گاڑی کی آمد کا وقت قریب آیا تو ریلوے اسٹیشن زقازیق پر سب سے پہلے پہنچنے والا شخص حجشہ سگرٹ فروش تھا۔
وہ بجا طور پر ریلوے اسٹیشن کو اپنی چلتی منڈی تصور کرتا تھا اور بے مثال پھرتی کے ساتھ پلیٹ فارم پر گھومتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی جہاں دیدہ آنکھوں سے گاہکوں کو شکار کرتا تھا۔
حجشہ سے اگر اس کے پیشے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو شاید وہ اس پر بدترین لعنت بھیجتا، کیونکہ لوگوں کی اکثریت کی طرح وہ بھی اپنی زندگی سے اکتایا ہوا اور اپنے مقدر سے ناخوش تھا۔ اگر اسے انتخاب سے آزادی حاصل ہوتی تو وہ یقیناً کسی رئیس کا موٹر ڈرائیور ہونا پسند کرتا تاکہ جنٹلمینوں کا لباس پہنے، صاحب کے کھانے میں سے کھانا کھائے، گرمیوں سردیوں اس کے ساتھ اچھے اچھے مقامات کی سیر کرے اور روزی کمانے کے لئے ایسے کام منتخب کر سکے، جو تفریح اور دل لگی سے قریب تر ہوں۔ مگر اس کے پاس کچھ خاص اسباب اور کچھ منفی محرکات بھی تھے، جن کے باعث وہ اس پیشے کو پسند کرتا تھا۔۔
وہ اس روز سے اس کی تمنا رکھتا تھا، جب اس نے ایک بڑے آدمی کے ڈرائیور الغر کو تھانیدار کی نوخیز ملازمہ نبویہ کو راستے میں روکتے اور جرأت و اعتماد کے ساتھ اس سے اظہارِ عشق کرتے دیکھا تھا۔ بلکہ ایک بار تو اس نے اسے خوشی سے ہاتھ پر ہاتھ رگڑتے ہوئے لڑکی سے یہ کہتے بھی سنا کہ ’’بہت جلد میں انگوٹھی لے کر آ رہا ہوں‘‘۔ اس نے دیکھا لڑکی بڑے ناز سے مسکرائی اور سر پر سے پلو یوں کھسکایا گویا اسے درست کر رہی ہو۔ مگر حقیقت میں وہ چاہتی یہ تھی کہ تیل سے چمکتے ہوئے اپنے سیاہ بالوں کی نمائش کر سکے۔ یہ سب دیکھ کر اس کے دل میں ایک شعلہ سا بھڑک اٹھا اور جذبہ رقابت نے اسے ڈسنا شروع کر دیا اور لڑکی کی سیاہ آنکھوں نے اسے غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا۔
وہ دور دور سے اس کا پیچھا کرتا، آتے جاتے اس کا راستہ کاٹتا اور کسی موڑ پر اسے تنہا پا کر الغرکا جملہ اس کے سامنے دہراتا: ’’بہت جلد میں انگوٹھی لے کر آ رہا ہوں‘‘ مگر وہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر اور تیوری چڑھا کر حقارت سے کہتی: ’’اپنے لئے کھڑاؤں لے لو تو بہتر ہو‘‘ اس پر وہ اپنے بھدے بھدے پیروں کو دیکھتا، جیسے ان میں اونٹ کے پاؤں ٹھنسے ہوئے ہوں اور اپنے میلے چغے اور چکٹ ٹوپی پر نظر ڈالتا اور سوچتا کہ ’’یہ ہے میری بدنصیبی اور میرے ستارے کے زوال کا سبب‘‘ تب اسے الغر کے پیشے پر رشک آتا اور وہ اس کی آرزو کرتا۔
مگر خیر آرزوؤں نے اسے اپنے پیشے سے دور نہیں کیا۔ چنانچہ اپنے دکھوں میں صرف خوابوں پر قناعت کرتے ہوئے اس نے اپنا دھندا جاری رکھا۔ اس شام اس نے اپنا صندوقچہ اٹھائے، آنے والوں پر نگاہ رکھتے ہوئے ریلوے اسٹیشن زقازیق کا رخ کیا۔ افق پر نظر دوڑائی تو ریل گاڑی دور سے دھویں کے بادل کی طرح آتی دکھائی دی۔
پھر وہ قریب سے قریب تر ہوتی چلی گئی اور اس کے ڈبے الگ الگ نظر آنے لگے۔ اس کی گڑگڑاہٹ میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ پلیٹ فارم پر آ کر رک گئی۔ حجشہ لپک کر کھچا کھچ بھرے ہوئے ڈبوں کی طرف بڑھا تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دروازوں میں مسلح گارڈ تعینات ہے اور اجنبی چہرے تھکی تھکی، سراسیمہ نگاہوں سے کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے ہیں۔ لوگوں کی پوچھ گچھ پر یہ بتایا گیا کہ یہ وہ اطالوی جنگی قیدی ہیں جو بہت بڑی تعداد میں اپنے دشمن کے آگے زیر ہو گئے اور اب انہیں قیدی کیمپوں میں لے جایا جا رہا ہے۔
حجشہ عالم حیرت میں کھڑا ان غبار آلود چہروں پر نظر دوڑاتا رہا۔ پھر اسے اس یقین سے افسردگی ہونے لگی کہ اڑی اڑی رنگ والے، مصیبت و افلاس میں ڈوبے ہوئے یہ چہرے ہرگز اس کے سگرٹوں سے اپنی لت پوری کرنے کی گنجائش نہ پائیں گے۔ اس نے دیکھا کہ وہ حرص و طلب کے عالم میں اس کے صندوقچے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں نگلے چلے جا رہے ہیں۔ اس نے ان پر ناخوشی اور حقارت کی نگاہ ڈالی اور ارادہ کیا کہ پیٹھ پھیر کر واپس چلا جائے مگر اس نے فرنگی لہجے میں ایک آواز سنی، جو عربی میں اس سے کہہ رہی تھی: ’’سگریٹ‘‘
اس نے تعجب اور شک کی نگاہ اس پر ڈالی اور پھر انگشت شہادت کو انگوٹھے سے رگڑا یعنی ’’پیسے نکالو‘‘
سپاہی بات سمجھ گیا اور سر ہلایا۔ وہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا اور اپنے فاصلے پر رک گیا کہ جہاں سے سپاہی کا ہاتھ اس تک نہ پہنچ سکے۔ سپاہی نے بڑے اطمینان سے اپنا کوٹ اتارا اور اسے لہراتے ہوئے اس سے کہا: ’’یہ رہے میرے پیسے‘‘
حجشہ حیران ہوا اور پیلے بٹنوں والے خاکستری کوٹ کو حیرت اور حرص کے ساتھ خوب نظر جما کر جانچا۔ اس کا دل دھڑک اٹھا مگر وہ سادہ لوح یا بدھو نہیں تھا چنانچہ اس نے اپنے دلی جذبات پوشیدہ رکھے مبادا اطالوی کی طمع کا شکار ہو جائے۔ اس نے ظاہری سکون برقرار رکھتے ہوئے سگرٹ کی ڈبیا دکھائی اور کوٹ لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
سپاہی نے تیوری چڑھائی اور چلا کر کہا: ’’کوٹ کے بدلے صرف ایک ڈبیا؟ دس تو دو۔‘‘
حجشہ سٹپٹا کر پیچھے کو ہٹا۔ اس کی خواہش پست ہو گئی اور قریب تھا کہ وہ کوئی اور راستہ لے کہ سپاہی نے چیخ کر کہا ’’کچھ مناسب تعداد تو دو۔۔۔ نو۔۔۔ یا آٹھ‘‘
اس پر اس نے سختی سے سر ہلا دیا۔ سپاہی نے کہا: ’’چلو سات سہی‘‘ مگر اس نے پہلے کی طرح سر ہلایا اور یہ ظاہر کیا کہ وہ چلنا چاہتا ہے۔ سپاہی چھ تک اور پھر پانچ تک آ گیا۔ اس پر حجشہ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور پیچھے ہٹ کر بنچ پر بیٹھ گیا۔ دیوانے سپاہی نے اسے پکار کر کہا:
’’آؤ تو سہی، مجھے چار منظور ہیں‘‘
اس نے کوئی توجہ نہ دی اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اسے کوئی دلچسپی نہیں، ایک سگریٹ سلگایا اور اطمینان سے مزے لے لے کر کش لگانے لگا۔ سپاہی غصے سے پھٹ پڑا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا سگرٹوں کے حصول کے علاوہ زندگی میں اس کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا۔ چنانچہ وہ تین اور پھر دو تک اتر آیا۔ حجشہ اپنے بھڑکتے جذبات اور دکھتی خواہش پر قابو پاتے ہوئے بیٹھا رہا۔ جب سپاہی دو تک آ گیا تو غیر ارادی طور پر اس کی طرف سے ایک جنبش کا صدور ہوا، جسے سپاہی نے دیکھ لیا اور ہاتھ بڑھا کر کوٹ دکھاتے ہوئے کہا ’’۔۔۔۔لاؤنا!‘‘
اب اسے اٹھنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ وہ گاڑی کے قریب آیا۔ کوٹ لے لیا، دو ڈبیاں سپاہی کو دے دیں اور خوشی اور اطمینان کی نگاہ سے کوٹ کا بغور جائزہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے ہونٹوں پر فتح مندی کی مسکراہٹ لو دے رہی تھی۔ اس نے صندوقچہ بنچ پر رکھ کر کوٹ پہنا اور بٹن لگا لئے۔ وہ خاصا ڈھیلا معلوم ہوا مگر اس نے کچھ پروا نہ کی اور خوشی اور فخر کے احساس سے پھولا نہ سمایا۔ صندوقچہ پھر سے اٹھا کر اس نے عالمِ سُرور میں اترا اترا کر پلیٹ فارم کے چکر لگانے شروع کئے۔
اس کی نگاہوں میں نبویہ کی صورت پھرنے لگی، اپنی چادر اوڑھے ہوئے۔۔ وہ زیرِ لب بڑبڑایا: ’’اب وہ مجھے دیکھے تو سہی! ہاں آج کے بعد وہ مجھ سے بے اعتنائی نہ کر سکے گی اور حقارت سے منہ موڑ لینا اس کے لئے ممکن نہ رہے گا۔ الغر کے پاس مجھ پر برتری جتانے کے لئے اب کچھ نہ ہوگا۔۔۔‘‘
مگر اسے یاد آیا کہ الغر، صرف کوٹ نہیں، مکمل سوٹ پہنتا ہے۔ سو پتلون کا کیا انتظام ہو؟ وہ دیر تک سوچتا رہا اور قیدیوں کے گاڑی کی کھڑکیوں سے جھانکتے سروں پر ایک معنی خیز نظر دوڑائی۔
خواہش نے اس کے دل میں پھر چٹکی لی اور اس کی طبیعت پُرسکون ہوتے ہوئے پھر اضطراب کا شکار ہو گئی۔ وہ گاڑی کی طرف بڑھا اور دل مضبوط کر کے آواز لگائی: ’’سگرٹ۔۔ سگرٹ۔۔ ایک ڈبیا پتلون کے بدلے۔۔ جس کے پاس پیسے نہ ہوں، پتلون کے بدلے ڈبیا‘‘
اس نے دوبارہ سہ بارہ ہانک لگائی۔ پھر اسے اندیشہ ہوا کہ شاید اس کا مطلب ان کی سمجھ میں نہ آئے۔ چنانچہ اس نے سگرٹ کی ڈبیا ہلاتے ہوئے کوٹ کی طرف اشارہ کرنا شروع کیا، جو وہ پہنے ہوئے تھا۔ اس اشارے کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ چنانچہ ایک قیدی جھٹ اٹھا اور اپنا کوٹ اتارنے لگا۔ حجشہ نے لپک کر اسے توقف کرنے کو کہا اور پھر اس کی پتلون کی طرف اشارہ کیا کہ اس کو یہ مطلوب ہے۔ قیدی نے بے پروائی کے انداز میں کندھے اچکائے اور پتلون اتار دی۔
اس طرح تبادلہ مکمل ہو گیا۔
حجشہ نے پتلون کو مضبوطی سے گرفت میں لے لیا اور خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ پلٹ کر اسی پہلی جگہ پر آیا اور پتلون پہننے لگا۔ اس میں ایک منٹ سے بھی کم لگا اور وہ مکمل اطالوی سپاہی بن گیا۔ بھلا اب کیا کسر رہ گئی تھی۔ مگر افسوس! یہ قیدی سروں پر ٹوپیاں نہیں پہنتے مگر پاؤں میں بوٹ ضرور پہنتے ہیں۔ چنانچہ الغر کی برابری کرنے کے لئے جو اس کے لئے سوہان روح بن گیا تھا۔۔۔ بوٹ کے بغیر گزارہ نہ تھا۔ اس نے صندوقچہ اٹھایا اور لپک کر، صدا لگاتے ہوئے گاڑی کی طرف آیا ”سگریٹ۔۔ بوٹ کے بدلے ڈبیا۔۔ بوٹ کے بدلے ڈبیا‘‘
اس نے بات سمجھانے کے لئے، پہلے کی طرح پھر اشارے سے کام لیا لیکن اس سے پہلے کہ نیا گاہک ہاتھ آ سکتا، گاڑی نے روانگی کی سیٹی بجا دی، جس سے محافظ دستے کے تمام سپاہیوں میں چوکسی کی لہر دوڑ گئی۔
دھویں کے بادل ریلوے اسٹیشن کے اطراف و جوانب پر چھائے ہوئے تھے۔ رات کا پرندہ فضا میں منڈلا رہا تھا۔ حجشہ دل میں کسک اور آنکھوں میں حسرت اور جھنجھلاہٹ لئے کھڑا تھا۔ جب گاڑی حرکت میں آ گئی تو ایک اگلے ڈبے میں سوار محافظ کی نگاہ اس پر پڑی۔ اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے اور اس نے پہلے انگریزی اور پھر اطالوی میں چیخ کر کہا ’’جلدی کر۔۔ سوار ہو جا۔۔ سوار ہوجا۔۔ او قیدی!‘‘
اس کی بات حجشہ کی سمجھ میں نہ آئی۔ اس نے دل ہلکا کرنے کے لئے تمسخر کے انداز میں اس کی حرکات و سکنات کی نقل اتارنی شروع کر دی۔ اسے اطمینان تھا کہ وہ اس کی دسترس سے دور ہے۔ محافظ ایک بار پھر چلایا جب کہ گاڑی رفتہ رفتہ دور ہوتی جا رہی تھی۔
’’سوار ہو جا۔۔ میں تجھے وارنگ دیتا ہوں۔۔ سوار ہو جا‘‘
حجشہ نے حقارت سے منہ چڑایا اور اس کی طرف سے پیٹھ پھیر کر چلنے کا ارادہ کیا۔ محافظ نے دھمکی کے انداز میں بائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچی اور بے خبر لڑکے کی طرف بندوق تان لی اور گولی چلا دی۔۔ گولی کی سنسناتی گونج سے کان بند ہو گئے اور پھر درد اور خوف کی ایک چیخ سنائی دی۔۔ حجشہ کا جسم وہیں کا وہیں اکڑ کر رہ گیا۔ صندوقچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا۔ سگرٹ اور ماچس کی ڈبیاں بکھر گئیں۔ پھر وہ منہ کے بل گر کر ٹھنڈا ہو گیا۔۔