بعض لوگ اس اُمید پر قائم ہیں کہ نیا عہدِ ہزارسالہ زندگی کو طویل کرنے کی خاطر انسان کی کوششوں میں ایک غیرمتوقع پیشرفت کرے گا۔ ایسی ہی ایک پیش رفت حال ہی میں سائنسدانوں کے ایک دعوے کے بعد سامنے آئی ہے کہ آئندہ نسلیں ایک سو اکتالیس سال کی عمر تک زندہ رہ سکتی ہیں
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق جارجیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ممکن ہے کہ خواتین ایک سو تیس سال اور مرد ایک سو اکتالیس سال سے زائد عمر تک زندہ رہ سکتے ہیں
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ حالیہ دہائیوں کے دوران انسانی عمر میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ کووڈ-19 ہو سکتی ہے
جارجیا یونیورسٹی کے ماہر تعلیم ڈاکٹر ڈیوڈ میکارتھی نے اُنیس ممالک میں معمر افراد کی شرح اموات کا جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ عمر کے لحاظ سے شرحِ اموات میں اضافہ مختلف سالوں میں پیدا ہونے والے افراد کے درمیان مختلف ہوتا ہے
پلس ون نامی جریدے میں شائع تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میڈیکل سائنس میں ترقی اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی وسیع دستیابی کی وجہ سے لوگوں کے لیے طویل عمر تک زندہ رہنا ممکن ہو سکتا ہے
ڈاکٹر ڈیوڈ نے کہا کہ 1910 اور 1950 کے درمیان پیدا ہونے والوں میں موت کی شرح میں غیر معمولی کمی آ سکتی ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سو پندرہ سال کی عمر کے شخص کے لیے اگلے سال زندہ رہنے کے امکانات 50 فیصد ہوتے ہیں
تاہم ڈاکٹر ڈیوڈ نے کہا کہ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں، ممکن ہے کہ زندہ رہنے کی عمر میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور کمی بھی آ سکتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کے حوالے سے تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہو سکتی ہیں، اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حقیقت ہے
اگرچہ کئی لوگ سو سال کی عمر تک پہنچنے پر خوشی مناتے ہیں، لیکن دنیا کی سب سے معمر ترین خاتون فرانس سے تعلق رکھنے والی جین لوئیس کالمنٹ تھیں جو ایک سو بائیس سال اور 164 دن تک زندہ رہیں
وہ 1875ع میں پیدا ہوئیں اور 1997ع کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک سو اُنیس سال کی عمر تک مٹھائیاں شوق سے کھایا کرتی تھیں
یہاں تک کہ انہوں نے 1888ع میں نامور مصور ونسنٹ وان گوگ سے بھی ملاقات کی تھی، جنہوں نے ’تاروں بھری رات‘ جیسی شاہکار پینٹنگ تخلیق کی تھی۔