انڈیا کی مشرقی ریاست بہار کے شہر بہار شریف میں تقریباً چار صدیوں پرانی شاہی مسجد میں توڑ پھوڑ کو عینی شاہدین نے ’موت کو قریب سے دیکھنے کا منظر‘ قرار دیا ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں نے اپنے مذہبی جلوس کے موقع پر مسجد پر دھاوا بول دیا۔ حملے کے بعد مسجد میں آگ لگی ہوئی تھی جبکہ قریبی عمارت میں ایک لڑکی سمیت تین بچے پھنسے ہوئے تھے، جنہیں لوگوں نے چھت سے اندر کود کر بچایا ورنہ وہ دھوئیں سے دم گھٹنے سے مر جاتے
اس دن ماہ رمضان کے افطار میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا اور مسجد کے امام محمد شہاب الدین، بارہویں کلاس کے طالب علم نایاب کامران اور لگ بھگ بیس دیگر لوگ مسجد کے اندر موجود تھے
کچھ دیر قبل ہندوؤں کے ’رام نومی‘ کے تہوار کے سلسلے میں شبھ یاترا کا جلوس وہاں سے گزرا تھا، جس میں موجود کئی لوگوں نے تلواریں لہرائیں اور نعرے لگائے۔ یہ منظر دیکھ کر سکیورٹی پر مامور پولیس والوں نے شاہی مسجد کا مرکزی دروازہ بند کر دیا
امام محمد شہاب الدین بتاتے ہیں ”جب مظاہرین مرکزی دروازے کے تالے توڑ کر اندر آئے اور مینار پر چڑھ گئے تو اس وقت صحن میں افطار کا سامان پڑا ہوا تھا۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ کے بعد (ہندوؤں کا مذہبی) زعفرانی پرچم لہرا دیا۔ کچھ مشتعل مظاہرین نے قتل کی دھمکیاں دیں“
یہ ایک تاریخی مسجد ہے، جسے سترہویں صدی میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے گورنر سیف خان نے تعمیر کروایا تھا۔ پانچ گنبدوں والی اس خوبصورت مسجد کا ذکر فنِ پر لکھی کتب میں بھی ہوتا ہے
قریب واقع مدرسہ عزیزیہ کی جانب سے یہاں مستحق افراد کے لیے افطار کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس روز بھی یہاں کئی لوگ افطار کے لیے جمع ہوئے تھے
مشتعل مظاہرین زبردستی مسجد کی حدود میں داخل ہوئے۔ انہوں نے وہاں موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگانا شروع کر دیا۔ انہوں نے باہر سے پتھراؤ کر کے مسجد کے شیشے توڑ دیے
پھر انہوں نے مسجد کے احاطے میں اندرونی دروازے کو توڑنے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہے
امام شہاب الدین یہیں قریب دکانوں اور گودام سے اوپر اپنے خاندان کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اس عمارت کو بھی آگ لگا دی گئی۔ پیٹرول بم پھینک کر عمارت میں آگ لگائی گئی اور اس کی وجہ سے کمروں سے دھواں ابھرتا ہوا دیکھا گیا
امام شہاب الدین نے روتے ہوئے بتایا ”اوپر کی منزل پر میرا ایک سال کا بیٹا اور دو سال کی بیٹی چیختے رہے۔۔ شاید ان کا دم گُھٹ رہا تھا۔ اگر تین لوگ چھت توڑنے کے بعد اندر داخل نہ ہوتے تو یہ سب وہیں دم گُھٹنے سے مر جاتے“
بارہویں جماعت کے نایاب کامران بھی مسجد میں موجود تھے۔ وہ ہر روز کلاس کے بعد یہاں افطار کے لیے آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ”یہ منظر مجھے خوفزدہ کر رہا تھا۔ ہم نے موت کو قریب سے دیکھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم اب محض دس منٹ کے مہمان ہی ہیں۔۔ لوگ گالم گلوچ کرتے ہوئے اندر آئے اور پانی لانے والی گاڑی کو آگ لگا دی۔ افطار کے وقت لوگوں کے لیے پانی پینا بھی مشکل ہو گیا تھا“
مسجد کے باہر مشتعل مظاہرین نے وہاں نایاب کامران، علاقے میں واحد مسلم خاندان کے فرد، کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ مگر کچھ ہندو ایسے بھی تھے، جو ان کوششوں کے خلاف دیوار بن گئے
نایاب کہتے ہیں ”کچھ لوگوں نے اس روز انسانیت کی مثال قائم کی“
تاہم لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس انتظامیہ بھی واقعے کی ذمہ دار ہے
امام صاحب کا کہنا تھا کہ یہ حملہ رمضان کے ماہ میں جمعے کے روز ہوا جبکہ شبھ یاترا کی تیاریاں کئی ہفتوں سے جاری تھیں۔ کہیں نہ کہیں پولیس انتظامیہ نے صورتحال سمجھنے میں غلطی کی
ان کے مطابق مسجد کی سکیورٹی کے لیے شبھ یاترا کے راستے پر چار سے پانچ پولیس والے لاٹھیوں کے ساتھ تعینات تھے مگر جب مظاہرین داخل ہوئے تو وہ انہیں روکنے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے
عینی شاہدین کے مطابق تشدد مزید دو گھنٹے تک جاری رہا۔ وارڈ کونسلر دلیپ کمار یادیو کے پہنچنے کے بعد صورتحال معمول پر آئی
پٹنہ سے اضافی نفری کی آمد کے بعد مسجد میں پھنسے لوگوں کو پولیس کی نگرانی میں باہر لایا گیا اور مسلم اکثریتی علاقے کانتاپورہ لے جایا گیا
امام صاحب کے مطابق جب وہ سحری اور نماز فجر کے لیے مسجد پہنچے تو حکام نے جنریٹر کی مدد سے بڑی لائٹ گیٹ پر لگائی ہوئی تھی، نذر آتش کی گئی گاڑیاں ہٹا دی گئی تھیں اور مقام کی صفائی کر دی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں ”ایک طرح سے انتظامیہ نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا“
تاہم انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ ایس پی اشوک مشرا کے بقول ”ہم نے لوگوں کو بچایا اور مسجد کو نقصان پہنچانے کی کوشش ناکام بنائی۔ آپ نے مسجد دیکھی ہوگی، وہاں سب معمول پر ہے۔“