم بننے کی پیشکش کی
اس کے بعد شیخ مجیب گیارہ دن تک مسلسل غیر یقینی کی کیفیت میں رہے۔ اس دوران بھٹو کئی بار ان سے ملے
اسٹینلے ولپرٹ لکھتے ہیں ”بھٹو نے مجیب کو یاد دلایا کہ 27 تاریخ کو ہماری ملاقات میں، آپ نے دو یا تین کام اکٹھے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔۔ دفاع، خارجہ امور اور کرنسی، مجیب نے جلدی سے جواب دیا، لیکن اس کے لیے آپ کو مجھے پہلے ڈھاکہ جانے کی اجازت دینی ہوگی
بھٹو نے ایک اور چال چلی اور کہا کہ آپ صدر، وزیراعظم… جو بھی عہدہ چاہو لے لو، میں سیاست سے ریٹائر ہو جاؤں گا“
بھٹو مجیب کو ایران کے شاہ سے ملوانا چاہتے تھے
بنگلہ دیش کے سابق وزیرِ خارجہ کمال حسین نے مجھ سے بات کرتے ہوئے شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان جاری اس مشاورت کی ایک اور تفصیل بتائی
کمال نے کہا ”بھٹو آخری دم تک پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات کے لیے دباؤ ڈالتے رہے، جس دن شیخ کو رہا کیا جانا تھا اور وہ لندن جانے والے تھے، تو بھٹو نے کہا کہ وہ ایک دن مزید قیام کریں گے۔ اگلے دن شاہ ایران آ رہے تھے اور وہ ان سے ملنا چاہتے تھے“
کمال کہتے ہیں ”شیخ سمجھ گئے کہ وہ ایران کے شاہ سے ان پر دباؤ ڈلوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کی تجویز انہیں قبول نہیں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو انہیں دوبارہ جیل بھیج سکتے ہیں“
بعد ازاں جنوری 1971 میں شیخ مجیب نے نیوز ویک میگزین کو انٹرویو دیا جس میں انھوں نے بتایا کہ یحییٰ خان نے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے دن انہیں قتل کرنا چاہا لیکن بھٹو نے انہیں یہ کہہ کر بچا لیا کہ اگر ایسا ہوا تو انڈیا نے 93 ہزار پاکستانیوں کی جانیں لے لینی ہیں۔ جنگی قیدی خطرے میں ہوں گے
7 جنوری 1972 کی رات بھٹو خود راولپنڈی کے چکلالہ ہوائی اڈے پر مجیب اور کمال حسین کو دیکھنے گئے۔ بھٹو نے ایک لفظ کہے بغیر مجیب کو الوداع کیا اور مجیب بھی پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر تیزی سے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ گئے
مجیب نے ڈوسٹووسکی کی لکھی ہوئی کتاب راجہ انار خان کو پیش کی
روانگی سے قبل شیخ مجیب نے ڈوسٹووسکی کی کتاب ’کرائم اینڈ پنشمینٹ‘ راجہ انار خان کو پیش کی، جو جیل میں ان کے ساتھ تھے۔ انار خان نے پاکستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا تو انہوں نے شیخ مجیب سے ملنے والی کتاب بھی دکھائی
اس پر دستخط کرتے ہوئے شیخ مجیب نے لکھا: ”جھوٹ اور سچ کی طویل جنگ میں پہلے جھوٹ کی جیت ہوتی ہے، لیکن بعد میں سچ کی جیت ہوتی ہے“
سنہ 1974ع میں جب مجیب الرحمنٰ اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تو انہوں نے راجہ انار خان کے بارے میں دریافت کیا اور ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن انار خان ان سے ملنے نہیں گئے۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ یہ بات پاکستان کی حکومت کو پسند نہیں آئے گی اور اس ملاقات کی صورت میں انہیں بعد میں ہراساں کیا جائے گا
شیخ مجیب کی لندن آمد
8 جنوری 1971 کی صبح شیخ مجیب کا طیارہ ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا۔ یہ ایک بنگالی سفارت کار ایم ایم رضا الکریم کے لیے ناقابلِ یقین خبر تھی، جنہوں نے پاکستانی فارن سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس وقت لندن میں مقیم تھے۔ انہوں نے اپنی پرانی چھوٹی کار نکالی اور پوری رفتار سے ہیتھرو ایئرپورٹ کی طرف بھاگے
اپنی تیز رفتار سانسوں پر قابو رکھتے ہوئے جب وہ ہیتھرو ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں پہنچے تو انہوں نے وہاں شیخ مجیب کو سگار پیتے ہوئے دیکھا
ڈاکٹر کمال حسین اور شیخ مجیب کے ساتھ پاکستان کے کچھ افسران بھی وہاں موجود تھے۔ جیسے ہی ان اہلکاروں نے کریم کو دیکھا تو شیخ مجیب کو سلام کیا اور کچھ کہے بغیر باہر نکل گئے
سید بدر الاحسن اپنی کتاب ’باغی سے بانی شیخ مجیب الرحمٰن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’شیخ مجیب کی جان میں اس وقت جان آئی، جب انہوں نے بنگالی سفارت کار رضا الکریم کو وی آئی پی لاؤنج میں دیکھا، وہ غصے سے ان سے سوال کرنے لگے۔ ان کا پہلا سوال تھا کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ بنگلہ دیش اب ایک آزاد ملک ہے؟‘‘
احسن لکھتے ہیں کہ ’برطانوی حکومت نے شیخ مجیب کے لیے ایئرپورٹ پر رولس رائس کار بھیجی تھی لیکن مجیب ایک چھوٹی کار میں ہوٹل پہنچے۔ دوپہر تک مجیب نے برطانوی وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ اور قائد حزب اختلاف ہیرالڈ ولسن سے ملاقات کی۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد پہلی بار ڈھاکہ فون کیا اور اپنے اہل خانہ سے بات کی
وہ لکھتے ہیں کہ ’شام کو ان کی پریس کانفرنس میں سینکڑوں صحافی موجود تھے، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے براہ راست ڈھاکہ جانے کے بجائے لندن آنے کا فیصلہ کیوں کیا تو شیخ کا جواب تھا کہ یہ فیصلہ بھٹو صاحب نے کیا تھا۔‘
شیخ مجیب کی دہلی میں بنگالی زبان میں تقریر
دو دن لندن میں رہنے کے بعد شیخ مجیب 9 جنوری کی شام ڈھاکہ روانہ ہو گئے۔ اس کے لیے برطانوی حکومت نے انہیں اپنا طیارہ دیا
راستے میں وہ اندرا گاندھی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے چند گھنٹوں کے لیے نئی دہلی میں رکے
ڈاکٹر کمال حسین یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اس وقت انڈیا کے صدر، وزیر اعظم اندرا گاندھی، ان کی پوری کابینہ، تینوں افواج کے سربراہان اور مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ سدھارتھ شنکر رائے شیخ کے استقبال کے لیے دہلی کے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ یہ ایک خاندانی ملاپ کی طرح محسوس ہوا۔‘
فوجی چھاؤنی کے میدان میں ایک جلسہ عام میں مجیب نے بنگلہ دیش کی جدوجہد میں مدد کرنے پر انڈیا کی عوام کا شکریہ ادا کیا
شیخ مجیب نے انگریزی میں تقریر شروع کی۔ لیکن اس وقت اسٹیج پر موجود اندرا گاندھی نے ان سے بنگالی میں تقریر کرنے کی درخواست کی
ڈھاکہ میں بے مثال استقبال
دہلی میں دو گھنٹے قیام کے بعد شیخ مجیب جب ڈھاکہ پہنچے تو ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر تقریباً دس لاکھ لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے
شیخ مجیب نے جن کا نو ماہ پاکستانی جیل میں رہنے کے بعد کافی وزن کم ہوگیا تھا، اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے لمبے بالوں کو پیچھے کی طرف کر دیا اور وزیراعظم تاج الدین احمد آگے بڑھے اور اپنے قائد کو اپنی بانہوں میں لے لیا
دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجیب کھلے ٹرک میں ریس کورس گراؤنڈ کی طرف بڑھے۔ چاروں طرف اتنی بھیڑ تھی کہ ٹرک کو دو کلومیٹر طویل راستہ طے کرنے میں تین گھنٹے لگے
جب مجیب مجمعے کے سامنے رو پڑے
شیخ مجیب اہل وطن کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ریس کورس گراؤنڈ میں لاکھوں کے مجمعے کے سامنے رو پڑے۔ انہوں نے بنگالی شاعر ربیندر ناتھ ٹیگور کو یاد کرتے ہوئے کہا ’آپ نے ایک بار یہ شکایت کی تھی کہ بنگال کے لوگ صرف بنگالی ہی رہے، ابھی تک سچے انسان نہیں بنے۔‘
شیخ مجیب نے کہا ’اے عظیم شاعر، واپس آؤ، اور دیکھو کہ تمہارے بنگالی کیسے ان شاندار انسانوں میں بدل گئے ہیں، جن کا تم نے کبھی تصور کیا تھا‘
اس تقریر کے دوران انہیں بھٹو سے کیا گیا وہ وعدہ بھی یاد آیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے لوگوں سے پوچھیں گے اور بتائیں گے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں کیا تعلقات ہوں گے
انہوں نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات اب سے وہی رہیں گے جو دو خودمختار ممالک کے درمیان ہوتے ہیں.“
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)