سویلینز کے خلاف فوجی قوانین کے تحت ٹرائل۔۔ آئین کیا کہتا ہے؟

ویب ڈیسک

پیر کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی

کور کمانڈر کی اسپیشل کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق 9 مئی کے احتجاج میں جن مشتعل مظاہرین نے عسکری تنصیبات پر حملے کیے اور ان کو نقصان پہنچایا، ان پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس طرح کے مقدمات کی منظوری پنجاب حکومت نے بھی دی ہے

کل کی اشاعت میں روزنامہ جنگ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے بتایا ہے کہ جن عناصر نے جناح ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو راولپنڈی اور دوسری حساس سرکاری فوجی املاک کو جزوی یا کلی طور پر تباہ کیا ہے، ان کے خلاف فوری سماعت کی فوجی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان ملٹری کورٹس کا سربراہ کم سے کم کرنل، بریگیڈئیر یا زیادہ سے زیادہ میجر جنرل کے عہدے کا فوجی افسر ہوگا

روزنامہ جنگ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ احتجاج کے دوران ریٹائرڈ فوجی افسر اور اہلکار بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں

پاکستان کے قانونی اور دیگر حلقوں میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ عام شہری پر آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ اگر ایسا کوئی مقدمہ چلایا جاتا ہے تو کیا یہ انصاف کے بین الاقوامی تقاضوں پر پورا اترتا ہے

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سویلینز کے لیے پہلے ہی کئی قوانین ہیں اور کسی بہت بڑے الزام کی صورت میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں بھی موجود ہیں۔ لیکن فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا خدشہ ہے

قانونی ماہرین کی اس حوالے سے آراء مختلف ہیں۔ کچھ قانونی ماہرین اسے آئینی قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں فوجی عدالتیں اور فوجی قوانین کے تحت بین الاقوامی انصاف کے اصولوں کے منافی ہے اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”ہمارے ہاں 1973ع کے آئین سے لوگوں کو ایک رومانوی انسیت ہے لیکن درحقیقت 1973ع کے قوانین میں بہت ساری متضاد چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر آرٹیکل 19 آپ کو اظہار رائے اور احتجاج وغیرہ کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ احتجاج قانون کی حدود میں ہوتا ہے اور جب آپ ان حدود کو پڑھیں گے تو وہ حدود بین الاقوامی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ تو اگر آپ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا فوجی قوانین کے تحت سویلین کے اوپر مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، تو پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت اس کا جواب ہاں میں ہے، لیکن اگر آپ یہ پوچھتے ہیں کیا ایسا ہونا چاہیے تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے خلاف ہے‘‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان شاہ خاور کا کہنا ہے ”پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سویلین پر فوجی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت فوجی افسران کو فوجی عدالتیں ٹرائل کر سکتی ہیں۔ تاہم اس میں سویلین کا بھی ٹرائل کیا جا سکتا ہے، جو کسی فوجی افسر کو بغاوت پر اکسائیں یا سرکاری رازوں کی خلاف ورزی کریں‘‘

شاہ خاور کے ”مطابق آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے بعد اس میں یہ شق بھی شامل کر لی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص سرکاری عمارتوں یا ملٹری تنصیبات کو نقصان پہنچائے، تو اس پر بھی فوجی قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے اور اس کو بھی سزا دی جا سکتی ہے۔‘‘

اگر سویلین کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر طریقہ کار کیا ہوگا۔ اس حوالے سے شاہ خاور کہتے ہیں۔ ”فیلڈ کورٹ مارشل ایسی عدالتوں کی صدارت کرے گا اور اس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل نہیں کی جاسکے گی بلکہ اگر کسی سویلین کو ان مقدمات میں سزا ہوتی ہے تو وہ اپیل بھی آرمی چیف سے کرے گا، ان مقدمات میں ملوث سویلین کو کوارٹرز گاررڈ کی حراست میں رکھا جائے گا اور وہیں اس سے تفتیش کی جائے گی۔ اس کے بعد ایک سمری آف شواہد جمع کی جائے گی اور اقبالی بیان کو بھی ثبوت کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ ایسے سویلین کو وکیل صفائی بھی آرمی کی ہی طرف سے دیا جائے گا گو کہ وہ کسی پرائیویٹ وکیل کو بھی کر سکتا ہے‘‘

شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سزائے موت کی صورت میں مجرم صدرپاکستان سے رحم کی اپیل کر سکتا ہے

شاہ خاور کہتے ہیں ”ہائی کورٹ تین معاملات میں ممکنہ طور پر مداخلت کر سکتی ہے۔ جس میں ایک یہ ہے کہ متعلقہ شخص کو عدالت نے اگر سزا دی ہے اور وہ معاملہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا تو پھر ہائی کورٹ مداخلت کر سکتی ہے اور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ جرم سرزد ہی نہ ہوا ہو اور تیسرا کہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہو‘‘

آرمی ایکٹ ہے کیا اور کس پر لاگو ہوتا ہے؟

پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 کے تحت اس قانون کا اطلاق صرف فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہوتا ہے۔ لیکن بعض مواقع پر اس کا اطلاق سویلینز پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان آرمی کے جج ایڈووکیٹ جنرل جسے عرف عام میں ’جیگ برانچ‘ کہا جاتا ہے، وہ اس صورتِ حال میں ٹرائل کرتے ہیں

اس قانون کے تحت پاکستانی فوج کے خلاف جنگ کرنے والوں، سول و فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد، بیرون ملک اور اندرون ملک سے دہشت کا ماحول پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے

سینئر وکیل کرنل(ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کے مطابق ٹرائل ہو سکتا ہے اور ٹرائل کے بعد ہونے والی سزاؤں پر ان کے خلاف آرمی کورٹ آف اپیل میں جانا ہوگا

اُنہوں نے کہا کہ کراچی میں جب ملٹری کورٹس بنیں تھیں تو کئی افراد کا ٹرائل ہوا تھا۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں پچیس سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوا اور ان میں سے تین کو سزائے موت بھی دی گئی

اُن کے بقول جن کیسز میں موت کی سزا دی گئی، وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق تھے۔ ان کیسز میں ہائی کورٹس میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جو ابھی بھی چل رہی ہیں

کرنل (ر) انعام کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت یہ ٹرائل اوپن ہوگا یا انہیں خفیہ رکھا جائے گا، اس بارے میں ایس او پی جاری کیے جائیں گے لیکن اب تک صرف پاکستان فوج کا بیان سامنے آیا ہے

اُن کے بقول آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق ہر شخص کو فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے اور اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس کو منصفانہ ٹرائل نہیں مل رہا تو وہ کسی بھی بڑی عدالت میں درخواست دائر کرسکتا ہے

کیا عمران خان کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے؟

کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق اس کیس میں عمران خان کو بھی شریکِ جرم سمجھا جاسکتا ہے اور ان کا ٹرائل بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس میں جرم کی حوصلہ افزائی جیسے جرائم شامل ہیں

اُن کے بقول سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد اگر عمران خان ان تمام واقعات کی مذمت کرتے اور ان سے لاتعلقی اختیار کرتے تو وہ ان الزامات سے بچ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ان تمام باتوں سے انکار کیا ہے۔ لہٰذا اس صورتِ حال میں ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جا سکتی ہے

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی کے داماد علی افضل ساہی کے خلاف بھی فیصل آباد میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے کا الزام ہے اور ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے، لہٰذا ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے

انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ایمان زینب مزاری کہتی ہیں کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2ون ڈی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سویلین افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے جو ضروریات ہیں، وہ بہت محدود ہیں

اُن کا کہنا ہے کہ جب کسی شخص کے خلاف کیس ہو اور انہیں چارج کیا جائے تو آرمی ایکٹ رولز 19 اور 20 کے مطابق انہیں چارج کیا جائے گا

ایمان مزاری نے کہا ”میں سویلین کے خلاف اس ایکٹ کے استعمال کی مخالف ہوں کیوں کہ آرمی ایکٹ میں بنائے گئے تمام تر قوانین فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں چار قسم کے کورٹ مارشل کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوتا ہے اور اس کا اطلاق امن کے زمانے میں نہیں ہوتا ۔ جیگ برانچ کے ماتحت فوجی عدالتیں ان کا ٹرائل کریں گی اور انہیں سزائیں دے سکیں گی

ان کیسز میں سزا کے بعد سویلین عدالتوں میں اپیل کے حق کے حوالے سے ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ایک بہت بڑا ایشو یہ ہے کہ کورٹ مارشل کے آرڈر کو چیلنج کرنے کا دائرہ کار بہت محدود ہے، اس میں اپیل نہیں بلکہ ایک طرح سے ریویو ہوگا

ایمان مزاری کا کہنا تھا ”سویلین عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں سے کورٹ مارشل کرنے سے لوگوں کا پاکستان کے عدالتی نظام سے اعتبار ختم ہوگا اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو میرے خیال میں آئین کو ختم کر دینا چاہیے اور پھر جیسے مرضی سلوک کیا جائے۔“

انسانی حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن زہرہ یوسف کہتی ہیں ”ہم سویلین افراد کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے مطابق کرنے کے مخالف ہیں“

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی ایسے واقعات میں ٹرائل کرنے کے لیے سویلین عدالتیں موجود ہیں اور اگر کسی شخص کے خلاف سنگین الزامات ہوں تو اس کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں

اُن کے بقول ”ہم سمجھتے ہیں کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہونے سے انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا خدشہ ہے۔“

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ لاگو کرنے سے پاکستان کے عام شہریوں میں تشویش پیدا ہوگی اور ہماری نظر میں اس طرح کے اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے

اُنہوں نے کہا کہ ہم آرمی اور سویلین تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں مگر سویلین عدالتوں سے انصاف حاصل ہو سکتا ہے اور ان حملوں کے ذمے داران کو سزا دلوائی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close