گوادر پاکستان کو کیسے ملا؟

سجاد اظہر

12 گست 1958 کو برٹش آرکائیوز میں ایک خط آتا ہے جس پر ’خفیہ‘ کی مہر ثبت ہے۔ یہ خط گوادر کی پاکستان کو حوالگی سے متعلق ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ ’لندن میں جاری حالیہ ملاقاتوں کے بعد مسقط کے سلطان گوادر کو پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں تاہم انہوں نے کہا ہے کہ انہیں گوادر سے انخلا کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا۔

’وزیراعظم پاکستان نے ہمیں گوادر پر ایک قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) بھی دی ہے، جو کہ ساتھ منسلک ہے۔ اگرچہ اس قرطاس جس میں گوادر کی 1947 تک تاریخ بیان کی گئی ہے، میں دیے گئے مؤقف سے ہم متفق نہیں ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ قرطاس چھپ گئی تو اس سے سلطان ناراض ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ یہ اس وقت تک شائع نہ کی جائے جب تک کہ سلطان گوادر کو پاکستان کے حوالے نہیں کر دیتا۔‘

فیروز خان نون کی دھمکی جو کام کر گئی

فیروز خان نون جو کہ پاکستان کے ساتویں وزیراعظم بنے۔ ان کا عرصہ اقتدار ایک سال سے بھی کم ہے مگر گوادر کی سلطان آف مسقط سے خریداری ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس حوالے سے وہ اپنی آپ بیتی ’چشم دید‘ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے دور کی تاریخ گوادر کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہے گی۔ 2400 مربع میل کا یہ علاقہ پاکستان کو واپس مل گیا لیکن اس کارنامے پر نہ تو جشن منایا گیا اور نہ اس کی تشہیر کی گئی۔ میں نے برطانیہ اور اپنے صدر سکندر مرزا سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس موقعے پر جشن وغیرہ نہیں منایا جائے گا کیونکہ اس طرح سلطان مسقط کے جذبات مجروح ہو نے کا اندیشہ ہے۔

گوادر کے حوالے سے پاکستان کی قرطاس ابیض جس کا ذکر برطانیہ کے دولت مشترکہ کے آفس نے کیا تھا اور پاکستان سے درخواست کی تھی کہ اسے اس وقت تک شائع نہ کیا جائے جب تک کہ سلطان گوادر کو پاکستان کے حوالے نہیں کر دیتا۔

یہ قرطاس ابیض ایم اکرام اللہ نے تیار کی تھی، جو لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ فیروز خان نون نے بعد میں اسی قرطاس ابیض کو اپنی داستان حیات میں رقم کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کے جنوبی ساحل پر 45 میل مشرق میں جہاں ایران کی سرحدیں بحیرہ عرب سے ملتی ہیں گوادر کی بندرگاہ واقع ہے۔ مسقط کے ایک شہزادے نے 1781 میں قلات کے حکمران کے ہاں پناہ لی تھی۔ قلات کا حکمران اس وقت ایک خود مختار بادشاہ تھا، اس بادشاہ نے گوادر کی سالانہ آمدنی جو 84 تنکہ (شاید 84 روپیہ) ہوتی تھی، شہزادے کی گزر اوقات کے لیے اس کے حوالے کر دی۔ بعد میں یہ شہزادہ جب مسقط کا بادشاہ ہوا تو اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور اسے قلات کے حوالے نہیں کیا، حالانکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کا محتاج نہیں تھا۔

’برطانیہ نے 1839 میں قلات فتح کیا اور یہاں کے حاکم بن بیٹھے۔ قلات کے حکمران نے بعد ازاں 1861 میں قلات کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ نے قلات اور مسقط کے درمیان مداخلت کی تاہم اس نے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنے سے احتراز کیا۔ 1947 میں جب پاکستان قائم ہوا تو حکومت پاکستان نے ایک بار پھر یہ مسئلہ اٹھایا اور 1949 میں مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے۔

’اس کے بعد اس معاملے کو وہیں چھوڑ دیا گیا لیکن جب میں 1956 میں وزیر خارجہ مقرر ہو اتو میں نے گوادر سے متعلق کاغذات طلب کیے اور اس قضیے کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد حکومت برطانیہ کے توسط سے مذاکرات شروع کر دیے۔ برطانیہ کے سامنے ایک مشکل کام آن پڑا تھا۔ ایک طرف دولت مشترکہ کا ایک رکن تھا، دوسری طرف یار وفادار سلطان مسقط، جس کے ساتھ ڈیڑھ سو سال سے گہرے مراسم تھے۔

’ان دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔میری توقعات کا پارہ کبھی اوپر چڑھتا تھا اور کبھی نیچے گر جاتا تھا۔ گفت و شنید بدستور جاری رہی۔ یہاں تک کہ میں نے 1957 میں وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ میں نے اس قضیے کی تاریخ میں پہلی بار یہ قانونی نکتہ اٹھایا تھا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے، وہ ریاست کا ایک علاقہ ہے جسے ایک شخص کے لیے تفویض کیا گیا تھا کہ وہ ریاست کے واجب الادا ٹیکس وصول کرے اور اسے اپنی گزر اوقات کے لیے تصرف میں لائے یا اس رقم کو اپنی تنخواہ قیاس کرے۔

’اس طرح کی امداد سے اقتدارِ اعلیٰ کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے پاکستان میں وہ ساری جاگیریں منسوخ کر دی ہیں جو بہت سے لوگوں کو برطانیہ سے اپنی خدمات کے صلے میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی گئی تھیں۔ چونکہ گوادر بھی ایک جاگیر تھی لہٰذا اس کی تنسیخ بھی کی جا سکتی تھی اور اس علاقے پر قبضہ بھی ممکن تھا۔ میں نے اس دلیل کا تذکرہ برطانیہ سے دھمکی کے طور پر نہیں کیا تاہم یہ قانونی نکتہ تھا جو عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں ہمارے کام آ سکتا تھا۔

’برطانوی حکومت بڑے مخمصے میں پھنس گئی۔ اگر پاکستان کی فوج اس پر قبضہ کر لیتی ہے تو کیا برطانوی حکومت دولت مشترکہ کے رکن اس ملک پر بمباری یا فوج کشی کر دیتی، جس کی علامتی سربراہ خود ملکہ الزبتھ ہیں؟ پاکستان کا دولت مشترکہ میں رہنا اس کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا۔ مسٹر میکمیلن، مسٹر سلون لائیڈ اور وزیر امور دولت مشترکہ لارڈ ہوم نے اس سارے معاملے میں جو منصفانہ مؤقف اختیار کیا، اس کا مجھے تہہ دل سے اعتراف ہے۔

’انہوں نے کسی بھی فریق پر دباؤ نہیں ڈالا، چنانچہ گوادر کی منتقلی نہایت خوش اسلوبی سے ہوئی۔گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھوں میں تھا، مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن طاقت کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتا ہے۔‘

گوادر کتنے میں خریدا گیا؟

29 اگست 1958 کو ایک اور خط مسقط کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے برٹش آرکائیوز میں موجود ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دو ستمبر تک 27 لاکھ پاؤنڈ کی رقم واشنگٹن میں برطانوی سفارت خانے کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ جیسے ہی رقم ملے گی سلطان اس کے بعد گوادر کو پاکستان کی حوالگی شروع کر دیں گے۔

رقم ملنے کے بعد آٹھ ستمبر کو سلطان نے گوادر پاکستان کے حوالے کر دیا۔ اس حوالے سے دو طرفہ معاہدہ آٹھ دسمبر کو ہوا۔ یہ رقم آج کے حوالے سے تقریباً تین کروڑ پاؤنڈ بنتی ہے اور آج کی کرنسی کے تبادلے کی شرح دیکھی جائے تو یہ 11 ارب 10 کروڑ روپے بنتی ہے۔

فیروز خان نون نے کامیاب سفارت کاری کے ذریعے گوادر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کروایا۔ آج گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے بعد اس کی مالیت 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے جو پاکستان کی معاشی طاقت کے ایک ستون کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ اگر فیروز خان نون یہ کام نہ کرتے تو شاید گوادر کا تنازع آج پاکستان کے لیے کشمیر کے تنازعے سے بھی بڑا سر درد بن چکا ہوتا۔

گوادر ایئرپورٹ کا نام فیروز خان نون سے منسوب کرنے کا معاملہ

فیروز خان نون صرف پاکستان کے وزیراعظم ہی نہیں رہے بلکہ ان کا شمار قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ وہ تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما تھے۔

گوادر ایئرپورٹ جو چین کی 246 ملین ڈالر کی امداد سے تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس سال دو اگست کو قومی اسمبلی نے مشترکہ طور پر ایک قرار داد پاس کی کہ گوادر کے نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو فیروز خان نون کے نام سے منسوب کیا جائے جبکہ دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں، جس کی وجہ فیروز خان نون کا پنجابی ہونا ہے۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبد المالک بلوچ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ گوادر ایئرپورٹ کا نام تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے جبکہ فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ گوادر ایئرپورٹ کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں، اگر ایسا کرنا بھی ہے تو یہ قومی اسمبلی کا نہیں بلوچستان اسمبلی کا اختیار ہے۔

دوسری جانب گوادر کے مقامی لوگ اس ایئرپورٹ کو اپنے ایک مقامی ہیرو حمل جیئند کلمتی سے منسوب دیکھنا چاہتے ہیں۔ کلمتی نے پندرہویں صدی میں پرتگالی حملہ آوروں کو گوادر میں پاؤں جمانے کا موقع نہیں دیا تھا، جس کے بعد پرتگالیوں نے گوادر کی بجائے گوا کو اپنا تجارتی مرکز بنا لیا تھا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر کوئی اس مضمون کے جواب میں کچھ لکھنا چاہتا ہے، تو ہم سنگت میگ میں اسے بخوشی شائع کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close