(مغربی لوک کہانیوں میں ڈوموائے [Domovoy] ایک گھریلو ماورائی کردار ہے۔ اس عجیب الخلقت بونے کے بڑے کان، سینگ اور جسم پر بال ہوتے ہیں۔ وہ مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اس میں ایک نام لانتوخ بھی ہے۔ وہ گھروں میں چولہے کے پیچھے، تہہ خانوں اور سیڑھیوں وغیرہ کے نیچے رہتے ہیں۔ لانتوخ جن لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں، ان سے پیار یا نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اکثر ان کے کام بھی آتے ہیں اور لاتعلق بھی رہتے ہیں۔)
”بس وہ سب لانتوخ ہی ہوتے ہیں۔“چاچی ینٹل نے کہا، ”درحقیقت وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، مگر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جہاں رہتے ہیں، وہاں کے لوگوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہے۔“
چاچی ینٹل خاموش ہوگئیں اور رومال سے منہ صاف کیا۔ اگرچہ وہ کہانی کتاب سے پڑھ کر نہیں بلکہ زبانی سنا رہی تھیں، لیکن انہوں نے تانبے کے رم والی عینک نکالی اور شیشوں کو احتیاط سے صاف کرنے لگیں۔ ان کا سر ہل رہا تھا، جس کی وجہ سے ان کی کیپ پر سجاوٹ کے لیے لگی جھالریں، کڑھائی والے ربن اور شیشے کے موتی بھی ہل رہے تھے۔
چاچی سے میرا خونی رشتہ نہیں تھا۔ وہ ایک سادہ لوح عورت تھی۔ ان کے آباؤ اجداد دیہی علاقوں میں رہتے تھے۔ کچھ لوگ سرائے چلاتے، کچھ جائیداد کا انتظام سنبھالتے اور کچھ دودھ کی تجارت میں مصروف تھے۔ ان کی شکل و صورت اور سراپا دیہاتی عورت کا تھا۔ چوڑے کندھے، بڑی چھاتی، گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی اور نارنجی آنکھیں، مگر وہ فاختہ کی طرح نرم مزاج تھی۔ وہ دیر تک اپنی عینک کے شیشوں کو صاف کرتی رہیں، یہاں تک کہ وہ چمک کر سورج کی شعاعوں کو منعکس کرنے لگے۔ پھر انہوں نے عینک کو دوبارہ کیس میں ڈال دیا
”ہم۔۔۔ کس بارے میں بات کر رہے تھے؟“ انہوں نے پوچھا، ”ہاں یاد آیا، لانتوخ۔۔۔ ہاں میرے آبائی گھر میں ان میں سے ایک موجود تھا۔ وہ چولہے کے پیچھے رہتا تھا۔ جہاں لکڑیوں کو خشک کرنے کے لیے رکھا جاتا تھا۔ جب ہم وہاں سے چلے آئے تو وہ وہیں رہا، کیوں کہ لانتوخ سفر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اگر وہ کہیں آباد ہوجائیں تو ہمیشہ وہیں رہتے ہیں۔ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ تم بھی انہیں نہیں دیکھو گے۔ ان دنوں میں بہت چھوٹی تھی، جب ہم سامان باندھ کر ٹربن کے لیے نکلے، لیکن میری ماں اور بہن باشا اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے، جیسے وہ ہمارے خاندان کا حصہ ہو۔ پولش اسے ’ڈوموک‘ کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ’گھریلو بُھتنا‘ ہے۔ کبھی جب باشا کو چھینک آتی تو وہ سرگوشی کرتا۔ ’صحت مند رہو۔‘ ہمارے صحن میں گرمابہ (حمام) تھا، جس کے فرش پر دو بڑے پتھر لگے تھے۔ ہماری ایک ملازمہ لڑکی بھی تھی۔ وہ پولش تھی۔ جب ہم نہانے جاتے تو وہ گرمابہ تیار کرتی تھی۔ پہلے لکڑیاں لاتی، آگ جلاتی اور جب پتھر اتنے گرم ہوجاتے کہ انہیں چھوا نہ جاسکے تو ان پر پانی کی بالٹیاں انڈیل دیتی، بس پھر خوب بھاپ اڑتی۔ اتنی زیادہ کہ سانس لینا محال ہوجاتا۔ مگر جب سب نہا رہے ہوتے تو مجھے گھر میں ہی رہنا پڑتا تھا، لیکن ایک دن میں گھر میں نوکروں کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ آخر وہ مجھے گرمابہ میں لے گئے۔ ہاں، میں یہ بتانا بھول گئی کہ ہماری ملازمہ لڑکی یادش زبان بولتی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ماں اسے پکارتی، ’شیفل!‘ اور وہ پہلے ہی سے جان جاتی کہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ وہ پانی کی بالٹی لے کر بھاگتی اور اسے پتھروں پر انڈیل دیتی، پانی ابلنے لگتا اور پتھروں میں سے سسکاریاں سنائی دیتیں۔ اگر وہ بہت زیادہ گرم ہوجاتا تو ماں چلّاتی۔ ’گرم!‘ اور وہ تھوڑا سا دروازہ کھول دیتی تاکہ وہ ٹھنڈا ہوجائے۔ اس دن میں جانے کے لیے ریں ریں کرنے لگی۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ آخر مجھے بھی گرمابہ میں لے جایا گیا اور اس افراتفری میں میری بہن اپنا تولیہ لے جانا بھول گئی۔ جب ملازمہ کو وہاں اپنا کوئی کام نظر نہیں آیا تو وہ باہر گائیوں کے پاس چلی گئی۔
نہانے کے بعد ماں نے بہن کو تولیہ بھول جانے پر ڈانٹا اور زور سے اسے پکارا۔ ’لانتوخ، لانتوخ! مدد! لانتوخ مجھے تولیہ دو! مجھے امید ہے، تم لادو گے!‘ ہاں یہ اُس کے لیے بہت مشکل تھا۔ پھر پتا ہے کیا ہوا۔۔۔۔۔؟ لانتوخ تولیہ لے آیا۔۔۔۔۔ مجھے یہ خود یاد نہیں، میں چھوٹی تھی، لیکن میں نے اسے اپنی بہن اور والدہ سے کئی بار سنا تھا۔ وہ کیوں جھوٹ بولیں گی؟ مگر یہ پرانے زمانے میں ہوا تھا۔ اب اس دنیا میں سب کچھ بگڑ چکا ہے۔ اب نہ ویسے گھر ہیں، نہ شیطان اور نہ بھوت نظر آتے ہیں۔ وہ ہم سے چھپے ہوئے ہیں۔
لیکن میں تم کو ایک مختلف کہانی سنانا چاہتی ہوں۔ وہ ہمارے گھر کے بارے میں نہیں، بلکہ ٹربن کے ایک گھرانے کے بارے میں ہے اور یہ ہمارے وہاں پہنچنے سے چند سال پہلے شروع ہوا تھا۔ وہاں ایک شخص رہتا تھا۔ اس کا نام موردچائی یاروسلاور تھا۔ جو لوگ اسے جانتے تھے، وہ قسم کھاتے تھے کہ وہ ایک حیرت انگیز آدمی تھا، اس میں کوئی عیب یا کوئی خامی نہیں تھی۔ بس ایک درویش اور کچھ نہیں۔۔ آپ اس جیسا دوسرا تلاش کرنا چاہیں تو وہ آپ کو نہیں ملے گا۔ اس کی بیوی کا نام بیلا فرم تھا اور ان کی اکلوتی بیٹی پائی تھی۔ مقدس کتابیں کہتی ہیں کہ اگر رب کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اسے جلدی اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ موردچائی ابھی بوڑھا نہیں ہوا تھا۔ اس کی عمر چالیس سال بھی نہیں تھی، اچانک اس کے سینے پر ایک دانہ ہوا اور پھر تمام جسم پر ایسے آبلے پیدا ہونے لگے، جیسے آگ میں جل گیا ہو۔ بہت علاج کروایا، مگر مشہور ماہر ڈاکٹر بھی کچھ نہ کر سکے اور وہ مرگیا۔ بس کچھ نہ پوچھو، پھر کیا ہوا۔۔ اس کا گھر شہر کے کنارے پر تھا۔ وہ ایک باغ کا بھی مالک تھا، وہاں شیڈ، گودام اور مختلف عمارتیں تھیں۔ وہ اناج، سن اور مویشیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ جی ہاں وہ ایک امیر آدمی تھا۔۔۔ مگر اس کے مقروضوں کو اپنے قرض ادا کرنے کی جلدی نہیں تھی۔ یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں قول اور وعدے پر سودے ہوتے تھے۔ مگر اس نے لکھ رکھا تھا کہ کس کی طرف کتنا قرض ہے، لیکن وہ ڈائری غائب ہو گئی تھی۔ کون جانتا ہے کہ وہ کہاں گئی؟
بیلا فرم ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے بیمار رہتی تھی، کبھی ایک عارضہ، کبھی دوسرا، اور عام طور پر لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتی تھی۔ جہاں تک موردچائی کا تعلق ہے، وہ سب کو جانتا تھا، تقریباً سب کے ساتھ اس کی دوستی تھی، بیلا فرم کو کسی کی ضرورت نہیں تھی، سب اس کے لیے اجنبی تھے۔ ٹربن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ نہ شہر ہے اور نہ قصبہ، بلکہ ایک دور دراز کا سادہ سا گاؤں ہے۔ جب موردچائی کی موت ہوئی تو ایسا لگا جیسے روشنی ختم ہو گئی ہو۔ بیلا فرم جنازے کے بعد گھر آئی اور فوراً بستر پر چلی گئی، پھر اپنی موت تک نہیں اٹھی۔ اسی طرح تیس سال گزر گئے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔۔ بیلا فرم نے نوکرانی کو نکال دیا۔ اب پائی گھر سنھبالتی۔ وہ سب کچھ کرتی۔ وہ نوکرانی بھی تھی اور باورچن بھی۔ وہ اپنی ماں کے کہنے پر چلتی۔ تابعداری کی بہترین مثال۔۔ وہ بہت خوبصورت تھی، سنہرے بال، نرم سفید مخمل جیسی جلد۔ شاید، وہ اپنے والد پر گئی تھی، ہوسکتا ہے اسے اپنی ماں سے بھی کچھ ملا ہو۔ اچھا، میں اسے زیادہ نہیں جانتی تھی، کیونکہ جب ہم ٹربن پہنچے تو یہ سب باتیں ختم ہونے کو تھیں۔ لڑکی کی شادی کی عمر ہو گئی تھی اور ٹربن میں موجود شادخان (عروسی لباس کے درزی) اس کے لیے موزوں لباس تیار کرنے لگے تھے، لیکن بیلا فرم نے بستر سے نکلے بغیر سب کچھ چلانے کی کوشش کی۔ مستقبل کے دولہا کو اس کے بستر پر لایا جاتا، وہ جانچتی نظروں سے اس کا جائزہ لیتی اور سوال کرتی۔ وہ کسی کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اسے اپنی بیٹی کے لیے شوہر کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ اپنے لیے ایک ملازم کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس کی تابعداری کرے اور وہ سب کچھ کرے جو وہ چاہتی تھی۔ اس نے شرط رکھی تھی کہ شادی کے بعد پائی اپنی ماں کے گھر ہی رہے گی۔ اپنے فائدے اور اپنی سہولت کے لیے اس نے اتنی رکاوٹیں کھڑی کیں کہ آخر پائی نے ایک ایسے لڑکے سے شادی کر لی جو بظاہر امیر، معمولی سا پڑھا لکھا، لیکن خوفناک حد تک بدتمیز تھا۔ تمام ٹربن نے دیکھا کہ پائی برے آدمی کے ساتھ شادی کرنے جا رہی ہے۔ سب نے اسے خبردار کیا. لیکن بیلا فرم خوش تھی۔ اس نے کہا، ’وہ اس سے حسد کررہے ہیں۔‘
پائی نے فرمانبرداری سے گردن ہلائی۔ اس کا یہ رویہ اپنی ماں کی غلامی کی طرح تھا۔ اللہ مجھے معاف کرے۔۔ اگر بیلا فرم اسے قبر کھود کر زندہ دفن ہونے کا حکم دیتی تو وہ ایسا ہی کرتی۔ جانے کیوں غریبوں کے گھر میں ایسی تابعدار بیٹیاں ہوتی ہیں۔ بس ہر جگہ طاقت کا راج ہے۔ بیلا فرم کو یقین تھا کہ اس کا داماد، فیٹل اس کا نام تھا، اس کے حکم پر ناچا کرے گا، لیکن اس نے بیلا فرم پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ جو کچھ بیچ سکتا تھا، اس نے بیچ دیا۔ جو کچھ چوری کر سکتا تھا، وہ چرا لیا۔ وہ ٹڈی دل کی طرح گھر کو ویران کر گیا۔ پائی حاملہ ہوئی اور ایک لڑکی کو جنم دیا۔ انہوں نے اس کا نام میرل رکھا۔ سب نے دیکھا میرل ہوبہو اپنے دادا کی شکل تھی۔ یہ اس کے اندر سے نکلنے والی روشنی کی طرح تھا، لیکن فیٹل کا اپنا طریقہ تھا۔ جیسے ہی اُس گھٹیا شخص کو معلوم ہوا کہ گھر میں چوری کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اس نے پائی کو طلاق دے دی اور ٹربن سے غائب ہوگیا۔ کہاں؟ یہ رب ہی جانتا ہے۔
ایک بچے کے ساتھ طلاق کوئی زیادہ ناپسندیدہ چیز نہیں ہے، لیکن اب بیلا فرم اپنی بیٹی کو کسی مرد کے ساتھ بانٹنے کے لیے راضی نہیں تھی۔ وہ اس کی مکمل مالک بننا چاہتی تھی۔ پائی کلی طور پر اس کی غلام تھی۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایک بار ناکام ہوجائیں تو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ پائی ان میں سے ایک تھی۔ اس کے علاوہ کون آدمی یہ قبول کرتا کہ اپنی بیوی کے علاوہ بیلا فرم کا دست نگر بن کر رہے۔ آدمی اپنے لیے بیوی چاہتا ہے، اپنی ساس کے لیے نوکرانی نہیں۔ مختصر یہ کہ پائی نے کبھی دوسری شادی نہیں کی۔ داماد فیٹل نے گھر کو مکمل طور پر برباد کر دیا تھا۔ آخر دونوں ماں بیٹی مل کر پیسے کمانے لگیں۔ پائی سلائی کرتی تھی۔ ان کے پاس ایک مکان اور زمین تھی۔ ان دنوں کھانے کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ وہ ابلی ہوئی شلجم سے بھی سستا تھا۔ باغ میں سیب، ناشپاتی اور چیری کے درخت تھے۔ انہوں نے زمین کا ایک ٹکڑا کرائے پر دے دیا اور کرایہ دار انہیں اس زمین پر اگائی ہوئی سبزیوں کا کچھ حصہ دینے لگا۔ پرانے زمانے میں بھوک سے کوئی نہیں مرتا تھا۔
پھر پائی بیمار ہو گئی۔ وہ بھی اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلی اور بستر پر چلی آئی اور دوبارہ نہیں اٹھی۔ یہ چند سال بعد ہوا۔ اس وقت میرل صرف سات یا شاید آٹھ سال کی تھی اور یہاں سے لانتوخ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ لانتوخ ان کے گھر میں رہتا تھا۔ اب وہ وہاں کا مالک بن چکا تھا۔ کیا آپ ہنس رہے ہیں؟ مگر، یہاں کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے۔ پورے ٹربن کو معلوم تھا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں دو بیمار عورتیں اور ایک چھوٹا بچہ ہو۔ وہ گھر ہمیشہ صاف ستھرا نظر آئے۔ آج بھی جب میں آپ کو یہ بتا رہی ہوں، میری ریڑھ کی ہڈی کے نیچے چیونٹیاں چلتی محسوس ہو رہی ہیں۔“
چاچی نے ہلکا سا سر ہلایا اور اپنی شال کی تلاش کے لیے ارد گرد نظر دوڑائی۔ وہ صوفے پر پڑی تھی وہ بولی، ”بچو! تم لوگ مجھ پر ہنسو گے، لیکن مجھے اچانک ٹھنڈک لگنے لگی ہے۔“
انہوں نے خود کو شال میں لپیٹ لیا اور ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئیں۔ جیسے سوچ رہی ہوں کہ اپنی کہانی کو جاری رکھنا چاہیے یا نہیں۔ پھر کن انکھیوں سے میری طرف دیکھا، جیسے کہنا چاہتی ہوں کہ کیا ایک چھوٹا لڑکا ایسی باتوں کو سمجھ سکتا ہے؟
میری ماں نے کہا، ”ینٹل ٹھیک ہے، مجھے بتاؤ پھر کیا ہوا۔“
چاچی سنھبل کر آرام سے بیٹھ گئیں، ”میں ان کے گھر کبھی نہیں گئی، لیکن پورا شہر پاگل نہیں ہو سکتا۔ ان کے گھر میں ایک لانتوخ رہتا تھا۔ وہ وہاں تمام کام کرتا، لکڑیاں کاٹتا، پانی لے کر آتا۔۔ مگر رات کو، دن میں کبھی نہیں۔۔ میں نے ابھی کہا تھا کہ لانتوخ عموماً کسی کو دکھائی نہیں دیتے، لیکن یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ موسمِ سرما بہت طوفانی تھا۔ اتنا خراب موسم عمر رسیدہ لوگوں کی یاداشت میں کوئی نہیں تھا۔ نمک کی طرح خشک برف گر رہی تھی، پھر برفانی طوفان آیا اور بڑے بڑے اولے گرے اور کئی گھروں کی چھتیں گر گئیں۔ راستوں اور گھروں کے آگے کئی فٹ برف جم گئی تھی۔ گھروں سے نکلنے کے راستے بند ہو گئے تھے۔ ٹربن میں مضبوط و توانا آدمیوں پر مشتمل ایک گروپ تھا۔ وہ اپنے آپ کو ’کمزوروں کا محافظ‘ کہتے تھے۔ ان میں کوچوان، قصاب اور گھوڑوں کے تاجر شامل تھے۔ وہ بیماروں اور کمزوروں کا خیال رکھتے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا اور اسے مدد کی ضرورت ہوتی تو وہ وہاں جاتے اور گھر سے نکلنے میں مدد کرتے۔ ایک دن خوفناک برفانی طوفان کے دوران انہیں اچانک موردچائی کے خاندان کا خیال آیا۔ موٹل بینٹزیز لمبے قد کا ایک غیر معمولی مضبوط آدمی تھا۔ وہ یہ دیکھنے گیا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ پورا گھر برف سے ڈھکا ہوا تھا، صرف چمنی کا پائپ نظر آ رہا ہے۔ یہاں بہت کام ہے۔ اس نے سوچا اور بیلچہ لے کر دروازے کے آگے جمع برف کے تودے کی کھدائی کرنے لگا۔ اس نے ابھی کچھ ہی برف صاف کی تھی کہ برفانی تودے کے دوسری طرف سے کچھ کھرچنے کی آواز آئی۔ یہ کون ہو سکتا ہے؟ اس نے سوچا۔ آخر کار جب موٹل دہلیز تک پہنچا تو اچانک برف ہٹی اور اس نے ایک بونا آدمی دیکھا، جو اپنے قد سے زیادہ چوڑا تھا۔ اس کے سر پر ٹوپی تھی اور ہاتھ میں اپنے سے تین گنا لمبا بیلچہ تھا۔ شام ڈھل چکی تھی۔ موٹل نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے صرف اپنی زبان باہر نکال کر دکھائی، جو بڑھ کر اس کی ناف تک پہنچ گئی۔ پھر اس نے بیلچہ موٹل کی طرف پھینکا اور اگلے ہی لمحے غائب ہو گیا، جیسے وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ موٹل، ربی کے پاس گیا اور جو کچھ دیکھا تھا، اسے بتایا۔ یہ واقعہ کمیونٹی کی یادگاری کتاب میں درج ہے۔
پھر میرل کس طرح پروان چڑھی؟ بس مجھ سے مت پوچھو کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ سب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، چاہے خانہ بدوشوں کے ساتھ سفر میں رہنے والے ہوں یا ڈاکوؤں کے غاروں میں رہنے والے۔۔ ایک دن وہ چھوٹے ہوتے ہیں، دوسرے دن بڑے اور پھر بالغ ہو جاتے ہیں۔ اس کی ماں پائی بچپن سے ہی اکیلی رہتی تھی، وہ کسی کو دوست نہیں بناتی تھی۔ بیلا فرم نے خود کسی کو برداشت نہیں کیا اور بیٹی کو بھی ہر ممکن طریقے سے دوست بنانے اور دوسروں سے میل ملاقات میں مداخلت کی تھی، لیکن میرل خوش مزاج اور ملنسار تھی۔ خزاں اور سردیوں میں وہ اور اس کی سہلیاں مل کر اچار والے کھیرے، کٹی ہوئی گوبھی اور چھلکے والے مٹر کھاتی تھیں۔ گرمیوں میں وہ مشروم اور بیر ڈھونڈنے کے لیے جنگل میں جاتی تھیں۔ میرل نے سلائی کرنا سیکھی، وہ بہت خوبصورت کڑھائی کرتی تھی۔ سب اس سے پوچھتے کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ تمہارے گھر میں ایک لانتوخ رہتا ہے؟‘
’لانتوخ کون؟ میں نے یہ لفظ کبھی نہیں سنا۔‘ وہ جواب دیتی
’گھر کا سارا کام کون کرتا ہے؟‘
’ہم خود کرتے ہیں۔‘ میرل کہتی
لڑکیوں نے اس کے گھر جا کر کھیلنے اور ناچنے کی خواہش کی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ اس گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ میرل ہنسی اور بولی ’میری دادی کو تفریح پسند نہیں ہے۔’
ٹربن کے لوگوں کے دماغوں میں کھچڑی پک رہی تھی۔ آخر وہ کیا چھپا رہے ہیں؟ وہ اتنے عرصے سے گھر کو کیسے چلا رہے ہیں؟ کون کھانا بناتا ہے؟ کون میرل کے لباس کا خیال رکھتا ہے؟ وہ ہمیشہ ایک رئیس زادی کی طرح بڑھیا لباس میں نظر آتی تھی اور اس کے گالوں پر گلاب کھلتے تھے۔ وہ پیسے کہاں سے لاتی ہے؟ وہ اکثر نان بائی برینا کے پاس جاتی تھی اور وہاں سے بکواہیٹ کے ڈونٹس خریدتی تھی۔
ان کا گھر کچھ ایسا تھا کہ کھڑکی سے یا چابی کے سوراخ سے کوئی اندر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سب سے پہلے صحن کو پار کرنا پڑتا، پھر پورچ تک سیڑھیوں پر چڑھنا تھا۔ جو دروازے تک پہنچنے کے لیے تھیں۔ گھر میں ہر وقت چند پَست قد، کھڑے کانوں والے کتے دوڑتے رہتے۔ شاید آوارہ تھے؟ یا ان کے کرایہ دار کے تھے۔
میرل سے جس نے بھی کچھ پوچھا۔ اس نے سب کو جواب دیا، لیکن وہ کبھی سچ نہیں بتاتی تھی۔
’تمہارے لیے کھانا کون پکاتا ہے؟‘ وہ اس سے پوچھتے۔
وہ جواب دیتی، ’ممی‘
’کیا وہ بستر سے اٹھتی ہے؟‘
’وہ تھوڑی دیر کے لیے اٹھتی ہے۔‘ اس نے کہا
’وہ ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جاتی؟‘
’وہ بہت سست ہے۔‘ وہ کہتی اور خود ہی مسکرانے لگتی، جیسے یہ کوئی مذاق ہو۔
ایک چھوٹے شہر میں ہر کوئی جانتا ہے کہ دوسرے برتن میں کیا بن رہا ہے۔ یہاں بھی سب کو معلوم تھا کہ اس گھر میں کچھ عجیب ہو رہا ہے۔
اچھا، پھر میرل بڑی ہو گئی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا حسن دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا تھا۔ جب قصبے کے لڑکوں نے اسے دیکھا تو شادی کا سندیسہ دینے کے لیے اس کے گھر کی طرف دوڑے، لیکن وہ پائی یا بیلا فرم سے بات نہیں کر سکے۔ ان کے دروازے میں ہمیشہ قفل لگا رہتا تھا اور ایک موٹی زنجیر بھی چڑھی رہتی تھی۔ انہوں نے میرل سے بات کرنے کی کوشش کی اور پوچھا، وہ کب شادی کرے گی؟
اس نے جواب دیا ’میں نہیں جانتی۔‘
ایک چھوٹی سی جگہ یا کسی بڑے شہر میں بھی آپ کسی کو زیادہ نہیں جان سکتے۔ جب تک وہ خود آپ کو کچھ نہ بتائے اور اگر سب کچھ لوگوں کی پسند کے مطابق نہ ہو تو لوگ غیبت کرنے لگتے ہیں۔ بات شروع ہوئی کہ لانتوخ خود اس خاندان کا مالک ہے۔ ٹھیک ہے، اگر وہ لکڑیاں کاٹتا ہے، پانی بھرتا ہے اور برفانی طوفانوں کے بعد گھر سے نکلنے کا راستہ کھود کر صاف کرتا ہے، تو میں سمجھتی ہوں کہ وہ وہاں صرف خادم نہیں ہے۔۔ اور میرل اتنی معصوم لڑکی نہیں ہے جتنی وہ لگتی ہے۔ آپ جانتے ہیں پھر کیا ہوا؟ وہ اسے نظر انداز کرنے لگے۔ لڑکیوں نے ہفتے کے روز اس کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کے لیے جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چھوڑ دیا۔ وہ اسے منگنی اور شادیوں میں مدعو نہیں کرتی تھیں۔ تب میری عمر صرف دس سال تھی، لیکن میں یہ سب باتیں سنتی اور سمجھتی تھی۔ میرل اکیلی سڑک سے گزر رہی ہوتی تھی۔ ہم وہیں رہتے تھے۔ وہ ایک شہزادی کی طرح عمدہ لباس اور پالش کیے ہوئے چمکدار جوتے پہنے وہاں سے جاتی، لیکن کوئی اس کی طرف نہیں دیکھتا تھا۔ بس وہ لڑکیاں، جنہوں نے کپڑے بنانے والے کی مدد کی تھی اور وہ لڑکے جو قصاب کے ملازم تھے، اس کا پیچھا کرتے تھے، لیکن قریب جانے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ لوگ اگرچہ اسے نظر انداز کر رہے تھے، لیکن وہ سوچتے: وہ کہاں جارہی ہے؟ اس کے دماغ میں کیا ہے؟ اور وہ ماں اور دادی جیسی اُن دکھی اور پھیکی مخلوق کے ساتھ کیسے رہ رہی ہے؟
آخر میرل نے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ وہ شاذ و نادر ہی کچھ خریدنے کے لیے باہر نکلتی، معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ڈاکیا ان کے لیے سیل بند خط لاتا ہے۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ خطوط کہاں سے آتے ہیں۔ سردیوں میں جب عموماً برف گرتی تو کھیتوں، راستوں اور گھروں کے آگے برف کے ڈھیر جمع ہو جاتے، لیکن کسی وجہ سے ان کے گھر کے ارد گرد کہیں بھی زیادہ برف پڑی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آیا بیلا فرم ابھی زندہ ہے یا مر گئی؟ لیکن چونکہ وہ ابھی تک قبرستان میں دفن نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے زندہ لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ چھوٹی جگہ پر ہوتا ہے تو بڑے شہر میں کیا ہوتا ہوگا؟ رب ہی جانتا ہے۔ ایک بار میرے والد نے ایک بھکاری کو ہفتے کے دن کھانے کی دعوت دی۔ اس آوارہ گرد نے بہت دنیا دیکھی تھی۔ ہم نے اس سے لوبلن کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا، ’وہ شہر لاشوں سے بھرا پڑا ہے۔‘
’کس طرح؟‘ باپ نے پوچھا
’جب کوئی چھوٹے شہر میں مرتا ہے تو اس کی لاش قبر میں رہتی ہے۔ مگر بڑے شہر میں سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی، مردہ اور تنہا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے وہ قبر سے جی اٹھتا ہے۔ میں نے خود لوبلن میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو کئی سال پہلے فوت ہوگیا تھا۔ اس کا نام شمرل تھا۔ میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا۔ وہ مجھے نظر آیا۔ میں رک گیا اور وہ بھی۔ میں اتنا حیران تھا کہ اپنا منہ بھی نہیں کھول پا رہا تھا۔ اپنے بازو یا ٹانگ کو حرکت بھی نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے کہا۔ ارے تم! یہ تم ہی ہو! شمرل تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ بس پھر میں نہیں جانتا کہ وہ ہوا میں کیسے غائب ہو گیا۔‘
میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں؟ ہاں، لانتوخ۔۔ اگر معاملات ٹھیک چلتے ہیں تو یہ چھوٹے بُھتنے اٹاری میں چھپ جاتے ہیں یا تندور میں رہتے ہیں۔ لیکن جب کسی شخص کی قوتِ حیات ختم ہو جاتی ہے تو وہ اس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ لانتوخ نہیں بلکہ بھوت یا اُس جیسا کوئی اور ہو۔ بوڑھی ڈائن بیلا فرم نے پائی کو کھا لیا اور انہوں نے مل کر میرل کو خراب کیا۔ بے شک، ایسی ماں کے ساتھ اور ایسی دادی کے ساتھ تم بھی پاگل ہو جاؤ۔ آخر میرل کا دماغ خراب ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ وہ دن میں سوتی تھی اور رات کو جاگتی تھی۔ رات کو چوکیدار جب ان کے گھر کے پاس سے گزرتا تو وہ میرل کو پاگلوں کی طرح ہنستے ہوئے سنتا۔ ایسا لگتا تھا کہ شیطان اسے گدگدی کر رہا ہے اور کبھی وہ بلی کی طرح چیخنے لگتی۔“
”تو تمہارا کیا یہ کہنا ہے کہ لنتوخ ان کے ساتھ گناہ اور گندے کاموں میں ملوث تھا؟“ ماں نے کچھ تذبذب کے بعد پوچھا
چاچی ینٹل نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ لی، ”میں نہیں جانتی۔ میں کیسے جان سکتی ہوں؟ لیکن لانتوخ ایک مرد ہے، عورت نہیں۔ ایک سنار کے بارے میں کہانی مشہور ہے جو اپنے کوٹھری میں ایک جِنّی کے ساتھ رہتا تھا اور اس کے پانچ بچے تھے۔ دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ تینوں خواتین شوہروں کے بغیر اکیلی کیوں رہتی تھیں؟ اگر ٹربن ان کے لیے ایک گاؤں تھا، وہ ٹربن میں تنگ آئی ہوئی تھیں تو گھر بیچ کر کہیں اور منتقل کیوں نہیں ہو جاتی تھیں؟ لوگ خدا جانے ایسے کام کیسے کر لیتے ہیں۔ بوڑھی بیلا فرم بہت چالاک اور شیطانی ذہن کی تھی۔ جب اس کا شوہر موردچائی زندہ تھا، تب بھی وہ ایسے کاموں میں مصروف تھی۔ اس کے پاس دو کالی بلیاں تھیں۔ لوگوں نے اکثر انہیں پورے چاند کی رات کو گھاس کے میدان میں جڑی بوٹیاں اکٹھی کرتے دیکھا تھا۔ وہ جادو کرنا جانتی تھی اور لوگوں کی زندگیوں کو بگاڑ سکتی تھی۔ پائی کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی۔ بس جو ماں کہتی، وہ اس پر عمل کرتی، لیکن میرل اس کے سامنے کس طرح سرنگوں ہوئی، اس پر میں حیران ہوں۔ تم جانتے ہو، شیطان کو صرف ایک انگلی دو، وہ پورا ہاتھ پکڑلے گا۔ وہ کہنے لگے لانتوخ ان کے لیے رقص کرتا اور گانا گاتا ہے، یہاں تک کہ اچھل کود اور قلابازی بھی لگاتا ہے۔ کسی نے اسے مسخرے کی طرح گاتے اور لطیفے سناتے ہوئے بھی سنا۔ گھر میں ایک بہت بڑا بستر تھا، کہا جاتا تھا کہ وہ سب وہاں اکٹھے سوتے تھے۔۔ اوہ! بس میں اس کے بارے میں مزید بات کرنا نہیں چاہتی۔ بیلا فرم کبھی عبادت گاہ میں نہیں گئی اور نہ ہی میرل۔ بس پائی ایک دفعہ سوکوتھ (خیموں کی عید) پر یہ دیکھنے کے لیے آئی تھی کہ ہارن کیسے پھونکا جاتا تھا۔
ایک رات کسی نے ولف کاشتان کے دروازے پر دستک دی۔ وہ ٹربن میں فائر بریگیڈ ٹیم کا رکن تھا اور اپنی ٹیم میں اہم سمجھا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھکڑا اور ایک بوڑھی گھوڑی تھی۔ آپ اسے گھوڑی نہیں کہہ سکتے، بس ایک نکما جانور تھا۔۔ اور چھکڑے میں پانی کے لیے ایک بیرل رکھا تھا۔
یہ رات کے پچھلے پہر کی بات ہے۔ جب موسم سرد اور نم تھا۔ اس نے دروازہ کھولا اور وہاں۔۔۔۔۔ ایک کریہہ شکل بھتنا کھڑا تھا، انسان نہ جانور بس آدھا کتا، آدھا بندر، سر پر الجھے بالوں کا بڑا گھچا۔
’تم کیا چاہتے ہو؟‘ ولف نے پوچھا
لانتوخ نے کراہتے ہوئے کہا ’بیلا فرم کے گھر کو آگ لگ لگی ہے۔‘ پھر دھند میں یوں غائب ہوگیا، جیسے تحلیل ہوگیا ہو۔
جتنی دیر میں ولف نے گھوڑی کو چھکڑے میں جوتا اور بیرل میں پانی بھر کر وہاں پہنچا۔ گھر چل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ اسے بس عورتوں کے جلے ہوئے انگارے ملے۔ انہیں دفن کر دیا گیا۔۔
جب ولف کاشتان نے اس عفریت کے بارے میں لوگوں کو بتایا تو یہ بالکل واضح ہو گیا کہ لانتوخ ان کے گھر میں رہ رہا تھا۔“
”آگ کیسے لگی تھی؟“ میری ماں نے پوچھا
”کسے پتا؟“خالہ ینٹل بولیں۔
”شاید لانتوخ نے آگ لگائی ہو؟“ ماں نے کہا۔
”اگر اس نے لگائی ہوتی تو وہ فائر مین کے پاس کیوں بھاگا آتا؟“
ماں گہری سوچ میں پڑ گئی۔ کافی دیر خاموش رہی۔ پھر کہنے لگی، ”لانتوخ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ہی جال میں پھنس گیا، شاید وہاں رہتے رہتے تنگ آ گیا تھا، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ بس اب رخصت ہونا چاہیے۔“