جب وزیر اعظم نریندر مودی نے جنوبی شہر میسور میں اعلان کیا کہ شیروں کی آبادی پچاس سال قبل شروع ہونے والے ’پروجیکٹ ٹائیگر‘ کے بعد سے تین ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے، تب حکام جشن منا رہے تھے
کچھ ہی فاصلے پر سراپا احتجاج صدیوں سے آباد مقامی قبائل/ آدیواسیوں کی آواز اس جشن میں دب کر رہ گئی ، جن کا کہنا ہے کہ شیروں کے تحفظ کی حکمت عملیوں کا مطلب جنگلات سے متعدد برادریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے
مودی نے اتوار کو اپنی تقریر میں کہا ”ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں فطرت کی حفاظت ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس جنگلی حیات کے تحفظ میں بہت سی منفرد کامیابیاں ہیں۔“
لیکن بدقسمتی سے مقامی لوگ، جنہیں ہندوستان میں آدیواسی کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کی آنکھوں میں جھلکتا یہ سوال آج بھی اپنے جواب کا متلاشی ہے کہ ثقافت کے اس حصے میں ان کی جگہ کہاں ہے؟
آدیواسی کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے منصوبوں نے پچھلی نصف صدی کے دوران ان کی برادری کے افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ کرناٹک میں آدیواسی برادریوں نے پچھلے مہینے مظاہروں کا اہتمام بھی کیا تاکہ اس بات کو اجاگر کیا جا سکے کہ کس طرح ان کے لوگوں کو، جو صدیوں سے جنگلوں میں رہتے ہیں، کو تحفظ کی کوششوں سے دور رکھا گیا ہے
بھارت کے جنوبی شہر میسور میں چیتوں کی نسل کو تحفظ دینے کے لیے مسکن بنائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے نصف صدی قبل ’پروجیکٹ ٹائیگر‘ شروع کیا گیا تھا۔ اب وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس منصوبے کے تحت محفوظ کیے گئے چیتوں کی آبادی کا اعلان کیا ہے
عالمی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نریندر مودی کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب یہاں صدیوں سے رہنے والے انسان نصف صدی کے دوران جنگلی حیات کے تحفظ کے اس منصوبے سے متاثر ہوتے رہے ہیں
یاد رہے کہ پروجیکٹ ٹائیگر 1973ع میں اس وقت شروع کیا گیا تھا، جب چیتوں کی تعداد گننے کے دوران معلوم ہوا کہ بھارت میں چیتوں کی نسل شکار اور تحفظ کے غرض سے مارد یے جانے کی وجہ سے تیزی سے معدوم ہو رہی ہے
ان بے قاعدگیوں سے متعلق قوانین موجود تو تھے، لیکن اس کے باوجود چیتوں کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے محفوظ مسکن بنائے گئے، تاکہ انسان ان کے قدرتی ماحول کو متاثر نہ کر سکیں
کئی مقامی گروہوں کا کہنا ہے کہ محفوظ مسکن مہیا کرنے کا تصور جو کہ امریکہ کے ماحولیات سے متاثر ہے، اس کا مقصد ان متعدد برادریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا، جو ہزاروں سال سے جنگلوں میں آباد تھیں
کئی آدیواسی گروپوں کے ارکان نے نگاراہول آدیواسی فاریسٹ رائٹس اسٹیبلشمنٹ کمیٹی قائم کی تاکہ ان کی آبائی زمینوں سے بے دخلی کے خلاف احتجاج کیا جاسکے اور جنگلات کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے اس پر آواز اٹھائیں
جینو کروبا قبیلے سے تعلق رکھنے والے ستائیس سالہ جے اے شیوو کہتے ہیں ”ٹائیگر پروجیکٹ میں شامل کیے جانے والے جنگلوں میں ’نگارا ہول‘ پہلا جنگل تھا، جسے منصوبے میں شامل کیا گیا تھا اور میرے والدین اور دادا دادی ممکنہ طور پر پہلے افراد تھے، جنہیں اس منصوبے کی وجہ سے زبردستی جنگل سے بے دخل کیا گیا“
شیوو کا مزید کہنا تھا ”ہم اپنی زمینوں، مندروں میں جانے یا جنگلوں سے شہد اکٹھا کرنے کے تمام حقوق کھو چکے ہیں۔ ہم اس طرح زندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟“
حکام کے مطابق چالیس ہزار سے کم افراد پر مشتمل جینو قبیلے جیسے پچھتر قبائل ہیں، جن کے بارے میں بے دخلی کے سبب تشویش لاحق ہے
جینو، جس کا جنوبی بھارتی کناڈا زبان میں مطلب شہد ہے، یہی ان کا روزگار بھی تھا، جو کہ یہ جنگل سے اکٹھا کرتے تھے
واضح رہے کہ جینو قبیلے سے تعلق رکھنے والے بھارت کی غریب ترین آبادیوں میں شمار ہوتے ہیں
ماہرین کے مطابق تحفظ مہیا کرنے سے متعلق پالیسیوں کی وجہ مقامی برادریوں کے خلاف تعصب ہے
حکومت کی قبائل سے متعلق وزارت متعدد بار دعویٰ کر چکی ہے کہ وہ آدیواسیوں کے حقوق پر کام کر رہی ہے
تاہم ہندوستان میں سو ملین سے زیادہ آدیواسیوں میں سے صرف ایک فیصد کو جنگلات کی زمینوں پر کوئی حق دیا گیا ہے
رپورٹس کے مطابق ان قبائل کے لیے زمینیں ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگلوں میں لگنے والی آگ، شدید گرمی اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے کم ہو چکی ہیں
دوسری طرف بھارت میں چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ملک میں پائے جانے والے 2 ہزار 967 ٹائیگرز دنیا بھر میں پائے جانے والی چیتوں کی تعداد کا 75 فی صد ہیں
بھارت میں قائم کردہ مسکنوں میں رہنے والے چیتوں کی تعداد متعیّن کردہ جگہ سے زیادہ ہے، جب کہ ٹائیگرز شہروں کے مضافات اور گنے کے کھیتوں میں بھی رہ رہے ہیں
خیال رہے کہ بالی اور جاوا میں چیتے ختم ہو چکے ہیں جب کہ چین میں معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
بالی اور جاوا سے ٹائیگرز غائب ہو چکے ہیں، اور چین کے ٹائیگرز ممکنہ طور پر جنگل میں ناپید ہو چکے ہیں۔ سنڈا آئی لینڈ ٹائیگرز کی ذیلی نسل صرف سماٹرا میں پائی جاتی ہے۔ اگرچہ بھارت کے پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی کو متعدد ممالک کی طرف سے سراہا گیا ہے، لیکن آدیواسیوں پر اس پروجیکٹ کے اثرات کے بارے میں کم ہی بات کی جاتی ہے
پروجیکٹ ٹائیگر کے انچارج ایس پی یادیو کے بقول، جب سے یہ پروجیکٹ شروع ہوا ہے، دنیا میں ایسا کوئی اور منصوبہ نہیں ہے اور اس پیمانے کا منصوبہ کہیں اور کامیاب نہیں ہوا
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ قلعوں کے تحفظ کے سماجی اخراجات، جس میں محکمہ جنگلات جنگلی حیات کی حفاظت کرتے ہیں اور مقامی برادریوں کو جنگل کے علاقوں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں
بنگلورو میں قائم اشوکا ٹرسٹ فار ریسرچ ان ایکولوجی اینڈ دی انوائرمنٹ کے شرچ چندر لیلے نے کہا کہ تحفظ کا ماڈل پرانا ہے
انہوں نے کہا ”سرکاری اہلکاروں کے تعاون سے مقامی کمیونٹیز کے زیر انتظام جنگلات کی پہلے ہی دیگر کامیاب مثالیں موجود ہیں، جہاں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جب کہ ان خطوں میں لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔“ لیکن بھارت میں صورتحال اس کے برعکس ہے
کوئی جو اس سے اتفاق کرتا ہے وہ ہے ودیا اتھریا، ہندوستان میں وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کی ڈائریکٹر، جو پچھلی دو دہائیوں سے بڑی بلیوں اور انسانوں کے درمیان تعامل کا مطالعہ کر رہی ہیں
”روایتی طور پر، ہم ہمیشہ جنگلی حیات کو لوگوں پر ڈالتے ہیں“ اتھریا نے کہا، ”اس کے بجائے، ہندوستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ مقامی ساتھیوں کے ساتھ مشغول ہونا ہے“
آدیواسی شیو ایک ایسی زندگی میں واپس جانا چاہتا ہے، جہاں مقامی کمیونٹیز اور شیر ایک ساتھ رہتے ہیں
انہوں نے کہا ’’ہم انہیں دیوتا سمجھتے ہیں اور ہم ان جنگلات کے رکھوالے ہیں۔‘‘