انڈین آئین کے بانی نے اسے جلانے کی خواہش کیوں کی؟

سید صفدر گردیزی

یہ سنہ 1929 کے ماہ نومبر کا ذکر ہے۔ لاہور میں آل انڈین کانگریس کا ایک غیر معمولی اجلاس ہوتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی زیر صدارت اجلاس میں برطانوی حکومت سے ہندوستان کو ڈومینین کی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ کے اگر انگریزوں نے 26 جنوری 1930 تک یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو ہندوستان اپنے آپ کو مکمل آزاد قرار دے گا۔
ہندستان کو مکمل آزادی اس ڈیڈلائن کے تقریباً 17 سال بعد ملی مگر کانگریس نے 26 جنوری کی تاریخ کو ایک تاریخی واقعے کے ساتھ منسلک کر کے گویا ماضی کی ناکامی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔
26 جنوری 1950 کو پہلے انڈین صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے انڈین آئین پر دستخط کیے تو ہندوستان ڈومینین سے جمہوریہ قرار پایا

اگرچہ 26 نومبر 1949 کو انڈین دستور پر اتفاق رائے ہو چکا تھا مگر اس کے نفاذ کے لیے 26 جنوری کا انتخاب کیا گیا۔ ایک لاکھ 17 ہزار 369 الفاظ پر مشتمل یہ دنیا کا طویل ترین دستور ہے جو 370 آرٹیکلز، 25 حصوں اور 12 شیڈولز پر مبنی ہے

اس آئین کےبنیادی مسودے کو چھاپا گیا اور نہ ہی ٹائپ کیا گیا۔ ہندی اور انگریزی زبانوں میں اسے ہاتھ سے لکھا گیا ہے۔ اس دستور کی شقوں کو مختلف ممالک کے آئین میں سے اخذ کیا گیا ہے جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور آئرلینڈ شامل ہیں۔
ہندوستانی وزیر قانون ڈاکٹر بھیم رام امبیدکر کی سربراہی میں آئین ساز کمیٹی نے دوسال 11 ماہ اور 18 دن میں اس مسودے کو حتمی شکل دی۔ ڈاکٹر امبیدکر کو انڈین آئین کا خالق ہونے کی وجہ سے بابائے آئین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے

ہندوستان کی سب سے بڑی نسلی اقلیت دلت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امبیدکر نے امریکہ اور برطانیہ کی صف اول کی جامعات سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ہندوستان میں اچھوت سمجھے جانے والی ذات دلتوں کے نمائندے کے طور پر ابھرے

یہ دلچسپ امر ہے کہ ہندوستانی آئین کے بانی کو انتخابات میں کامیابی کے لیے مسلم لیگ کی حمایت مانگنی پڑی۔ سنہ 1946 کے انتخابات میں کانگریسی رہنما سردار پٹیل نے انہیں بمبئی کی صوبائی سیٹ سے ہروا دیا۔ اس موقع پر مسلم لیگ کے بنگالی قائدین حسین شہید سہروردی اور جوگندر ناتھ منڈل ان کی مدد کو آئے۔ ان کے ہم ذات منڈل نے انھیں مشرقی بنگال کے علاقے جیسور سے اپنے زیراثر حلقے سے انتخابات میں کامیاب کروایا

یہ دونوں دلت لیڈر بعد میں پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے قانون بنے۔ منڈل اکتوبر 1950 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ہندوستان چلے گئے۔ امبیدکر 27 ستمبر 1951 تک انڈیا کے وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہے۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ انڈین آئین کا معمار 1951 اور 1954 میں لوک سبھا کا انتخاب نہ جیت سکا

72 برسوں بعد یہ آئین اپنے بنیادی تصورات اور مقاصد حاصل کرنے میں کتنا کامیاب ہوا؟

اس سوال کا ایک جواب تو اس کے بانی امبیدکر نے 19 مارچ 1955ع میں راجیہ سبھا میں تقریر کرتے ہوئے دیا تھا۔
انہوں نے یہاں انڈین آئین کو جلانے کی اپنی سابقہ تقریر کی تشریح اور وضاحت کی تھی۔ ہندوستان میں اقلیتوں کو نظرانداز کرنے پر 1953ع میں راجیہ سبھا میں تقریر کرتے ہوئے امبیدکر نے اس صورتحال میں اپنے بنائے ہوئے آئین کو جلانے میں بھی عار محسوس نہ کرنے کی بات کی تھی جس پر ان کے خلاف مخالفت اور تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
انہوں نے اپنی خواہش کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرہم بھگوان کے لیے ایک مندر تعمیر کریں۔ اس سے قبل کہ مورتی کو مندر میں نصب کیا جائے شیطان اس میں بسیرا کر لے تو ہمارے پاس مندر کو منہدم کرنے کے سوا کیا چارہ جاتا ہے

بھارتی آئین کے خالق کی یہ مایوسی اس دور سے تعلق رکھتی تھی جب ہندوستان کا سیکولر تصور اتنا دھندلایا نہ تھا۔ یہ نہرو کا ہندوستان تھا۔ اس کا موازنہ اگر آج مودی کے ہندوستان سے کریں تو احساس ہوتا ہے کہ شاید امبیدکر نے انڈیا میں اقلیتوں کے مخدوش مستقبل میں جھا نک لیا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اکثر رہنما آر ایس ایس کی بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کی مخالفت کی پالیسی کو دہراتے نظر آتے ہیں۔ انتہا پسند حلقے بھارتی آئین کو بعض اوقات غیر مقامی یا اجنبی دستاویز تک کہہ دیتے ہیں

یہ اس سوچ کا تسلسل ہے جس کا اظہار 1950ع میں آئین کے نفاذ کے وقت پارلیمنٹ میں ہوا تھا۔ ایک رکن پارلیمان ہنومان تھیا نے آئین کے بارے میں کہا تھا کہ ’ہم ستار کی دھن سننا چاہتے ہیں اور یہ ہمیں انگریزی موسیقی سنا رہے ہیں۔‘
اندرا گاندھی کے دور میں ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ الفاظ آئین کا حصہ بنائے گئے۔ بی جے پی کے بہت سارے رہنما ان لفظوں کو آئین سے نکالنے کے مطالبے کے حامی ہیں۔ وہ اس دلیل کا سہارا لیتے ہیں کہ مذکورہ الفاظ آئین کا حصہ نہیں ہیں بلکہ اندرا گاندھی نے انہیں شامل کیا تھا

بی جے پی کے سربراہ موہن بھاگوت نے حالیہ دنوں میں نئے آئین کی بات کی ہے۔ اس پارٹی کی آئینی بنیادوں سے اختلاف اور اسے اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کی خواہش کی طویل تاریخ ہے

1998 کے انتخابی منشور میں آئین پر نظر ثانی اس کے پروگرام میں شامل تھا۔ سابق وزیراعظم واجپائی نے جسٹس نارائن کی قیادت میں اس کام کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے دو برس کی محنت سے 249 تجاویز مرتب کی تھی

ڈاکٹر امبیدکر نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا آج مودی کا ہندوستان اس کی بدترین مثال پیش کر رہا ہے۔ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ذریعے اس کی حیثیت اور شناخت میں تبدیلی سے اقلیتوں کے آئینی اور سیاسی حقوق کے وعدے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
سیٹیزن شپ ایکٹ کے ذریعے لاکھوں ہندوستانی اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن گئے ہیں۔ اقلیتوں کی زندگیاں اور عبادت گاہی غیر محفوظ ہیں۔ بھارتی آئین کے مساوات، انصاف اور بھائی چارے جیسے بنیادی اصولوں سے انحراف کا تکثیریت اور رواداری سے کوئی لینا دینا نہیں

حال ہی میں معتبر تعلیمی درسگاہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے 100 سابق طلبا نے ہندوستانی وزیر اعظم کے نام خط میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو قتل کرنے کی دھمکیوں کے لیے متنازع ’دھرم سنسد‘ کے انعقاد کا حوالہ دیا ہے

اسی طرح مسلم خواتین کی تصاویر ’بلی بائی‘ ایپ پر نیلامی کے لیے اپلوڈ کرنے اور انہیں’سلی ڈیل‘ ایپ کے ذریعے نشانہ بنانے کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔ اس خط میں ہندوستانی آئین کے مساوات اور انصاف کی علامتوں پر منڈلاتے سیاہ بادلوں پر اپنی بے بسی کا اظہار کیا گیا ہے

یہ سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ تھے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں امبیدکر کی تصویر پارلیمان میں آویزاں کی۔ انہوں نے ہی امبیدکر کے یوم پیدائش پر تعطیل کا اعلان کیا۔ سنہ 2020 میں امبیدکر کے یوم وفات پر ان کے گھر پر سیاہ پرچم لہراتا رہا۔ ان کی پڑپوتی کے شوہر آنند تلتمبڑے کو مودی حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے اس پروفیسر کا جرم شہری آزادیوں کا مطالبہ اور فسطائیت تنقید پر تنقید تھا

آج انڈیا کے آئین کی شقیں اپنی جگہ موجود ہیں مگر موجودہ طرز حکومت اور آئین دو مختلف دھارے بن چکے ہیں جو مختلف سمتوں میں رواں دواں ہیں

کیا انڈین آئین کی بنیاد بھی قرارداد مقاصد پر رکھی گئی؟
پاکستان کی سیاسی اور آئینی بحثوں میں 1949 کو منظور ہونے والی قرارداد مقاصد کا اکثر ذکر ہوتا ہے جس کو ضیا الحق کے دور میں پاکستانی آئین کے دیباچے کا حصہ بنایا گیا، لیکن بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ ہندوستانی آئین کی بنیاد بھی انڈین قرارداد مقاصد پر رکھی گئی ہے۔ جسے 1946میں پنڈت جواہر لال نہرو نے تحریر کیا تھا

اس دستاویز کو قانون ساز اسمبلی نے 1947 میں آئین کے مقدمے کے بنیادی اصولوں کے لیے منظور کیا۔ بھارت کے جمہوری طرز حکومت، شہریوں کے بنیادی حقوق، سیاسی سماجی اور معاشی برابری تک تمام باشندوں کی رسائی اس قرارداد مقاصد کے بنیادی اصول ہیں

انڈیا کی متنوع مذہبی، لسانی اور ثقافتی نوعیت آئین سازی کے لیے بڑا چیلنج تھا۔ اس کا حل سیکولرازم اور مذہبی، لسانی اور ثقافتی آزادی کی یقین دہانی کی صورت میں نکالنے کی کوشش کی گئی۔ شمال اور جنوب کی ریاستوں کے تاریخی اور سماجی تضادات آئین کے نفاذ کے بعد ریاستوں کی جغرافیائی حد بندی اور قومی زبان کے مسئلے پر سامنے آئے

ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دینے کی قرارداد آزادی کے بعد کانگریس کی پارلیمانی پارٹی میں صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہوئی تھی۔ نہرو بذات خود ’ ہندوستانی‘ کو قومی زبان بنانے کا حق میں تھے۔
آئین کے مطابق 1955 میں لسانی کمیشن قائم ہوا جس کی ذمہ داریوں میں 26 جنوری 1965 تک انگریزی کی جگہ ہندی کو انڈین یونین کی سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے عملی اقدامات تجویز کرنا تھا

ہندی نہ بولنے والی جنوبی ریاستوں میں ہندی کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
معروف انڈین صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ کلدیپ نائر اپنی آپ بیتی Beyomd The Lines میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے سابق گورنر جنرل گوپال اچاری تک نے ہندی زبان کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر دیا تھا۔ اس دور کے وزیر داخلہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارش پر ہندی کے ساتھ انگریزی کو اضافی سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی سفارش کی گئی

پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کے لیے لسانی یا انتظامی بنیادوں کے تعین کی بحث اکثر ذرائع ابلاغ کا حصہ بنتی ہے۔ انڈیا میں آئین کے نفاذ کے بعد اس مسئلے نے ایک نزاع کی صورت پیدا کر دی تھی۔
حکومت نے فضل علی کی سربراہی میں ’اسٹیٹ ری آرگنائزیشن کمیشن‘ قائم کیا۔ 1955 میں اس کمیشن کی رپورٹ نے پورے ہندوستان میں لسانی اور علاقائی ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یوپی، مہاراشٹر اور پنجاب میں سب سے زیادہ ردعمل ہوا

گجراتی بولنے والوں کی ریاست گجرات اسی اصول پر قائم ہوئی۔ پنجاب میں اکالی دل کی دھمکی پر تقسیم روک دی گئی۔ یوپی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ہنگاموں اور اختلافات کی وجہ سے اس کمیشن کی تمام سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ البتہ اس کے پچاس برسوں بعد یوپی تین حصوں میں تقسیم ہوگیا

ہندوستانی آئین میں ترامیم اور تبدیلی کے پارلیمانی اختیار کی تشریح پر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں کشمکش تین دہائیوں تک چلتی رہی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے بہت سارے قوانین کو خلاف آئین قرار دے گھر ختم کر ڈالا۔
ہندوستانی آئین میں اب تک ایک سو چار ترامیم ہو چکی ہیں۔ پہلی ترمیم کی وجہ بھی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بنا۔ ہندوستانی حکومت نے دفعہ 31 کے تحت زمینداری کے خاتمے کے لئے بڑی جاگیروں کو یصلے میں تحویل میں لینے کے حکومتی اختیار کو برقرار رکھا مگر منصفانہ معاوضہ نہ دینے کا قانون مسترد کردیا ۔1951 میں پارلیمنٹ نے آئین میں پہلی ترمیم کرکے اس مسئلے کا حل نکالا

سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان دوسرا تنازع آئین کے آرٹیکل 19 میں دیے گئے آزادی اظہار کی شرائط اور حدود کی تشریح پر ہوا۔ حکومت کی انتظامی مجبوریوں کی خاطر اس حق کو محدود کرنے کے جواز کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر ختم کر ڈالا

آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح اور اسے تبدیلی سے مبرا قرار دینے کا فیصلہ آئینی تبدیلی کی حدود اور قیود کا تعین کرتا ہے۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے دور میں آئین میں 24 ویں اور 25 ویں ترامیم متعارف کروائیں جس پر سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی بینچ نے ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح کی۔
فیصلے میں کہا گیا کے جمہوری طرز حکومت، سیکولرازم، آئین کی وفاقیت اور بالادستی جیسے تصورات کو پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی

حوالہ : اردو نیوز (سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close