بڑا آدمی

ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی

ممبئی ایرپورٹ سے کیب لے کر سیدھا سیمینار ہال روٹری کلب جاؤن گا۔۔ پھر فوراً امی کے پاس بریلی جاؤں گا۔۔ لیکن امی۔۔ اور امی کو پاپا کی ادبی خدمات پر ہوئے سیمینار کی ساری باتیں سناؤں گا۔۔۔پاپا کی کامیابی اور ناکامی سب۔۔ امی کو بتاؤں گا۔

میری آنکھیں بھر آئیں اور چھلک بھی گئیں۔۔ میرے چشمے کے کالے شیشے اگر مجھے سہارا نہ دیتے تو یہ فطری عمل چہرے کو بھگو جاتا۔۔

فیس بک پر ایک کارڈ ممبئی سے میرے فیس بک دوست نے میری ٹائیم لائن پر شیئر کیا تھا۔۔۔ آج سے ٹھیک ۵۱ دن بعد میرے پاپا کی ادبی خدمات پر کوئی تنظیم ایک دن کا سیمینار کر رہی ہے۔۔۔ پاپا کی ادبی خدمات پر ان کی موت کے ۱۳ سال بعد یہ سیمینار کیا جا رہا تھا لیکن۔۔ مجھے کوئی کیسے بتاتا؟ میرا پتہ ٹھکانہ کسی کو کبھی معلوم ہی نہ تھا۔۔ اور میں اپنے ملک سے ہزاروں میل دور کینیڈا میں پچھلے سترہ سال سے مقیم ہوں۔جب سے یہاں آیا ہوں۔۔۔ کئی بار امی کو دیکھنے جانے کا پکا اراد ہ کیا لیکن۔۔ جا نہ سکا۔

میں نے پہلی فرصت میں اس تنظیم کو اپنی موجودگی کی اطلاع دی اور اپنے خرچے پر اس سیمینار میں شرکت کی اجازت طلب کی۔

ایرپورٹ سے باہر نکلتے ہی میں کیب کاؤنٹر کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ ”سر۔۔ آپ کو روٹری کلب لے جانے کے لئے۔۔۔“ میرے سامنے ایک ٹیکسی ڈرائیور اپنے ہاتھ میں پکڑے بورڈ پر چسپاں تصویر سے میری شکل ملاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔

میں ممبئی ائیرپورٹ سے جائے تقریب کی طرف روانہ ہو گیا۔۔ ذہن میں ماضی کے دیمک زدہ سیلن بھرے اوراق الٹنے لگے۔۔

میں پاپا کی موت کے وقت صرف چودہ سال کا تھا۔ ان کے اتنے بڑے ادبی سرمائے کو میں کیسے سنبھالتا۔ امی تو پاپا سے اپنے اور اپنے بیٹے کے حقوق کی دعوے دار تھیں۔ اسی رسہ کشی میں امی نے پاپا سے بات چیت بند کر دی تھی۔ میری پرورش کی پوری ذمے داری امی نے خود ہی اٹھائی تھی۔ پاپا نے کبھی اپنی مجبوری کا اظہار نہیں کیا بلکہ امی کا دل رکھنے کے لئے ہمیشہ ان کو سمجھایا کرتے کہ ابھی محنت کا وقت ہے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن امی کی کیا غلطی تھی؟ ایک بڑے سے پھاٹک میں بند ہو کر گھر کے تمام اخراجات کیسے پورے ہو سکتے تھے۔ امی نے خاموشی سے کپڑے سیئے۔ کڑھائی اور بُنائی کی اور یہاں تک کہ گھر کی پرانی ملازمہ کو بھی بہانہ بنا کر الگ کر دیا کہ اس کا خرچ بھی بچ جائے۔پھر بھی میرا اسکول۔۔ کاپی
کتب۔۔ اور رکشہ والے کی تنخواہ۔۔ دودھ والے کے پیسے۔۔اور صاف ستھرے لباس۔۔ ان سب کو تو فراموش نہیں کیا جا سکتا تھا نہ۔۔

پاپا کو دھن تھی ایک کامیاب جرنلسٹ بننے کی۔۔ ایک کمزور اقلیت کی طاقت ور آواز بننے کی۔۔ اور سب مذاہب کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی۔۔ وہ ایک مشن تھے اپنے آپ میں۔ لیکن میں اور امی؟؟
ویران دالانوں کے اونچے دروں میں امی دوپہر کی جلتی دوپہروں میں مشین لئے خلا میں گھورا کرتیں۔۔ اور میں اپنے ہوم ورک کی کاپی کتاب لئے صرف امی کا چہرہ دیکھا کرتا۔ اخراجات کی آندھی میں دکان مکان اور باغ دفن ہوتے گئے۔ میرے اسکول کی فیس نہ جمع ہونے پر امی پہلی بار پاپا سے سختی سے بولی تھیں۔۔ ”ابا کو اپنا فرض پورا کرنا تھا۔ آپ کا گھر بسانا تھا۔ ان کو تو معلوم تھا کہ آپ کے خواب کیا ہیں تو میری قربانی کیوں دی آپ کے ابا نے۔۔ ابا خود تو چلے گئے اور مجھے آپ کے خوابوں کے کھنڈر پر اپنی حقیقی زندگی کا چوبارہ تعمیر کرنے کے لئے چھوڑ گئے۔میں اپنے بچے کو آپ کی طرح ہوا محل کی راہداری میں بھٹکنے نہیں دے سکتی۔۔ میں اپنے سروش کو ایک عظیم
شخصیت کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ آپ ہم دونوں کے لئے کسی طرح کی آسائش نہیں دے سکتے تو کم ازکم گزر بسر کا انتظام تو کیجئے۔ میں اپنے بچے کے ساتھ کسی بڑے شہر چلی جاؤں گی۔ وہاں محنت کر سکتی ہوں۔ وہاں آپ کے زمیندار رتبے کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔۔ میں اپنے سروش کو ایک بڑا آدمی بنانے میں جی جان لگا دوں گی۔“ امی کی ناک سے سوں سوں کی دھمک تیز ہونے لگ

پاپا نمناک آنکھوں سے اپنی نااہلی اور کم ہمتی کو اداس مسکراہٹ میں پی گئے۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور امی کو گہری نگاہوں سے دیکھ کر صرف ایک ہی لفظ کہا ”پگلی۔۔“

امی نے چولہے پر ابلتی دال میں زور سے کفگیر چلا دیا۔۔ پاپا اٹھ کر صدر دروازے کے اونچے پھاٹک کو تاکنے لگے۔میں نے امی کی ناک کی سوجن اور آنکھوں میں ابل کر بہتے آنسوؤں کو دیکھا۔۔ پاپا گھر کے صدر دروازے کی لکڑی میں دراڑیں پڑے پھاٹک کے دونوں طرف بنی چوکیوں میں داہنی طرف والی چوکی پر اُکڑوں بیٹھ گئے۔ چار مینار سگریٹ کی ڈبی نکالی اور مٹھی بند کر کے دونوں انگلیوں کے درمیان سگریٹ دبا کر ہلکے ہلکے کش لگانے لگے۔ امی کی ہچکیوں سے ان کا دوپٹہ سر پر سے ڈھلک گیا اور پتیلی سے دال ابل کر بہنے لگی۔۔

اس دن کے بعد پاپا اور امی کے درمیان بات چیت کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ پاپا کے مضامین اردو اخبارات میں چھپنے لگے اور ان کی شاعری رسالوں میں۔۔ چھوٹے سے شہر میں لوگ ہمارے گھرانے کو تعلیم یافتہ مانتے تھے، اب تو ذرا زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ لیکن بھوک اور اسکول کی کتابیں۔۔ بجلی کے بل۔۔ اخباروں میں چھپی غزلوں اور مضامین سے نہیں خریدے جاسکتے تھے۔ ایک سرد دُھند کے پردوں میں لپٹی رات کو پاپا نے ہم دونوں سے بہت سی باتیں کیں۔۔ کھانا بھی دیر تک کھایا اور۔۔۔۔صبح کی ٹرین سے ممبئی چلے گئے۔۔

میں چوتھی کلاس میں تھا اور امی کے تکئے کے نیچے ایک خاکی لفافے میں بہت سارے نوٹ رکھے تھے۔۔ امی نے سارے نوٹ اسی لفافے میں بند کئے۔۔ پلنگ کے اوپر اسٹول رکھا اور اس پر کھڑے ہوکر الماری کے اوپر بنے بڑے سے طاق میں رکھ دئے۔ پاپا خط میں امی کے نام صرف غزل لکھتے یا پھر نظم۔۔ امی کا ایک بید کا بنا ہوا صندوق تھا، امی اسی میں پاپا کے خطوں کو جمع کرتی رہیں۔۔ میں دسویں کلاس میں آ گیا لیکن پاپا لوٹ کر نہیں آئے۔ امی نے اخبار اور رسالے پڑھنے بند کر دیئے۔۔ میں دسویں میں فیل ہو گیا۔۔ اور امی نے پہلی بار مجھے مارا۔۔ اور پاپا کو بہت کچھ کہہ سنایا۔۔ اب ان کے خطوں کو بے کھولے ہی اس صندوق میں بند کر دیا کرتیں۔

مجھے ایک سال اور لگ گیا اور میں امی کے خوابوں کی عظیم شخصیت بننے کی تیاری میں جی جان سے جٹ گیا۔۔ امی نے مجھے دہرادون بھیج دیا۔ اب تو امی کی غصہ ور آنکھیں اور گول ناک کو سرخ ہوتے نیند میں ہی دیکھ سکتا تھا۔۔ ہر پندرہ دن میں امی سے ملنے جاتا اور امی کی ناک کی سرخی میرے بڑے آدمی بننے کی مشعلِ راہ بن گئی۔۔

میں اپنی ٹرین پکڑنے کے لئے اسٹیشن جانے کے لئے صدر دروازے پر کھڑا پاپا کے بیٹھنے کی جگہ اپنی ہتھیلی سے صاف کر رہا تھا کہ۔۔۔ محلے کی بڑی مسجد کے موذن صاحب بھاگتے ہوئے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے ”وہ۔۔چھوٹے۔۔ میاں جی۔۔ اپنے گھر آ رہے ہیں۔۔“

میں بھاگ کر امی کو بتانے گیا۔۔ امی نے ہاتھوں سے اپنے بکھرے بال سنوارے اور کرسی کی پشت پر لٹکا دوپٹہ اٹھا کر اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرنے لگیں۔۔ میں خوشی سے گھر کے صدر روازے پر بنی داہنی چوکی پر کھڑا ہو گیا۔۔

ایمبولنس سائرن بجاتی گھر کے سامنے چوک میں رک گئی۔۔۔

پاپا کا جنازہ گھر کے مردانے میں رکھا گیا۔۔ اور امی کی ناک کی سوں سوں بالکل بند ہو گئی۔۔ کوئی خونی رشتے دار نہیں تھا لیکن سوگواروں سے گھر بھر گیا تھا۔۔ امی نے تیسرے دن مجھے واپس دہرادون بھیج دیا۔۔ امی میری پڑھائی کا خرچ مجھے پچھلے آٹھ سال سے بھیجتی رہی تھیں اور پھر میں نے امی کی کفالت کی ذمے داری اپنے پر لے لی۔۔ شام کو ٹیوشن پڑھاتا اور اپنے ہم جماعتوں کے پروجیکٹ بناتا۔۔ رات کو فوٹو کاپی کی دکان پر کام کرتا۔۔گریجویشن میں پورے ضلع میں پہلی رینک آ گئی۔ اسکالرشپ ملی اور میں ماسٹرس کے لئے کینیڈا چلا گیا۔۔

امی گھر کے در و دیوار میں گم اپنی صندوقچی میں پرت در پرت رکھی نظموں، غزلوں میں جینے لگیں۔۔ وقت کا پرندہ مجھے اپنے بوجھل پروں میں چھپائے محوِ پرواز تھا۔۔ کہ پاپا کی ادبی خدمات پر اس سیمنار کا کارڈ میری نظر سے گذرا۔۔

”صاحب روٹری کلب۔“ ٹیکسی والے نے مجھے دیکھے بغیر ہی کہا

روٹری کلب کے کانفرنس ہال پہنچنے پر میرا استقبال پرتپاک انداز میں ہوا۔۔ لوگ مجھے شفقت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ میں اپنے لئے صاحبزادے اور بچے جیسے محبت بھرے لفظ اس انتالیس سال کی عمر میں سن رہا ہوں۔۔ ایک عجیب اندوہناک سرشاری میرے ذہن و دل میں اتر رہی ہے۔۔

پاپا کی شخصیت کے اِن اَن دیکھے پہلوؤں سے میں آج تک نا آشنا رہا۔۔ میں کیوں نہیں آیا اس شہر میں، جہاں میرے پاپا ایک بڑے آدمی تھے۔۔ میں آج ہی امی کو جاکر بتاؤں گا۔۔

”کیا انسان تھے۔۔ ایکدم صاف و بے لاگ۔۔ خوددار اور غریب پرور۔۔ نہ کبھی کسی کے آگے دستِ طلب دراز کیا اور نہ کبھی کسی کے بے جا دباؤ کو قبول کیا۔۔“

”ہر سال دو جنوری کو اپنے ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ فاضل دیا کرتے تھے۔۔اور دس مارچ کو سارا دن کمرے سے باہر نہیں نکلتے تھے۔۔۔۔۔۔“
اور میں کچھ سننے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔۔ دس مارچ کو امی پاپا کی شادی ہوئی تھی۔۔۔ اور دو جنوری کو میں پیدا ہوا تھا۔۔۔

مجھے شال اور سپاس نامہ پیش کیا گیا۔۔ میں پاپا کی رہائش گاہ جانے کی جلدی میں سیمینار کے اختتام سے کچھ پہلے ہی ہال سے باہر نکل آیا۔۔۔۔ مجھے آج رات دو بجے کی ٹرین سے واپس اپنے وطن جانا تھا۔۔ امی سے ملنا تھا۔۔

مجھے پاپا کے گھر کا پتہ ازبر تھا۔ وہ ساری زندگی ایک ہی پتے پر رہائش پذیر تھے۔۔ کتنے سارے خط لکھا کرتے تھے وہ امی کو اور میرے لئے بھی تھوڑا سا حصہ ضرور ہوتا تھا۔۔

میں راستہ پوچھتا ہوا صحیح جگہ جا پہونچا۔ وہ خالی فلیٹ تھا۔ اوپر پہنچ کر میں نے گھنٹی بجائی لیکن ایک زنگ آلود تالا لٹکا ہوا تھا۔میں نے نیچے جھانک کر دیکھا تو ایک بزرگ کمزور حالت میں کہہ رہے تھے ”جناب نیچے تشریف لے آیئے“ میں نیچے بھاگ کر گیا

”آئیے۔۔ مجھے معلوم ہو ا کہ آپ آج منعقدہ سیمینار میں تشریف لائے ہیں اور میرے محسن مرحوم کے بیٹے ہیں۔“ انہوں نے اپنی جیب سے دو چابیوں کا ایک چھلہ نکالا اور میرے ہاتھ میں تھما دیا۔

میں واپس سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔ میرے کانپتے ہاتھوں نے زنگ آلود تالا کھولنے کی کوشش کی۔۔ تالا جام ہو چکا تھا۔۔ کافی مشقت کے بعد بزرگوار نے اور میں نے مل کر تالا توڑ ڈالا۔۔

کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔ ایک مخصوص و شفیق مہک نے مجھے گھیر لیا۔۔ جو میرے دماغ میں بسی تھی۔۔ جو میں نے پاپا کی گود میں پائی تھی۔۔۔ بزرگ کونے میں رکھی بوسیدہ سے اسٹول پر ٹک گئے۔ کمرے کے وسط میں ایک پلنگ تھا، جس پر ایک میلی سفید شکن آلود چادر تھی۔ایک تکیہ، ایک گاؤ تکیہ اور ایک اوڑھنے کی چادر کے آس پاس بستر پر اخباروں کے چپٹے بنڈل اور ان پر ایک کاغذ کی چٹ لگی ہوئی تھی۔پلنگ کے برابر میں ایک کرسی اور ایک تپائی، ایک ٹیبل لیمپ، ایک سکڑا ہوا سفید تولیہ کرسی کی پشت پر پڑا ہواتھا۔۔

کمرے میں چاروں طرف ایک فٹ چوڑا سلیب پڑا ہوا تھا۔۔جس پر چار مینار سگریٹ کے خالی پیکٹ بھرے ہوئے تھے۔ایک بید کا بنا ہوا اٹیچی کیس رکھا تھا، جس کی کنڈی کپڑے سے بندھی ہوئی تھی۔۔بالکل اسی طرز کا، جیسا امی کے پاس تھا۔۔ جس میں پاپا کے خطوط۔۔!!!

”میرے محسن میرے دوست۔۔۔ میں اس کمرے میں آج تیرہ سال بعد داخل ہوا ہوں۔۔ جس دن وہ یہاں سے اپنے وطن روانہ ہوئے تھے، اس دن سے یہ کمرہ بند ہے۔۔۔یہ سامنے جو سفید چائے کی پیالی ہے۔۔ اسی پیالی سے وہ آخری چائے پی کر نکلے تھے۔۔دن بھر میں وہ صرف سگریٹ اور چائے پر ہی گذارا کرتے تھے۔۔“

وہ اٹھے اور بستر کی چادر کا کونہ ہٹادیا۔۔ کالا اور سفید دھاری دار کمبل مُڑا ہوا رکھا تھا۔۔ ایک دوپلی ٹوپی اور ایک باریک دانوں کی تسبیح۔۔
لوگوں کی نظر میں وہ ایک دنیادار تھے، لیکن اپنے اللہ کو اپنے قریب ہی رکھتے تھے۔ یہ کرتا اور یہ پاجامہ اور یہ ایک سفید سوئٹر۔۔ جس کو وہ ہمیشہ پہنے رہتے تھے۔۔ یہ سفید سوئٹر۔۔ امی نے بُنا تھا۔۔اور امی کہتی تھیں کہ پاپا نے کبھی نہیں پہنا۔۔ اور کسی کو دے دیا تھا۔۔۔

”وہ بازار کی بنی روٹی کبھی بھی پوری نہیں کھاتے تھے۔۔ان کے منھ میں روٹی چبھتی تھی۔۔ کیونکہ آپ کی امی محترمہ کے ہاتھ کی روٹیاں نائیلون کی بنی ہوتی تھیں۔۔اور کوفتے اور کباب۔۔ اور شوربہ۔۔ اور کالی دال کی کھچڑی۔۔۔اور پسندے۔۔۔“

میرے دل میں دبی دبی سی کراہیں ابھرتی رہیں ”آم کا باغ۔۔ امرود کے باغ۔۔ بیریاں۔۔کھیت۔۔ اور دکان۔۔ مکان۔۔ خاموشی سے بیع نامے پر دستخط ہوتے رہے۔۔
شکن آلود چادر، تولیہ، گاؤ تکیہ، تکیہ، ٹوپی، تسبیح، چائے کی پیالی ان سب کی پوٹلی باندھ لی میں نے۔۔ مجھے شاہ رخ خان یاد آ گیا۔۔۔۔ ”سدا تم نے عیب دیکھا ہنر تو نہ دیکھا۔۔۔وہ تو ہے البیلہ۔۔۔ ہزاروں میں اکیلا۔۔۔“

میں نے ٹوٹاہوا تالا اور زنگ آلود چابی بزرگوار کے حوالے کر دی۔۔۔

”اب میں چین سے مر سکوں گا۔۔“ بزرگ نے بے اختیار مجھے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔۔

بڑے میاں کے گلے سے لگے لگے میں نے اپنے بے اختیار آنسوؤں کو اپنی سرد انگلی سے پونچھ لیا

اسٹیشن پر میں پاپا کے قدموں کے نشانات ڈھونڈھتا رہا۔۔ ٹرین میں بیٹھ کر میں گہرائی سے سوچنے لگا۔۔۔ میں امی کو کیسے یقین دلاؤں گا کہ پاپا ان کو کتنا چاہتے تھے۔۔ کاش امی سمجھ سکتیں۔۔
اسٹیشن آ گیا میرے شہر بریلی کا۔۔ راستہ بھی طے ہوگیا امی کے پاس جانے کا۔۔

میں نے دربان کو بتایا۔۔۔۔”میں سید شہادت حسن مہدی۔۔۔ ولد سید صادق حسن مہدی۔۔۔۔۔ ولد سید مہدی حسن۔۔ مہدی منزل محل۔۔“

”میری امی کہاں ہیں۔۔“ دربان نے سر جھکا کر سلام کیا اور۔۔بھوری گرم چادر میں ڈھکی اپنی انگلی سے اپنی دائیں جانب اشارہ کیا۔۔

میں دوڑ کر امی کی قدم بوسی کے لئے جھک گیا۔۔ میں نے پاپا کے سامان کی پوٹلی امی کے قدموں کے پاس رکھ دی۔

”امی ایک بڑے آدمی کا نذرانہِ عقیدت۔۔۔۔“ میں سر جھکائے امی کو بتاتا رہا کہ پاپا نے کیا کیا صعوبتیں اٹھائیں۔۔۔اور بہت بڑے آدمی بن گئے۔

رات گہری ہو گئی۔۔ دربان نے مجھے اٹھایا۔۔”اندھیرا گھنا ہو گیا بابو جی۔۔ اب گھر جاؤ۔۔“

”بابا۔۔ایک کام کرو گے میرا۔۔“ میں نے جیب سے مٹھی بھر کے بڑے نوٹ نکالے۔اور بابا کی مٹھی میں بند کردئے۔۔ بابا یہ سامان میری امی کا ہے۔۔ اس کو یہاں امی کے سرہانے۔۔۔“
میں اس سے آگے ایک لفظ نہیں بول سکا۔۔ وہ سامان کی پوٹلی وہیں امی کے سرہانے رکھ کر۔۔ میں پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔۔

۔۔۔امی کے قدموں سے ایک بار پھر زور سے لپٹ گیا۔۔
۔۔میں سسکتا ہوا ویران اور خاموش قبرستان سے باہر نکل آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close