ایک طرف معاشی بدحالی کا رونا، دوسری جانب آٹھ نئے معاونین خصوصی کی تقرری!

ویب ڈیسک

گزشتہ روز وکلا کنونش سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیا اور ہم سے ناک رگڑوائی

اس صورتحال کے باوجود معاشی بدحالی سے نڈھال پاکستان میں وزیراعظم شہباز شریف نے آٹھ مزید معاونین خصوصی کا تقرر کر دیا ہے۔ کئی حلقوں میں اس فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور اسے قومی خزانے پر بوجھ قرار دیا جا رہا ہے

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان آٹھ معاونین خصوصی کے تقرر کے بعد وفاقی کابینہ کا حجم تقریباً 70 کے قریب ہو گیا ہے، جس میں چونتیس وزرا، سات وزرائے مملکت، چار مشیر اور پچیس معاونین خصوصی شامل ہیں

نئے معاونین خصوصی میں رکن قومی اسمبلی افتخار احمد خان بابر، رکن قومی اسمبلی مہر ارشاد احمد خان، رکن قومی اسمبلی رضا ربانی کھر، رکن قومی اسمبلی مہیش کمار ملانی، پی پی پی کے رہنما فیصل کریم کنڈی، سردار سلیم حیدر، تسنیم احمد قریشی اور محمد علی شاہ شامل ہیں

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے ”کابینہ کے حجم کو ایک ایسے وقت میں بڑھایا گیا ہے، جب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پائی پائی کی ضرورت ہے“

خالد بھٹی نے کہا ”جنوبی پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں سیلاب متاثرین بھوک وافلاس اور دربدری کا شکار ہیں۔ وہ بیماریوں سے مر رہے ہیں اور یہاں وفاقی کابینہ کے حجم کو بڑھایا جارہا ہے۔ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ معیشت کو دس سے تیس بلین ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ تیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ لاکھوں انسان کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں یہ تقرریاں انتہائی شرمناک ہیں‘‘

خالد بھٹی کے مطابق حکمران طبقہ کی اس دلیل میں کوئی طاقت نہیں کہ وزرا اگر منسٹر انکلیو میں سرکاری گھروں میں رہتے ہیں، تو وہ اس کے پیسے اپنی تنخواہ سے کٹوا دیتے ہیں

انہوں نے کہا ”اس جگہ گھر ایک ایک دو دو کینال یا اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایسے گھر دس لاکھ سے بیس لاکھ کرائے پر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سفر مفت ہوتا ہے۔ علاج و معالجہ حکومت کرواتی ہے۔ پٹرول اور دوسری یوٹیلیٹیز پر بھی ان کو بہت رعایت دی جاتی ہے۔ تو ان کی مراعات پر بے تحاشہ پیسہ قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے، جو ان حالات میں سیلاب زدگان پر لگنا چاہیے‘‘

تاہم حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کے بقول، وزرا پر ہونے والے اخراجات بہت معمولی ہیں اور ان کو قومی خزانے پر بوجھ قرار نہیں دیا جا سکتا

انہوں نے کیا ”پاکستان بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی کا ملک ہے، جہاں پر لوگوں کے مسائل کی نوعیت مختلف اور ہر علاقہ اور ہر صوبہ وفاقی کابینہ میں نمائندگی چاہتا ہے تاکہ اس علاقے کے مسائل حل ہو سکیں۔ موجودہ معاونین میں سے ایک بڑی تعداد ایسے ہی علاقوں کی ہے۔ یہ اتحادی حکومت ہے جس میں حکومت کے دوسرے اتحادیوں کو شراکتِ اقتدار کے تحت حصہ دینا پڑتا ہے لیکن اس کا مقصد صرف عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے‘‘

صابر علی بلوچ کے مطابق یہ معاونین سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں وزیر اعظم کی مدد کر سکتے ہیں

انہوں نے کہا ”یہ تصور غلط ہے کہ اراکین اسمبلی یا وزرا پر بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔“

کابینہ کا حجم: آئین کیا کہتا ہے؟

کئی حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی سطح پر کابینہ کا حجم اتنا بڑا نہیں ہو سکتا۔ قانون سازی، پارلیمانی امور اور سیاسی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ وفاقی کابینہ کا حجم بہت زیادہ نہیں ہو سکتا

انہوں نے بتایا ”آئین کی آرٹیکل 92 کے مطابق وزرا اور وزیر مملکت کی تعداد اراکین پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد کا گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد 446 ہے۔ تو اس حوالے سے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 49 ہونی چاہیے۔‘‘

تاہم وزیراعظم معاونین خصوصی جتنے چاہے رکھ سکتے ہیں اس کی آئین میں کوئی حد نہیں ہے۔ وزیراعظم نہ صرف ان معاونین کا تقرر کر سکتے ہیں بلکہ ان کو وزیر یا وزیر مملکت کا درجہ بھی دے سکتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close