سیلفی آج ایک عام لت کے طور پر معاشرے میں رواج پا چکی ہے۔ جب سے موبائل فون پر کیمرے کی آمد ہوئی ہے، سیلفی کا رواج زور پکڑ گیا ہے۔ چنانچہ سائنس دانوں نے بھی اس حوالے سے تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ بعض لوگ زیادہ سیلفی کیوں لیتے ہیں اور کچھ لوگ سیلفی کیوں کم لیتے ہیں۔ یقیناً ہر دو عادات کے رویوں کے پس پشت کچھ نہ کچھ نفسیاتی اور حیاتی عوامل تو ہوں گے
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی سیلفیاں، یا سیلف پورٹریٹ تصاویر کا مقصد اکثر کلک، کمنٹس اور لائکس کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ ماضی کی تحقیق بھی اس خیال کی توثیق کرتی ہیں
اس رپورٹ میں ہم آپ کو ان تحقیقات کی روشنی میں سیلفی لینے والوں کے بارے میں چند سائنسی حقائق بیان کریں گے
سب سے پہلے ایک تازہ تحقیق کا ذکر کرتے ہیں، جس کے مطابق: کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کہ لوگ خود نمائی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے تجربے کی اہمیت محفوظ بنانے کے لیے سیلفی لیتے ہیں
سوشل سائیکالوجیکل اینڈ پرسنلٹی سائنس جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ جو لوگ سیلفی لے کر منظر میں خود کو دکھاتے ہیں، وہ اس واقعے کی اہمیت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں
ٹیم نے مزید کہا کہ جب وہ فرسٹ پرسن فوٹوگرافی (خود تصویر لینا) کا استعمال کرتے ہیں، تو وہ منظر کی تصویر ویسے لیتے ہیں جیسا ان کو لگ رہا ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جسمانی تجربے کو دستاویزی شکل دینا چاہتے ہیں
ماضی میں امریکہ کی اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ مرکزی مصنف زیکری نیس جو اب جرمنی کی ٹوبنگن یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ اسکالر ہیں، کا کہنا ہے ”اگرچہ مقبول ثقافت میں فوٹو کھینچنے کے طریقوں پر کبھی کبھی طنز کیا جاتا ہے، لیکن ذاتی تصاویر لوگوں کو اپنے ماضی کے تجربات سے دوبارہ جڑنے اور اپنی کہانیاں بنانے میں مدد دیتی ہیں“
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر لیزا لیبی کہتی ہیں ”وہ تصاویر، جن میں آپ خود موجود ہوں، ایک لمحے کی اہمیت کو دستاویزی شکل دے سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ خودنمائی ہو“
مطالعے کے ایک حصے کے طور پر، ماہرین نے چھ تجربات کیے، جن میں دو ہزار ایک سو تیرہ افراد شامل تھے
ایک تجربے میں، شرکا کو ایک ایسا منظر نامہ پڑھنے کے لیے کہا گیا، جس میں وہ ایک تصویر لینا چاہتے ہوں، جیسا کہ کسی قریبی دوست کے ساتھ ساحل پر ایک دن گزارنا، اور تجربے کی اہمیت اور معنی خیزی کی ریٹنگ کا کہا گیا
محققین کا کہنا تھا کہ جن شرکا نے اس واقعے کے اہمیت کو جتنا زیادہ بیان کیا، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ وہ وہاں سیلفی لیں گے
ایک اور تجربے میں، شرکا نے ان تصاویر کا جائزہ لیا، جو انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹس پر لگائی تھیں
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اگر تصویر میں تجربے کے شرکا موجود ہوں تو، ان کے یہ کہنے کا زیادہ امکان ہے کہ تصویر نے انہیں اس لمحے کی اہمیت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا
دریں اثنا، محققین نے پایا کہ تصاویر جو انہوں نے خود لی ہوں، انہیں جسمانی تجربے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں
اس کے بعد ایک بار پھر سائنسدانوں نے شرکا سے کہا کہ وہ اپنی تازہ ترین انسٹاگرام پوسٹ کھولیں، جس میں ایک تصویر ان کی اپنی ہونی چاہیے
ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس اہم لمحے کی اہمیت کو محفوظ بنانا چاہ رہے ہیں یا جسمانی تجربے کو؟
پروفیسر لیبی کا کہنا تھا ”ہمیں پتہ چلا کہ اگر تصاویر لینے کے مقصد اور تصویر میں دکھائے گئے منظر میں مماثلت نہ ہو تو لوگ اپنی ان تصاویر کو زیادہ پسند نہیں کرتے“
مثال کے طور پر، اگر انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد اس لمحے کے اہمیت کو محفوظ کرنا تھا، تو وہ تصویر کو اس صورت میں زیادہ پسند کریں گے، جب وہ ساتھ تصویر میں ان کے ساتھ موجود کسی اور شخص نے لی ہو
ڈاکٹر زیکری نیس کا کہنا ہے
”اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کے فوٹو کھینچنے کے انتہائی ذاتی مقاصد بھی ہوتے ہیں۔“
ماضی کی تحقیق کیا بتاتی ہیں؟
2017 میں کی گئی ایک تحقیق میں کثرت سے سیلفی لینے کو ایم بیماری نفسیاتی بیماری ’سیلفیٹس‘ بتایا گیا تھا، اور اسے مختلف اقسام اور اسٹیجز میں تقسیم کیا گیا تھا
حالیہ چند برسوں میں سیلفی لینے کا رواج بہت زور پکڑ چکا ہے، دفاتر، پارکوں، تفریحی مقامات اور پارٹیوں میں اب لوگ موبائل فون سے اکثر اپنی تصویریں بناتے نظر آتے ہیں اور سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا عام تفریح بن چکی ہے
ماہرین نے اپنی تحقیق میں خبردار کیا تھا کہ سیلفی کے شوقین ذہنی مریض ہیں، برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق تین اقسام کی بیماری کا نام سیلفیٹس ہے
رپورٹ میں کہا گیا کہ سیلفی لینے والے خود پسند اور سوشل میڈیا پر مشہوری کے لیے سیلفیاں لیتے ہیں، کچھ منچلے تو سیلفی کے چکر میں جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں، یہ شوق کئی لوگوں کی جان بھی لے چکا ہے
ماہرین نے بتایا کہ پہلی اسٹیج پر مریض دن میں دو سے تین بار سیفلی لیتا ہے، زیادہ سے زیادہ سیلفیاں لینا اور سوشل میڈیا پر لگانا بیماری کی دوسری اسٹیج کہلاتا ہے، آخری اسٹیج پر مریض خود کو سیلفی لینے سے روک نہیں پاتا اور دن میں کئی بار سیلفی سوشل میڈیا پر لگاتا ہے
ماضی میں کی گئی اس تحقیق کے مطابق اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصاویر لینے کی عادت لوگوں کے اندر اہم لمحات کو یاد کرنے کی صلاحیت کو ختم کر کے رکھ دیتی ہے
ماہرین کے مطابق سیلفی لینے کی عادت یاداشت پر اثر انداز ہوتی ہے اور لوگ اپنی زندگی کے اہم لمحات کی بہت کم باتیں ہی یاد رکھ پاتے ہیں کیونکہ سیلفی لیتے ہوئے لوگوں کی توجہ صرف ایک خاص چیز یا منظر پر مرکوز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی یاداشت زوم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے
ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈیوڈ ویل کا کہنا ہےکہ جو لوگ کیمرا فون کا استعمال زمانے سے کرتے چلے آئے ہیں، ان ہر تین میں سے دو افراد ’’بی ڈی ڈی‘‘ یعنی ( باڈی ڈسمورفک ڈس آرڈر) کے شکار ہوتے ہیں۔ اس نفسیاتی بیماری کے باعث آدمی اپنے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس بارے میں پریشان رہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ کیوں کر بہتر اور نمایاں نظر آیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیلفی لینا فیشن یا رواج نہیں، آپ کے بیمار ذہن کی علامت ہو سکتی ہے
سیلفی کے نشے کا تشخیصی مریض
ڈینی برائون نامی برطانوی کے بارے میں کہا جارہا کہ وہ دنیا کا پہلا سیلفی کا مریض ہے۔ سیلفی کا نشہ ڈینی میں اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس کے ذہن میں خودکشی کے خیالات گھر کرنے لگے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ آہستہ آہستہ اسے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ وہ اچھی سیلفی نہیں لے سکتا۔ چنانچہ وہ دن کے دس گیارہ گھنٹے صرف اپنی سیلفی لینے پر ہی خرچ کرتا تھا۔ وہ چھے ماہ سے اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ اگر کہیں سیلفی لینی پڑ گئی تو وہ اچھی سیلفی لینے میں ناکام رہے گا۔ اس کے دن کا آغاز بستر پر سیلفی لینے سے ہوتا۔ لیکن، جب درجنوں سیلفی درست نہ ہوں تو اس کی طبیعت میں چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا اور پھر وہ عاجز آکر خودکشی کا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اس نے بعض اوقات سو سے زائد مرتبہ اچھی سیلفی لینے کی ناکام کوشش کے بعد خودکشی کی کوشش بھی کی، لیکن ہر بار اس کی ماں نے اسے بچا لیا
اس طرح کے پے در پے واقعات کے بعد اسے لندن کے مڈسلی ہسپتال میں علاج کے لئے لایا گیا، جہاں اسے او سی ڈی اور بی ڈی ڈی تشخیص کیا گیا
اس کے علاج کے دوران اس کی کائونسلنگ جاری رہی۔ ابتدا میں دس منٹ کے وقفوں سے اس کا فون اس سے لے لیا جاتا اور پھر یہ وقفہ بڑھاتے بڑھاتے تیس منٹ سے ایک گھنٹہ کردیا گیا۔ اس کے لئے تو چند منٹ اپنے فون سے دور رہنا محال تھا۔ اس لیے یہ عمل اس کیلئے بہت تکلیف دہ تھا۔ البتہ، اسے یہ احساس ہوگیا کہ اگر وہ اپنی زندگی چاہتا ہے تو اسے اپنے فون کو اپنے دور کرنا ہوگا
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے اگر ایک جانب لوگوں کا سوشل نیٹورک بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب سوشل نیٹورک سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اور جذباتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کے مطابق، جو لوگ نرگسیت کے شکار ہوتے ہیں، وہ سیلفی کے جنون میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں یا جن لوگوں کی خودتوقیری (سیلف ایسٹیم) کم ہوتی ہے، وہ سیلفی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ کبھی بڑے ہوٹل چلے جائیں تو فوراً سیلفی لے کر اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر شیئر کریں گے۔ لیکن، جو لوگ آئے دن ان ہوٹلوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، کیا وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے خاص کر اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کھانوں کی، مختلف لوگوں سے ملاقات کی، مختلف پروگراموں کی سیلفیاں شیئر کرتے پھرتے ہیں۔ یہ سیلفیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ آپ اپنے مقام سے بڑھ کر کچھ کھا رہے، کسی سے مل رہے یا کسی پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں۔