ایم کیو ایم دھڑوں کے یکجا کر کے پیپلز پارٹی سے اس کے اتحاد کی کوششیں، سندھ کی سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

ویب ڈیسک

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے علیحدہ ہونے والے تمام دھڑوں کو ایک ساتھ ملانے کی کوشش کی خبروں پر سیاسی تجزیہ نگاروں نے تبصرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایم کیو ایم لندن اور بانی الطاف حسین کی شمولیت کے بغیر تمام گروپس کے یکجا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا

واضح رہے کہ حال ہی میں گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کامران ٹیسوری نے اچانک ہی ایم کیو ایم کے دھڑوں کو دوبارہ سے ملانے کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس مقصد کے تحت کامران ٹیسوری اب تک پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال، ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقاتیں کر چکے ہیں

گذشتہ ہفتے کو مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں شمولیت پر آمادہ ہو گئے ہیں

دوسری جانب مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا ”ایم کیو ایم کو ایک کرنے میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا اہم کردار ہے اور ایم کیو ایم دھڑوں کے اتحاد کا اعلان جلد ہوجائے گا۔ تمام دھڑوں کے درمیان اتحاد کے بعد سربراہی پر کوئی جھگڑا نہیں“

واضح رہے کہ وفاق اور سندھ کی سیاست میں کلیدی اہمیت رکھنے والی ماضی کی طاقتور سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اس وقت پانچ مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے

ان دھڑوں میں خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان، الطاف حسین کا ایم کیو ایم لندن کا دھڑا، مصطفیٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی، ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیو ایم بحالی کمیٹی اور 1990ع کی دہائی میں علیحدگی اختیار کر کے آفاق احمد کی سربراہی میں مہاجر قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم حقیقی شامل ہیں

اس تناظر میں کراچی کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی و محقق ضیاالرحمٰن کہتے ہیں ”اس وقت گورنر سندھ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم لندن کو چھوڑ کر دیگر مہاجر سیاست کرنے والی جماعتوں کو دوبارہ ایک متحدہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ سندھ کے شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص جیسے شہروں میں ایم کیو ایم کی نشستیں واپس لی جا سکیں“

گذشتہ کئی دہائیوں سے ایم کیو ایم کو کور کرنے والے سینیئر صحافی اشرف خان کا کہنا ہے ”ایم کیو ایم کے تمام دھڑے یکجا ہو جائیں مگر جب تک ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین کو ساتھ نہیں لیا جاتا، اکٹھے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مائنس ایم کیو ایم لندن اور مائنس الطاف حسین کے باعث وہ نتائج کبھی نہیں مل پائیں گے، جس کے لیے سب کو اکٹھا کیا جا رہا ہے“

اشرف خان کہتے ہیں ”الطاف حسین نے جب الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو ان پر پابندی کے باوجود ووٹر باہر نہیں نکلے۔ ایسا گذشتہ عام اتنخابات میں بھی نظر آیا۔ تو اگر ایم کیو ایم کو ماضی کی طرح طاقتور بنانا ہے تو ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین کو ساتھ ملانا ہوگا۔ ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا“

ضیا الرحمٰن کا کہنا ہے ”اس طرح کی کوششیں ماضی قریب میں بھی کی گئیں مگر اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے 2018ع کے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر کراچی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور میرپور خاص اور سکھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست کھائی“

عام تاثر یہ ہے کہ کراچی سے گذشتہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بڑی تعداد میں جیتی گئی نشستوں کو واپس لینے کے لیے ایم کیو ایم کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، مگر صحافی اور سندھی زبان کے ٹی وی چینل دھرتی نیوز کے اینکر پرسن فیاض نائچ اس تاثر کو رد کرتے ہیں

فیاض نائچ کے مطابق یہ صرف ایم کیو ایم کے ٹوٹے ہوئے حصوں کو ملانے تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ ملک بھر میں شروع ہونے والی ایک نئی صف بندی کا حصہ ہے

فیاض نائچ نے کہا ’پاکستان تحریک انصاف سے مایوسی کے بعد پاکستان کی اسٹبلشمنٹ چاہتی ہے کہ اب تمام کنٹرول حکومتی اتحاد کو دیا جائے، اس لیے ملک میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’ایم کیو ایم اتحاد کے علاوہ بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کی پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی ٹوٹ گئی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے کئی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔‘

ایم کیوایم کے دھڑوں کے اتحاد کا سندھ کی سیاست پر کیا اثر مرتب ہو گا؟ اس کے جواب میں فیاض نائچ نے کہا ”سندھ کی سیاست پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا. ماضی میں وہ تمام نشستیں جن کے لیے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو یکجا کیا جا رہا ہے، وہ یا تو ایم کیو ایم کے پاس تھیں، یا جماعت اسلامی کے اور بعد میں پی ٹی آئی کے پاس اور اب دوبارہ ایم کیو ایم کے پاس چلی جائیں گی“

بات صرف ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے تک محدود نہیں، بلکہ ایم کیو ایم کو یکجا کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اس کے اتحاد کی کوششیں بھی جاری ہیں

تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کی متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی کوششیں تاحال بے، نتیجہ ثابت ہوئی ہیں جوکہ مرکز میں ان کی اہم اتحادی جماعتیں ہیں

گزشتہ روز دونوں جماعتوں کے قائدین نے وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے ہمراہ بلاول ہاؤس میں ملاقات کی اور بلدیاتی انتخابات سے قبل دونوں فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک کے حوالے سے مختلف آپشنز کا جائزہ لیا

ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات نئی حلقہ بندیوں تک ملتوی کرنے کے مطالبے پر پیپلزپارٹی قائل نہ ہو سکی، جس کے بعد یہ اجلاس بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوبگیا

تاہم دونوں جماعتوں نے اس حوالے سے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر پر اتفاق کیا۔ جبکہ اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں اپنے اپنے نقطہ نظر اور مطالبے پر قائم ہیں

ماضی کے برعکس شرکا میں سے کسی نے بھی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو نہیں کی اور اجلاس میں زیر بحث کوئی بھی تفصیلات بتائے بغیر وہاں سے چلے گئے

سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دونوں جماعتوں کی جانب سے بریفنگ دی گئی، تاہم وہ کسی اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکام رہے

پیپلزپارٹی ذرائع نے بتایا کہ ’پی پی پی نے واضح طور پر شرکا کو آگاہ کیا کہ نئی حلقہ بندی ایک طویل مدتی عمل ہے اور اسے مکمل ہونے میں چار ماہ لگ سکتے ہیں‘

انہوں نے کہا ’یہ مؤقف قانونی ماہرین کی رائے سے بھی جڑا ہے جو انتخابات میں تاخیر کو صوبائی حکومت کے دائرہ کار سے باہر قرار دیتے ہیں کیونکہ ایسا فیصلہ کرنا صرف الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، صوبائی حکومت پہلے ہی اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے رائے طلب کرچکی ہے اور جواب کا انتظار ہے‘۔

واضح رہے کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے فیصلے پر ایم کیو ایم کی مخالفت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پارٹی کو راضی کرنے کے لیے وفد کراچی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد وفاقی وزرا کا ایک وفد گزشتہ روز کراچی پہنچا تھا

اتوار (یکم جنوری) کو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو شیڈول کے مطابق ہونے کی صورت میں نئی حکمت عملی طے کی گئی تھی

رابطہ کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا کہ موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات شہر کے مینڈیٹ کے خلاف ہوں گے، انہوں نے انصاف کے لیے عدالت اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا تھا

ایک اور ذریعے نے بتایا کہ ’بلاول ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے موقف کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ نئی حلقہ بندیوں کے مطالبے پر ڈٹے رہے‘

انہوں نے کہا ’ایم کیو ایم نے صورت حال بدستور برقرار رہنے کی صورت میں اُن آپشنز کے بارے میں آگاہ کیا جن پر رابطہ کمیٹی کے آخری اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا‘۔

ذرائع نے بتایا کہ ’ایم کیو ایم نے خاص طور پر کراچی میں 73 بلدیاتی حلقوں کا ذکر کیا جن پر اگلے انتخابات سے قبل نظرثانی کی سخت ضرورت ہے‘

انہوں نے کہا ’ایم کیو ایم رہنماؤں نے ان تحفظات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ردعمل پر شدید مایوسی کا اظہار کیا جن پر وہ گزشتہ آٹھ ماہ سے آواز اٹھا رہے تھے اور اب یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ پارٹی بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی خواہاں ہے‘

اجلاس میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع نے مذاکرات میں کسی تعطل کا امکان بھی مسترد کردیا، انہوں نے کہا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ تمام اتحادیوں نے کسی بھی حتمی نتیجے یا فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اس معاملے پر بات چیت جاری رکھنے اور مذاکرات کے لیے دوبارہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close