اس وقت پوری دنیا میں 3 ملین سے زائد جھیلیں پائی جاتی ہیں جو کہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے قابل ِدید ہیں۔ دنیا بھرمیں بے پناہ خوبصورتی والی جھیلیں لاتعداد ہیں، مگر کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں، جن کو اپنی پراسرار اور حیرت انگیز خصوصیات کے باعث مشہور ہیں
لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ آج اس دنیا میں ایک جھیل ایسی موجود ہے، جسے چھو کر ہر جاندار چیز پتھر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جی ہاں، دنیا کے سب سے بڑے براعظم افریقہ کے ملک تنزانیہ میں ایک ایسی پراسرار جھیل ہے، جس کے پانی میں داخل ہونے والے جانور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، جھیل میں داخل ہوکر مرنے والا پرندہ یا جانور کسی پتھر کے مجسمے سی شکل اختیار کر لیتا ہے یا پھر ممی Mummy میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جھیل کے پتھر بن جانے والے ان جانوروں کو دیکھ کر کسی ہارر فلم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے
ایسی ہی ایک جھیل تنزانیہ میں واقع ہے، یہ مشہور پراسرار جھیل ایک عرصے سے معمہ بنی رہی ہے۔ اس کا نام نیٹرون جھیل ہے اور یہاں فلیمنگو پرندے ملاپ کرتے ہیں لیکن یہ پرندے بھی کنارے پر ہی رہتے ہیں کیونکہ نمکین جھیل گہرائی میں انہیں ہمیشہ کے لیے ساکت بنا سکتی ہے
جیسے ہی کوئی جانور یا پرندہ اس جھیل میں گر جاتا ہے، وہ فوری طور پر مر جاتا ہے اور بہت تیزی سے اس کا جسم نمک زدہ ہو کر ایسا لگتا ہے کہ گویا پتھر کا ہو چکا ہے
جھیل کا اوسط درجہِ حرارت صرف 26 درجے سینٹی گریڈ ہے، جس میں خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے جھیل گہری سرخ رنگت میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس میں الکلائنی کیفیت اور بھرپور نمک موجود ہے، جو اسے مزید پراسرار بناتا ہے۔ خون کی طرح سرخ رنگ کی یہ جھیل دور سے دیکھنے میں ایسی نظر آتی ہے جیسے گوشت کے بڑے بڑے پارچے اس وادی میں پھیلا دئے گئے ہوں
محلِ وقوع کے لحاظ سے یہ جھیل تنزانیہ کے شمال میں کینیا کی سرحد کے انتہائی قریب واقع ہے اور نیروبی سے تقریباً 140 کلومیٹر دور ہے، کینیا کے ایواسو نیرو Ewaso Ng’iro نامی دریا کے پانی کی وجہ سے وجود میں آئی یہ جھیل معدنی دولت سے مالامال ہے
یہ ایک نمکین پانی کی جھیل ہے جو کہ سوڈیم کاربونیٹ اور سوڈیم بائی کاربونیٹ پر مشتمل ہے- جھیل کا درجہ حرارت عام طور پر تقریباً 80 ڈگری فارن ہائیٹ رہتا ہے لیکن یہی درجہ بعض مخصوص حالات میں 140 ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے
جھیل میں کثیر مقدار میں پائے جانے والے نائیٹرون (نطرون)کی موجودگی کا سبب قریب میں موجود آتش فشاں پہاڑ ہے، جس کی راکھ نائٹیرون میں اضافے کا سبب بنتی ہے- یہ آتش فشاں اب تک آٹھ مرتبہ پھٹ چکا ہے۔ اس آتش فشاں نے پہلی بار 1883 میں لاوا اگلنا شروع کیا تھا
اب تک سرگرم قریبی آتش فشاں پہاڑ کی وجہ سے نیٹرو کاربونائی ٹائٹس جھیل میں آتے ہیں اور الکلائن کیفیت 10 بی ایچ تک بڑھ چکی ہے۔ یہاں بیکٹیریا ہی پائے جاتے ہیں، جن کی بہتات سے جھیل سرخ ہو چکی ہے
اب تک کے اندازوں کے مطابق ان خوفناک اموات کی وجہ جھیل میں موجود نائیٹرون٬ اس کا نمکین پانی اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہی بتائی جاتی ہے
ایک عرصے تک جھیل کو آسیبی اور پراسرار سمجھا جاتا رہا تھا، لیکن یہاں کے کنارے بھی نمک کے ڈلوں پر مشتمل ہیں۔ نمک کی زیادتی اور کسی مچھلی کی عدم موجودگی سے اسے جان لیوا جھیل بھی کہا جاتا ہے
فلیمنگو نیٹروکاربونائی ٹائٹس کھاتے رہتے ہیں، لیکن وہ کنارے تک ہی رہتے ہیں اور دور تک نہیں جاتے۔ تاہم جھیل کنارے پر بڑی تعداد میں مری ہوئی چمگادڑیں اور پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس جھیل میں انیس ہزار سال کی تاریخ بھی پنہاں ہے
جھیل کنارے انسان کے چار سو قدموں کے نشانات دیکھے گئے ہیں، جو ایک وقت میں جم کر پتھرا گئے اور ہزاروں سال قدیم بتائے جاتے ہیں
دنیا کو اس جھیل کی اس عجیب و غریب خصوصیت کا پتہ حال ہی میں چلا جب ایک افریقی فوٹوگرافر نک برانڈٹ Nick Brandt نے دنیا کی اس پراسرار ترین جھیل کا دورہ کیا ۔ اس نے وہاں موت کا شکار بننے والے متعدد پرندوں اور چمگادڑوں کی چند تصاویر بھی لیں۔ نک برانڈٹ نے اپنی نئی کتاب اكروس دی ریویجڈ لینڈ Across the Ravaged Land کے لئے اس جھیل کے ارد کے ارد گرد پتھر بن چکے کئی جانوروں کی تصویریں كھچي ہیں اور ان پر ڈاکیومنٹری بھی بنائی
نک برانڈٹ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، جب وہ شمالی تنزانیہ کی نیٹرون جھیل کے ساحل پر پہنچا تو وہاں کے منظر نے اسے چونکا دیا
جھیل کے کنارے اس نے جگہ جگہ پر جانوروں اور پرندوں کے مجسمے دیکھے۔ یہ مجسمے مردہ پرندوں کے تھے، جھیل کے پانی میں جانے والے جانور اور پرندے کچھ ہی دیر میں كیلسفائید Calcified ہوکر پتھر بن جاتے ہیں
نک برانڈٹ نے لکھا ہے، ‘‘کوئی یقینی طور پر نہیں جانتا ہے یہ کیسے مرے، لیکن لگتا ہے کہ جھیل کی عجیب رنگت نے انہیں گمراہ کیا نتیجے میں وہ سب پانی میں اتر گئے
پانی میں سوڈا اور نمک کی زیادہ مقدار ان پرندوں کے مردہ جسم کو محفوظ رکھتی ہے۔ جھیل کے اس پانی میں الكلان کی سطح 9pH سے 10.5pH ہے، یعنی امونیا جتنا الکلائن…. پانی میں نمکیاتی عنصر ’نطرون‘ بھی پایا گیا جو آتش فشاں کی راکھ میں ہوتا ہے۔ اس عنصر کا استعمال قدیم مصر کے باشندے فراعین کی مميوں کو محفوظ کرنے کے لئے رکھتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے جھیل کو چھونے والی ہر چیز پتھر بن کر ممی کی طرح محفوظ ہوجاتی ہے
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پراسرار جھیل کے اندر جہاں ایک طرف تو کوئی بھی جانور اور پرندہ زندہ نہیں رہ سکتا ، وہیں مچھلیوں کی ایک خاص قسم اس جھیل کے انتہائی زہریلے اور خطرناک ہونے کے باوجود بھی اس میں زندہ رہتی ہے۔ مچھلیوں کی اس قسم کو الکائن تِلاپیہ alkaline tilapia کہا جاتا ہے اور یہ زندہ رہنے کے لیے جھیل کے کنارے ایسے مقام کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پانی کم نمکین ہوتا ہے-