صوبہ پنجاب میں ہنوز نئے انتخابات کے انعقاد اور ان کی تاریخ کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم انتخابات سے اس حد تک گریزاں ہے کہ اب اس تناظر میں ’پاکستان اور بھارت کے مابین نئی ممکنہ جنگ‘ کے خطرے کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے
ان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے رویوں میں کوئی لچک نظر نہیں آتی۔ ایک طرف ملکی سپریم کورٹ ان انتخابات کو 14 مئی کو ہی کرانے کا پکا ارادہ رکھتی ہے تو دوسری طرف حکومت تاحال اس ارادے کی شدید مخالفت کر رہی ہے
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے مختلف وجوہات بیان کر رہی ہے، لیکن گزشتہ روز اس کی جانب سے جو وجہ بیان کی گئی، وہ حیران کن تھی۔ حکومت وجوہات کے ڈھیر میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اب ’ممکنہ پاک بھارت جنگ کا خطرہ‘ کی وجہ بھی لے آئی ہے۔ اس موقف پر ناقدین حیران ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ آخر ان انتخابات کا بھلا کسی ممکنہ جنگ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے!
اس بات کا پسِ منظر یہ ہے کہ منگل کے روز پاکستانی وزارت دفاع نے ملکی سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں پاکستان کو درپیش خطرات بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملک کو سرحد پار دہشت گردی، عدم سلامتی، کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے لاحق خطرات، داعش کے جنگجوؤں کی مختلف ممالک سے پاکستان واپسی اور بھارتی خفیہ ایجنسی کے خطرناک عزائم کا سامنا ہے، حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ جنگ بھی ہو سکتی ہے!
وزارت دفاع کے مطابق ”یہ ہیں وہ عوامل، جو پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں“
وزارت دفاع نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ عدالت پنجاب میں انتخابات کرانے کے حوالے سے اپنا فیصلہ واپس لے لے
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انتخابات ہونے کی صورت میں بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان کے لسانی مسائل، پانی کے تنازعات اور دوسرے مسائل سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پنجاب میں صورتحال ملک میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے اور یہ کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیئر رہنماؤں کے خلاف ’تھریٹ الرٹ‘ پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں
مبصرین وزارت دفاع کی اس رپورٹ پر نہ صرف حیران ہیں، بلکہ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انتخابات سے فرار کے لیے بھارت سے ممکنہ جنگ کا تذکرہ کر کے وزارت دفاع نے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے
تجزیہ نگار حبیب اکرم کہتے ہیں ”وزارتِ دفاع کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹوں کو پہلے ہی لوگ اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن اس رپورٹ کے بعد تو وہ وزارتِ دفاع کی کسی بھی رپورٹ کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیں گے“
حبیب اکرم نے کہا ”میرے خیال میں کسی جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی امکان ہے۔ حکومت نے اس طرح کی رپورٹ جاری کر کے پاکستان کی جگ ہنسائی کرائی ہے اور دنیا سوچ رہی ہے کہ کیا یہ ملک اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنے ہاں انتخابات بھی نہیں کرا سکتا‘‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان وزارتِ دفاع کی رپورٹ کو پنجاب میں انتخابات ملتوی کروانے کی ایک ‘بھونڈی کوشش‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”اس رپورٹ سے لوگوں کا حکومت اور اداروں دونوں پر اعتماد کم ہوگا لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ملکی سپریم کورٹ اور عمران خان کی انا بھی اس ماحول کو خراب کر رہی ہیں‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق اس صورتحال میں سیاسی قوتوں کو نقصان ہوگا جب کہ فوج کا اثر و رسوخ مزید بڑھے گا
واضح رہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا تھا، جس کے بعد ملک میں طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں بڑھ گئی تھیں۔ سن 2000ع سے لے کر اب تک پاکستان میں بےشمار دہشت گردانہ حملے ہوئے لیکن اس سارے عرصے میں بلدیاتی، صوبائی اور قومی سطح کے انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا ہے
دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال اتنی بری نہیں جتنی کہ ماضی میں تھی۔ دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے ”پاکستان میں الیکشن طالبان دہشت گردوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے دوران بھی ہوئے۔ میرے خیال میں آج حالات اتنی برے نہیں، جتنے 2008 سے 2013 میں تھے یا 2018 میں تھے۔‘‘
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کے مطابق ”جہاں تک پاکستان کی بھارت سے کسی نئی جنگ کے خطرے کا تعلق ہے، تو یہ خطرہ تو ہر وقت رہتا ہی ہے، چونکہ بھارت پاکستان کا حریف ہے، اس لیے اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پاکستان میں الیکشن کو ہی التوا میں ڈال دیا جائے‘‘
ان کا مزید کہنا تھا ”وزارت دفاع کو یہ رپورٹ بالکل جمع نہیں کرانا چاہیے تھی۔ اگر ایسا کوئی معاملہ تھا بھی، تو اسے عوامی سطح پر سامنے نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘
عیدالفطر کے فوری بعد انتخابی سرگرمیاں اور گہما گہمی بھی بڑھتی چلی جائے گی لیکن انتخابات کا انعقاد تاحال ایک معمہ ہے۔ وزیر داخلہ دو ٹوک پیغام دے چکے ہیں کہ جتنا مرضی زور لگا لیں، الیکشن 14مئی کو ہرگز نہیں ہوں گے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکومت انتخابی اخراجات فراہم کرنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔ ایسے میں نظریں عدالت عظمیٰ کی طرف لگی ہوئی ہیں‘ حالات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ سیاستدان ایک پیج پر آجائیں تو نہ صرف اس بحران کا حل نکل سکتا ہے بلکہ ملک بھر میں انتخابات بھی ایک ہی دن کرائے جا سکتے ہیں‘ اگر یہ سبھی متفق نہ ہوئے تو پنجاب کے انتخابات 14مئی کو ہی ہوں گے
صورتحال پر بات کرتے ہوئے کالم نگار آصف عفان کا کہنا ہے ”پی ڈی ایم کا انتخاب سے فرار اور تحریک انصاف کا اصرار دیکھ کر ایک لطیفہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ ’آٹھ بھائی اکٹھے کہیں جا رہے تھے‘ راستے میں مخالفین سے مڈبھیڑ کے نتیجے میں سبھی کی اچھی خاصی پٹائی ہوگئی‘ مار کھا کر گھر لوٹے تو باپ نے انتہائی غصے سے کہا کہ تم آٹھ کڑیل جوان بھائی شرم سے ڈوب مرو‘ تمہارا یہ ڈیل ڈول اور جوانی کس کام کی کہ تمہیں شریکوں نے اس بے دردی سے پیٹا ہے۔ اُن میں سے ایک بولا: اَبّا جی! ہم آٹھ اکیلے اور وہ دو کا ٹولہ‘ پٹتے نہ تو اور کیا کرتے‘‘۔ یہاں تو معاملہ دو اور آٹھ کا نہیں بلکہ 14جماعتی اتحاد ایک طرف جبکہ مدمقابل اکیلا عمران خان ہے‘ گویا یہ چودہ اکیلے اور وہ ایک کا ٹولہ۔“
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ طاقتور حلقوں کی ’یقین دہانیوں‘ کی بنیاد پر کہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا امکان نہیں، یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان نے کسی امیدوار کو پارٹی ٹکٹ ہی نہیں دیا۔ جبکہ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل پنجاب میں اس وقت نون لیگ کی غیر مقبولیت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور پارٹی کو امیدوار بھی نہیں مل رہے
یاد رہے کہ 20 اپریل کو انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن تھا، لیکن ن لیگ کی طرف سے کسی امیدوار نے پارٹی ٹکٹ جمع نہیں کروایا، جس کا ایک مقصد یہ ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو پارٹی کے پاس دو راستے ہوں گے، یا تو اس عمل کا بائیکاٹ کرے یا امیدواروں کو اپنی حمایت کے ساتھ آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کے لیے کہے
نون لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق شریف برادران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس بات کی ’مکمل ضمانت‘ ملنے کے بعد ’انتہائی پراعتماد‘ ہیں کہ اگلے ماہ انتخابات نہیں ہوں گے
ذرائع نے کہا کہ اس کے علاوہ وفاقی اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے مؤقف پر متفق ہیں کہ وہ آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات کو روکنے کے لیے حتی المقدور اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے
شریف برادران کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ تمام صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ایک ہی دن کے انتخابات پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو بھی وفاقی اتحاد کی مدد سے وہ طاقتیں اپنے ہدف کو حاصل کرنے کا راستہ تلاش کریں گی
وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے بتایا کہ حکمران اتحاد انتخابات کو روکنے کے لیے کسی بھی قربانی کے لیے تیار ہے