واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ: حنا ربانی اور وزیراعظم کی لیک گفتگو میں کیا ہے؟

ویب ڈیسک

ڈسکورڈ لیکس دستاویزات میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کی امریکا اور روس سے تعلقات پر مبنی گفتگو کا ریکارڈ لیک ہو گیا ہے

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان نے 9/11 کے بعد امریکا سے امداد میں اربوں ڈالر حاصل کیے لیکن اب وہ چینی سرمایہ کاری اور قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کر رہا ہے۔

لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے مارچ میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا ملک اب چین اور امریکا کے درمیان نیوٹرل رہنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیرمملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کے درمیان خارجہ پالیسی امور پر کی گئی انتہائی اہم گفتگو لیک ہونے والے ریکارڈ میں وزیر مملکت نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو ایسی پالیسی اپنانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ مغرب کو خوش کر رہا ہے اور امریکا کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری برقرار رکھنے کی خواہش آخر کار چین کے ساتھ ’اصل اسٹریٹجک‘ شراکت داری کے مکمل فوائد کو قربان کردے گی

معروف امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق میسجنگ پلیٹ فارم ’ڈسکورڈ‘ کے ذریعے آن لائن لیک ہونے والے امریکی خفیہ ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے مارچ میں استدلال کیا تھا کہ ان کا ملک اب چین اور امریکا کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کر سکتا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے، جس نے 9/11 کے بعد امریکی معاشی اور سیکیورٹی امداد میں اربوں ڈالر حاصل کیے لیکن اب چینی سرمایہ کاری اور قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کر رہا ہے

اخبار کے مطابق ’پاکستان کے لیے مشکل انتخاب‘ کے عنوان سے لکھے گئے ایک داخلی میمو میں حنا ربانی کھر نے خبردار کیا کہ پاکستان کو ایسی پالیسی اپنانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ مغرب کو خوش کر رہا ہے اور خبردار کیا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری برقرار رکھنے کی خواہش آخر کار چین کے ساتھ ’اصل اسٹریٹجک‘ شراکت داری کے مکمل فوائد کو قربان کردے گی

انٹیلیجنس دستاویز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کب تحریر کیا گیا اور امریکا نے حنا ربانی کھر کے میمو تک رسائی کیسے حاصل کی

ایک اور دستاویز جس پر 17 فروری کی تاریخ درج ہے، وہ روس یوکرین تنازع پر اقوام متحدہ کی ووٹنگ کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک ماتحت کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو بیان کرتی ہے

انٹیلیجنس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ معاون نے شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ قرارداد کی حمایت پاکستانی پوزیشن میں تبدیلی کی نشاندہی کرے گی، جب کہ اس سے قبل اس نے اس طرح کی قرارداد پر ووٹنگ سے اجتناب کیا تھا

معاون نے کہا کہ پاکستان، روس کے ساتھ تجارت اور توانائی کے معاہدوں پر بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر پاکستان مغربی حمایت یافتہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو یہ تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں

جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 23 فروری کو ووٹنگ کرائی تو پاکستان ان بتیس ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ووٹنگ سے اجتناب کیا

اخبار کے مطابق پاکستانی حکام اور لیک ہونے والی دستاویزات میں شامل دیگر ممالک سے تعلق رکھنے عہدیداروں نے معاملے پر رد عمل دینے سے انکار کر دیا

رپورٹ کے مطابق منظر عام پر آنے والی دستاویزات اس صورتحال اور اہم چیلنجز کی نشاندہی کرتی ہیں، جس کا امریکی صدر جو بائیڈن کو سامنا ہے جبکہ بڑے ترقی پذیر ممالک امریکا، روس اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے اثرات سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں

میسیجنگ پلیٹ فارم ’ڈسکورڈ‘ کے ذریعے آن لائن لیک ہونے والا امریکی خفیہ ریکارڈ بھارت، برازیل، پاکستان اور مصر سمیت اہم ابھرتی ہوئی طاقتوں کے اندرونی معاملات کی ایک نادر جھلک دکھاتا ہے، جبکہ وہ ممالک ایک ایسے وقت میں دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جب امریکا دنیا کی واحد سپر پاور نہیں ہے

افشا ہونے والی انٹیلیجنس فائلز جو اس سے قبل کبھی منظر عام پر نہیں آئیں، ان مشکلات کے بارے میں بھی نئی معلومات فراہم کرتی ہیں جن کا جو بائیڈن کو آمریت کے پھیلاؤ کو مسترد کرنے کی اپنی کوششوں، روس کی جانب سے جنگ کو اس کی اپنی سرحدوں سے باہر لے جانے سے روکنے اور چین کی بڑھتی عالمی رسائی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے میں سامنا ہے جب کہ علاقائی طاقتیں اس حوالے سے غیر جانب دار رہنے کی کوشش کر رہی ہیں

ان حالات میں جب کہ یورپ اور مشرقی ایشیا میں امریکا کے بنیادی اتحادی جو بائیڈن کی یوکرین مہم کی حمایت کے لیے اکٹھا ہیں اور ہتھیاروں کی فراہمی کا اعلانات کر رہے ہیں اور خود کو روسی توانائی سے دور کر رہے ہیں، واشنگٹن کو دوسرے ممالک کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

اگرچہ جو بائیڈن انتظامیہ نے ان ممالک کو بتایا ہے کہ وہ ایک طرف امریکا اور دوسری طرف چین اور روس میں سے ایک فریق کے انتخاب کا نہیں کہہ رہی لیکن جنوبی افریقہ اور کولمبیا سمیت دیگر اقوام اس کو ایک فریق کے انتخاب کے طور پر دیکھتی ہیں

وائٹ ہاؤس نے معاملے پر رد عمل دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا جبکہ محکمہ دفاع نے جہاں کئی دستاویزات کے آن لائن لیک ہونے سے قبل سینئر رہنماؤں کو بریف کیا گیا تھا، وہیں اس نے بھی معاملے پر کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close