روپے کی گھٹتی قدر، بڑھتی مہنگائی اور سبسڈیز ختم کرنے کے حکومتی اقدام کی وجہ سے کئی افراد کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں جہاں غریب کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، وہیں تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ بھی اپنی ضروریات اور اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہو چکا ہے
گزشتہ روز مہنگائی نے ایک اور نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 1.80 فیصد بڑھ کر سالانہ بنیادوں پر 46.65 فیصد پر پہنچ گئی ہے، جو ایک نیا ریکارڈ ہے
گزشتہ ماہ بھی قیمتیں ملکی تاریخ کی تیز ترین رفتار سے بڑھی تھیں، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق خوراک، مشروبات اور نقل و حمل کے اخراجات مہنگائی کو اس مقام تک لے گئے ہیں، جہاں معاشی تجزیہ کاروں نے خدشات کا اظہار کیا کہ مہنگائی کے باعث صارفین کی قوت خرید شدید متاثر ہوگی
مہنگائی نے جہاں نچلے طبقے کو متاثر کیا ہے، وہیں متوسط طبقے کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے
نورین احسن ایک اسکول میں ایڈمنسٹریٹر ہیں، لیکن اپنی ہی بیٹیوں کو تعلیم دلوانا اب ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے
ان کی ماہانہ آمدنی پاکستان کی اوسط ماہانہ تنخواہ سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کے پاس اپنی بیٹیوں کو اسکول کے بجائے گھر پر پڑھانے اور لندن بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں ان کی رجسٹریشن ملتوی کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ اخراجات ان کی استطاعت سے باہر ہو چکے ہیں
نورین اور ان کے شوہر، جن کا گاڑیوں کی سروسنگ کا کاروبار ہے، مل کر گھر چلاتے ہیں۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتے اخراجات کے باعث ان کے لیے اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے
اور یہ صرف نورین کے ہی گھر کی کہانی نہیں ہے۔ روپے کی گھٹتی قدر اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے سبسڈیز ختم کرنے کے حکومتی اقدام کی وجہ سے پاکستان کی لگ بھگ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اکثریت کو اب معاشی مشکلات کا سامنا ہے
اس وقت غریب کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل نصیب ہو رہی ہے۔ بیماری کا علاج کرنا اور دیگر بنیادی ضروریات کو پورا کرنا تو ان کے لیے کارِ محال ہو چکا ہے۔ لیکن ان کے برعکس متوسط طبقے کے اپنے مسائل ہیں
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں اور ایندھن کی قیمتوں میں کیے گئے اضافے اور دیگر اقدامات سے تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا کہنا ہے کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے اب انہیں اپنی ضروریات کم کرنی پڑ رہیں ہیں
نورین نے اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ”ہم اب باہر کھانا نہیں کھاتے۔ اور اب ہم گوشت یا مچھلی بھی نہیں خریدتے۔ میں نے ٹشو پیپر اور ڈٹرجنٹ کا استعمال بھی کم کر دیا ہے۔ ہم نے دوستوں نے ملنا اور تحفے تحائف دینا بھی بند کر دیا ہے۔ البتہ اب ہم کبھی کبھی ایک دوسرے پر چلاتے ہیں“
پاکستان میں بظاہر کم از کم اجرت تقریباً پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ لیکن مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے بعد سے اس سے کہیں زیادہ کمانے والے کئی افراد کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ اب مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے
گزشتہ ماہ فروری میں ہی پاکستان میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو کہ ملک میں پچاس سال کے عرصے میں مہنگائی کی بلند ترین سطح تھی
پاکستان میں پیشگی تنخواہ لینے کی سہولت فراہم کرنے والی فن ٹیک کمپنی ابھی سیلری کے مطابق پچھلے تین مہینے سے اس سے لی جانے والی پیشگی تنخواہوں میں ہر ماہ بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمیر انصاری کہتے ہیں کہ پیشگی تنخواہ لینے والے افراد میں سے اکثر اس کا دو تہائی حصہ گھر کا سودا سلف خرید کر اس کو ذخیرہ کرنے پر خرچ کرتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں نہ جانے کب مزید اضافہ ہو جائے
اقتصادی تھنک ٹینک سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان سے وابستہ عابد سلیری کہتے ہی ”بدقسمتی سے پاکستان میں غریب کے لیے تو کھونے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے“ ملک میں بڑھتی معاشی بدحالی کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ”دوسری جانب تعلیم یافتہ افراد کی قوت خرید اور جمع پونجی ختم ہو رہی ہے اور ان کے لیے روزانہ کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے“
بہت ممکن ہے کہ رمضان میں پاکستانیوں کے اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ اقتصادی ماہرین مارچ اور اپریل میں مہنگائی کی شرح کو کم از کم 35 فیصد تک بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اس وجہ سے بیشتر پاکستانی رمضان میں، جو پاکستان میں بہت احترام سے منایا جاتا رہا ہے، اپنی ضروریات اور اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں
معاشی بدحالی اب اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑنے کا سوچ رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر خالق ہیں، جنہوں نے اپنی موجودہ معاشی صورتحال پر شرمندگی کے باعث اپنا پورا نام بتانے سے گریز کیا۔ ان کی بیوی بھی ایک ڈاکٹر ہیں اور یہ دونوں جتنا ہو سکتا ہے، اتنی رقم پس انداز کرتے ہیں تا کہ برطانیہ میں کام کرنے لیے ایک امتحان دے سکیں
ڈاکٹر خالق کا کہنا ہے ”ہم باہر کھانا کھانے یا گاڑی استعمال کرنے سے پہلے دو بار سوچتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا ”برطانیہ میں کام کرنے کے لیے جو امتحان دینا پڑتا ہے، اس کی فیس پاؤنڈز میں دی جاتی ہے اور روپے کی قدر میں کمی سے اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں ان کا ارادہ جتنا جلدی ہو سکے یہ امتحان دینے اور پاکستان چھوڑنے کا ہے۔“