یہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے
اور یہ تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ ہندوستان پر طویل برطانوی راج کے بعد برطانیہ کے ہاتھوں ہندوستان کی تقسیم سے بھارت اور پاکستان معرض وجود میں آئے تھے
”کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے“ سے شروع ہونے والا تاریخ کا یہ سفر عجیب موڑ کاٹتے ہوئے ایک ایسی جگہ آن پہنچا ہے، جہاں ہندوستان پر راج کرنے والے برطانیہ کی تقسیم کا فیصلہ اب ہندوستان کی تقسیم سے جنم لینے والے دو ملکوں بھارت اور پاکستان کے نژاد دو رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے
لوگوں کی یادوں میں تقسیمِ ہندوستان کے لیے 3 جون 1947ع کا منصوبہ پیش کرنے والے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ایک بار پھر جی اٹھے ہیں۔۔
جی ہاں، اُس وقت برطانیہ نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی تھی تو اب بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سونک اور اسکاٹ لینڈ کے نئے سربراہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف اسی ’برطانیہ‘ کے حصے بخرے کر سکتے ہیں
سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر کے طور پر منتخب کر لیا ہے اور اس طرح وہ اسکاٹ لینڈ کے کم عمر ترین لیڈر بن گئے ہیں۔ وہ اپنی پیش رو نکولا اسٹرجن کی جگہ لیں گے۔ حمزہ یوسف ایک تجربہ کار وزیر ہیں، جنہیں آزادی حاصل کرنے کی اپنی کوشش کے لیے اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کو متحد کرنے کے ہدف کا سامنا ہے
اسکاٹ لینڈ کی نیم خودمختار حکومت میں ’فرسٹ منسٹر‘ بننے کی دوڑ میں فاتح کا اعلان ہوتے ہی حمزہ یوسف مغربی یورپ میں کسی ملک کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان بن گئے ہیں۔ واضح رہے کہ فرسٹ منسٹر اسکاٹ لینڈ کی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے
ان کے حامی ان کی تعریف ایک منجھے ہوئے کمیونیکیٹر کے طور پر کرتے ہیں، جو ایس این پی کو ایسے میں متحد کر سکتے ہیں جب کہ پارٹی کی مرکزی پالیسی یعنی ”آزاد اسکاٹ لینڈ“ کے لیے حمایت کا حصول جمود کا شکار ہے
برطانیہ کی حکومت کی جانب سے نئے ریفرنڈم کی مخالفت، اور سپریم کورٹ کےفیصلے کے باوجود، یوسف نے پیر کو اپنی جیت کی تقریر میں آزادی فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا
دوسری جانب رشی سونک جو ایک بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم ہیں، اسکاٹ لینڈ کو برطانیہ میں ہی رکھنے کے حق میں ہیں۔ سونک نے منصب سنبھالنے کے بعد اسکاٹ لینڈ کے پہلے دورے کے دوران اس وقت کے ایس این پی رہنما نکولا اسٹرجن سے ملاقات میں برطانیہ کے ساتھ رہنے کے فوائد پرروشنی ڈالی تھی
حمزہ یوسف کے منتخب ہونے سے غالب امکان ہے کہ وہ یونائیٹڈ کنگڈم سے اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر زور دیں گے، جیسا کہ انہوں نے اس کا کھل کر اظہار کیا ہے
برطانوی وزیراعظم کے بھارتی نژاد اور حمزہ یوسف کے پاکستانی نژاد ہونے کے باعث اب صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ کی قسمت کا فیصلہ اب ایک طرح سے ان کے ہاتھ میں ہوگا
اگر ایسا ہوتا ہے اور جنوبی ایشیائی تارکینِ وطن کے بچے برطانیہ کی ”تقسیم“ کی صدارت کرتے ہیں تو کیا یہ ایک حیرت انگیز افسانوی انصاف نہیں ہوگا؟
اب ایک ہندوستانی اورایک پاکستانی ماؤنٹ بیٹن کی طرز پر برطانیہ کی تقسیم پربات چیت کریں گے، وقت کا پہیہ کیسے گھومتا ہے اور تاریخ خود کو کیسے دہراتی ہے! یہ واقعی حیرت انگیز ہے
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت ہی دلچسپ تبصرے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ایک صارف نے حمزہ یوسف کو مبارکباد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ برطانوی وزیراعظم کے ساتھ بیٹھ کر 1947 میں برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے ذریعے برصغیر کی تقسیم کا نامکمل فیصلہ مکمل کریں
ایک لکھاری صارف کا اپنے تبصرے میں کہنا تھا ”میں اس بات کو بات مضحکہ خیز محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نسلیِ طور پر بھارتی اور پاکستانی پسِ منظر رکھنے والے اب برطانیہ کی تقسیم پر بات چیت کر سکتے ہیں“
واضح رہے کہ اسکاٹ لینڈ 1707ع تک ایک خود مختار ریاست تھی، جسے بعد ازاں انگلینڈ اور آئرلینڈ سے ملا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جیمز ششم آف اسکاٹ لینڈ بیک وقت ان دو ریاستوں کے بادشاہ بھی تھے۔ 17 مئی 1707 کو اسکاٹ لینڈ بھی اس الحاق میں شامل ہو گیا اور یہ سب ریاستیں مل کر ایک ملک بن گئیں
تاہم اس الحاق کے خلاف اسکاٹ لینڈ میں عام مظاہرے ہوتے رہے ہیں، آج بھی اسکاٹ لینڈ کا عدالتی اور قانونی نظام اور جرم و سزا انگلینڈ اور ویلز اور شمالی آئرلینڈ سے الگ ہے۔