بچپن سے ایک جھوٹ اتنی مرتبہ سنا ہے کہ اس پر یقین سا آ چلا تھا۔ وہ یہ کہ پاکستان میں رات کو کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ زمین زرخیز ہے لوگ ایک دوسرے کے اتنا قریب رہتے ہیں کہ جو دال دلیہ ہو وہ آپس میں بانٹ لیتے ہیں
ایک بزرگ نے ایک دفعہ یہ بھی سمجھایا تھا کہ غریب اور جاہل عوام نے شاید کبھی علامہ اقبال کا نام بھی نہ سنا ہو لیکن خودی کا فلسفہ گھول کر پیا ہوا ہے۔ اس لیے کوئی رات کو بھوکا سوئے گا بھی تو وہ کسی کو بتائے گا نہیں۔ اگلی صبح اٹھ کر پھر رزق کی تلاش میں نکل جائے گا۔ تو یہ ملک ہمارے امرا کی سخاوت پر نہیں چل رہا بلکہ غربا کی انا پر چل رہا ہے
زمین کی زرخیزی خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ دو ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے کر کاشت کرنے والے بھی اپنے آپ کو چوہدری کہتے تھے۔
عورتوں کو ایک بھینس کا دودھ بیچ کر اپنی بچیوں کی شادیاں کرتے دیکھا ہے، جب گندم کی کٹائی کا موسم آتا تھا تو غریب سے غریب گھرانہ بھی سال کے لیے دانہ اکٹھے کر لیتا تھا
سبزیاں اگانے والے بھی پاس سے گزرنے والے کو دو آلو یا ایک شلجم اٹھانے والے کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ دیہاڑی دار کو ساری عمر پیاز مرچ کے ساتھ دو روٹیاں کھاتا بچپن سے دیکھا ہے۔ لیکن اب ان دو روٹیوں کا کال پڑ گیا ہے۔ لوگ پیاز اور مرچ کو بھی بھول گئے ہیں۔۔
اقتصادی امور کے ایک ماہر سے ایک دفعہ پوچھا تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے تو ملک میں صرف ایک کے بعد ایک اقتصادی بحران کا ہی سنا ہے۔ تو اس ملک کی معیشت کا پہیہ کیسے چلتا ہے۔ اس نے بڑے استادوں کی طرح سمجھایا کہ گندم پر، جب گندم کی فصل ہو اور اچھی ہو اور جب اس کی کٹائی کا موسم آتا ہے تو ملک کی زمینی معیشت ایک انگڑائی لے کر آباد ہوتی ہے
کتنے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے، چھوٹے اور بڑے کاشتکار اپنے سال کا خرچہ نکال لیتے ہیں، خود اپنی آنکھوں سے بھی گندم کی کٹائی کا منظر سالہا سال دیکھا ہے۔ پورے کا پورا خاندان بچوں سمیت کٹائی میں لگ جاتا تھا۔
گندم کی کٹائی اور اس کے بعد اس میں سے دانہ نکالنے کی کارروائی میں ایک ایک دانہ کسی کی جھولی میں اکٹھا ہوتا تھا۔ چند ہی ہفتوں میں لوگ کئی مہینوں کی روٹی کا بندوبست کر لیتے تھے۔ گاؤں میں جو روایتی پیشے تھے ان کے کاریگروں کو بھی سال کے دانے پہنچ جاتے تھے۔ اب باقی سارا سال زندگی کی سو پریشانیاں ہوں، روٹی کی پریشانی نہیں رہتی تھی۔
اس طرح کے مناظر دیکھ کر کھاد بیچنے والوں کے وہ اشتہار، جس میں وہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہماری مٹی سونا اگلتی ہے، کوئی زیادہ مبالغہ آمیز نہیں لگتے تھے
خدا نہ کرے کہ کوئی زمانے کا ستایا ہوا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ہماری دھرتی اب سونا اگلنے کے بجائے بھوک اگلنے لگی ہے
معاشی ماہرین کئی مسلمہ توجہیات دیتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ ہے، ہمارے پیٹ بھرے بابوؤں کی منصوبہ بندی میں نالائقی ہے، زرعی زمینوں پر بنتی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، ہمارے کسانوں کی بد بختی ہے کہ وہ جدید زراعت کی طرف نہیں آئے۔۔۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمارے حکمران اشرافیہ اور ان کے ساتھی سیٹھ بھائیوں کے دل بھی بہت کٹھور ہو گئے ہیں
ایک پرانے ڈرائیور بھائی سے ملاقات ہوئی کہنے لگا ”لینڈ کروزر چلاتا ہے لیکن سیٹھ جو حاجی صاحب بھی ہیں انہوں نے اپنے باورچی کو حکم دے رکھا ہے کہ یہ ڈرائیور دو کے بعد تیسری روٹی مانگے تو کہو تندور سے خود اپنی خرید لائے۔ بھوک بھی نہیں مٹتی اور بے عزتی بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر نوکری چھوڑ دوں گا تو ان حالات میں نوکری کون دے گا؟“
ہماری حکمران اشرافیہ نے عوام کو بھوک اور بے عزتی کے ایسے شکنجے میں پھنسایا ہے کہ ہر کوئی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر آٹے کی تلاش میں نکل پڑا ہے
حالیہ سالوں میں پاکستان میں بہت بڑی قدرتی آفات آئی ہیں، زلزلوں، سیلابوں کے بعد سخی حضرات بین الاقوامی ادارے یا درد مند شہری راشن کے ٹرک لے کر پہنچ جاتے تھے۔ ہمارے کچھ فوٹو گرافر بھائی راشن کے ان ٹرکوں پر چڑھ کر ان مجبور لوگوں کی تصویریں کھینچتے تھے، جس میں ہاتھ پھیلائے ہوئے مرد، عورتیں، بوڑھے، بچوں کی آنکھوں کی اداسی تک نظر آتی تھی
ہمارے چند سینئیر صحافی بھائی اس پر سخت اعتراض بھی کرتے تھے کہ یہ لوگوں کی مدد ہو رہی ہے یا ان کی بچی کچی انا کو پامال کیا جا رہا ہے
ہمارا ملک کئی قدرتی آفتیں تو نبھا گیا لیکن اصل قدرتی آفت یہ حکمران اشرافیہ اور اس کے سنگی ساتھی ہیں اور ہم آج تک اس مسلسل قدرتی آفت سے نمٹنے کا طریقہ نہیں ڈھونڈ پائے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)