انڈین فلموں کے ہیرو شیام کے پاکستانی بچے کون اور کہاں ہیں؟

سید صفدر گردیزی

ماضی کے مقبول ہندوستانی فلم اسٹار شیام سندر چڈھا 25 اپریل 1951 کو فلم کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر فوت ہوگئے تھے۔
پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شیام کے تذکرے کی وجہ 72 برس بعد بھی ان کی خاندانی زندگی کی کسی فلمی کہانی سے حیرت انگیز مماثلت ہے۔
کچھ عرصہ قبل شیام سندر چڈھا کی ذاتی اور خاندانی زندگی سے واقفیت سے منکشف ہوا کہ ان کی بیٹی پاکستان کی صف اول کی ٹیلی وژن اداکارہ ہے

ماضی کے انڈین ہیرو اور پاکستانی فنکار خاندان کا اتنا قریبی رشتہ گمنامی میں کیوں رہا ہے؟ اس سوال کا جواب اور اس کی تفصیلات اور وجوہات کے بارے میں جاننے کا تجسس مجھے سیاسیات کے مشہور پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد تک لے گیا۔ سویڈن میں مقیم پاکستانی مصنف اور محقق ڈاکٹر اشتیاق احمد نے 2012 میں اپنے کالم میں شیام کے پاکستانی بیٹے اور بیٹی کا ذکر کیا تھا، جس پر دہلی میں مقیم شیام کے بھتیجے بمل چڈھا نے ان سے رابطہ کرکے اپنے تایا کے بچوں سے رابطے کی خواہش ظاہر کی۔ تقریبا دس برس قبل ڈاکٹر اشتیاق کی دونوں خاندانوں میں ربط و تعلق بحال کروانے کی کوشش بارآور نہ ہو سکی

اب اردو نیوز کی جانب سے سرحد کے دونوں طرف انسانی دلچسپی کی اس کہانی کی جانکاری اور رابطہ کاری کے بعد دونوں خاندانوں کی تیسری نسل نے ٹوٹے رابطوں کی بحالی پر آمادگی ظاہر کی ہے

شیام کی بیٹی اور ان کا خاوند پاکستانی ڈرامہ کی مقبول فنکار جوڑی سمجھی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کینیڈا میں مقیم ان کے بیٹے کی ایک فلم ماضی میں آسکر کے لیے بھی نامزد ہو چکی ہے۔
آپ یہاں ان کے نام جاننے کے تجسس کو تھوڑی دیر کے لیے روک کر پہلے شیام کی زندگی کے بارے میں جان لیں

راولپنڈی سے بمبئی کی فلمی دنیا تک

شیام کا خاندان تقسیم سے قبل راولپنڈی میں آباد تھا۔ ان کے دادا شری ہمراج چڈھا کا تعلق اس دور کی تحصیل چکوال کے علاقے روپال سے تھا۔ وہ گاؤں کے پٹواری ہونے کے ناطے علاقے کے چند پڑھے لکھے اور صاحب ثروت لوگوں میں سے تھے۔ ان کا گھر’چڈھان دی حویلی‘ کے نام سے معروف تھا۔
شیام نے فروری 1920 کو سیتارام کے ہاں جنم لیا۔ والد کی فوج میں خدمات کے باعث سیالکوٹ، کیمبل پور، ایبٹ آباد اور پشاور میں زندگی کا ابتدائی دور گزرا۔ والدہ چنن دیوی کے انتقال کے بعد سوتیلی والدہ نے پرورش کی

شیام نے راولپنڈی کے مشہور مشنری ادارے گورڈن کالج سے تعلیم پائی۔ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے صدر اور مباحثوں کی انجمن کے سرگرم رکن تھے

چکوال کے علاقے روپال میں واقع شیام کے دادا کی حویلی ’چڈھان دی حویلی‘ کے نام سے مشہور تھی

انہیں اردو کے نامور استاد تلک چند محروم سے اکتساب فیض کا موقع بھی ملا۔
اوائل جوانی میں وہ سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو گئے جس نے آنے والی زندگی میں روشن خیالی، ڈرامہ اور آرٹ سے ان کے لگاؤ کو مزید مستحکم کیا۔
شیام نے اپنی افتاد طبع کے پیش نظر تھیٹر اور فلمی دنیا کے مرکز لاہور کا رخ کیا۔ وہ زندگی سے بھرپور اور زندہ دل جوان تھے

اردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ان کی زندگی کا عکس ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’شیام بہت بلند و بانگ تھا۔ اس کی ہر بات ہر حرکت، ہر ادا اونچے سروں میں ہوتی تھی۔ اعتدال کا وہ قائل نہ تھا۔ محفل میں سنجیدگی کی ٹوپی پہن کر بیٹھنا اس کے نزدیک مسخرہ پن تھا۔‘

اپنی مردانہ وجاہت کے باعث وہ تھیٹر سے فلمی دنیا میں داخلے کے متمنی تھے۔ اس دور کے سب سے بڑے فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز نے اپنی فلموں کے لیے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ضرورت کا اشتہار دیا

شیام نے بھی درخواست جمع کروا دی۔ انٹرویو میں وہ اپنے لمبے قد کی وجہ سے مسترد کر دیے گئے۔ عجیب اتفاق تھا کہ آنے والے برسوں میں شیام نے اسی ادارے کے ساتھ متعدد فلموں میں کام کیا

ان کے لمبے قد کے بارے میں ماضی کی مشہور فلمی اداکارہ نرگس نے اپنی تحریر میں بڑا دلچسپ جملہ نقل کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’گپیں ہانکنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ کمبخت اونچا اتنا ہے کہ اسے پریم کرنا دہلی کے قطب مینار سے محبت کرنے کے برابر ہے۔‘

انہی دنوں لاہور کے مشہور سیٹھ کشوری لال نے فلم سازی کے میدان میں قدم رکھا۔ 1941 میں ان کی پنجابی فلم ’گوانڈی‘ ناکام ثابت ہوئی۔ مگر نوآموز شیام کے لیے فلمی دنیا کے دروازے کھولنے کا باعث بن گئی

مایوس کن ابتدا کے بعد ہدایتکار نجم نقوی کی فلم ’مجبور‘ کی کامیابی نے شیام کو شہرت کے زینے کی پہلی سیڑھی پہ پہنچا دیا۔ اس فلم میں شیام اور منور سلطانہ کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔

اس دور میں معروف پاکستانی فلمساز ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم کمپنی پونا میں فلم سازی میں مصروف تھی۔ اس دور کی معروف شخصیات کرشن چندر، اختر الایمان اور جوش ملیح آبادی بھی اسی ادارے سے منسلک تھے
شیام کے لیے شالیمار پکچرز میں شمولیت کے بعد من کی جیت نامی فلم مالی آسودگی اور ممبئی کی فلم نگری میں داخلے کا بہانہ بنی

اس کی کہانی اور مکالمے کرشن چندر نے لکھے تھے۔ یہیں سے ان کی کرشن چندر کے ساتھ گہری رفاقت کی ابتدا ہوئی۔ بعد میں منٹو بھی اس میں شامل ہو گئے

منٹو اور شیام کا یارانہ

شیام اور سعادت حسن منٹو میں قربت اور یارانہ تھا۔ منٹو کے لکھے ہوئے خاکوں کی کتاب گنجے فرشتے میں ’مرلی کی دھن‘ کے نام سے شیام کا پرتاثیر خاکہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے

منٹو سے ان کی دوستی کا آغاز بمبئی میں اس دور کے فلمی ہیرو مسعود پرویز کی وساطت سے ہوا۔ برصغیر کی فلمی صنعت سے وابستہ صحافیوں اور کہانی نویسوں کی صحبت میں شیام کے فنی اور فکری گوشوں میں نکھار پیدا ہوا

اس دور کے معروف فلمساز اور کہانی نویس خواجہ احمد عباس کی فلم ’آج اور کل‘ میں شیام کے مقابل نین تارا ہیروئن تھیں۔ دونوں کا آبائی علاقہ راولپنڈی تھا

شیام کی دل پھینک طبیعت اور صنف مخالف کے لیے کشش کا خاکہ کھینچتے ہوئے منٹو لکھتے ہیں کہ ’عورت دراصل اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی اور یہی اس کے کردار کا مضبوط ترین پہلو تھا۔‘

لاہور میں شیام کی ملاقات ایک مقامی روشن خیال مسلمان خاندان کی لڑکی ممتاز قریشی سے ہوئی۔ یہاں سے شیام کے طولانی عشق کا آغاز ہوا

تاجی کے نام سے معروف ممتاز اور شیام کا عشق لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کی محفلوں سے میکلوڈ روڈ کی روشوں تک پھیلا ہوا تھا۔ دونوں میں متعدد جھگڑے اور عارضی دوریاں بھی ہوئی مگر ہر بار تاجی کو شیام کے دامن الفت میں پناہ ملتی

شیام اور تاجی نے 1949 میں پونا میں شادی کر لی۔ تقسیم کے ہنگامے میں منٹو نے بمبئی کو خیر آباد کہنے کا فیصلہ کیا تو شیام نے اپنے دوست کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شیام نے تقسیم کے فسادات سے قبل اپنے خاندان کو پونا منتقل کر لیا

تقسیم کی تلخیوں کے باوجود وہ اپنے دیرینہ دوست منٹو سے رابطے میں رہتے تھے۔ 1950 میں شیام اپنی فلم ’مداری‘ کی نمائش کے لیے ایک بار پھر لاہور آئے

پنجولی سینما میں اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں انہوں نے پرجوش تقریر کی جس کے دوران شیام نے اعلان کیا کہ وہ پہلے ہندوستانی اداکار ہوں گے جو پاکستانی فلموں میں کام کے لیے لاہور آئیں گے۔
شیام کی بیٹی کون ہیں؟
شیام نے اپنی دس سالہ فلمی زندگی میں بازار، کنیز، دل لگی، رات کی کہانی، چاندنی، مینا بازار، رات تآج اور بادل نامی فلموں میں کام کیا۔
شبستان ان کی آخری فلم تھی جس کی شوٹنگ جاری تھی۔ ایک منظر میں انہیں گھوڑے پر سوار دکھایا جانا تھا۔ شوٹنگ کے دوران گھوڑا بدک گیا اور شیام نے دونوں رکابوں میں پاؤں ڈال کر اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ سر کے بل زمین پر آ گئے اور اسی چوٹ سے جانبر نہ ہو سکے

اپنے انتقال کے وقت شیام ایک سالہ بیٹی کے والد تھے۔ جب کہ ان کی وفات کے بعد تاجی نے ایک بیٹے کو جنم دیا

شوہر کے گزر جانے کے بعد ان کی اہلیہ اپنی بہن اور دونوں بچوں کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئیں

پاکستان میں انہوں نے انصاری نام کے ایک سرکاری افسر کے ساتھ دوسری شادی کر لی اور راولپنڈی میں مقیم ہو گئیں۔ ان کی بیٹی اور بیٹے نے راولپنڈی میں پرورش اور تعلیم پائی

یہ حسن اتفاق تھا کہ شیام کی بیٹی نے بھی اپنے والد کے تعلیمی ادارے گورڈن کالج سے انگریزی ادبیات میں ماسٹر ڈگری لی

یہ دور پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا سنہری وقت تھا۔ شیام کی بیٹی نے اپنے رجحان کی وجہ سے پی ٹی وی کے ڈراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اداکاری میں فطری پن، لہجے کی شائستگی اور کردار میں جان ڈال دینے والے انداز کی وجہ سے وہ صف اول کی اداکارہ بن گئیں۔
اپنے ساتھی اداکار سے شادی کے بعد یہ جوڑا پی ٹی وی ڈراموں کی اداکاری اور ہدایتکاری کی پہچان بن گیا۔ جن کے تعارف کو صرف ’دھوپ کنارے‘ کا نام ہی کافی ہے

اب شاید یہ بتانے کی ضرورت نہ ہو کہ ہم سائرہ کاظمی کا ذکر کرنا چاہتے تھے۔ راحت کاظمی سے شادی کے بعد سائرہ انصاری سے سائرہ کاظمی کہلانے والی بے مثال اداکارہ کے خاندانی پس منظر کے بارے میں شاید بہت کم تذکرہ کیا گیا ہو

ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ انہوں نے 2010 میں شیام کے بھائی ہربنس چڈھا کے بیٹے بمل چڈھا کی دعوت پر ان کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے شیام کے نوے سالہ بھائی سے بھی ملاقات کی تھی

وہ دونوں باپ بیٹا شیام کے بچوں سے رابطہ کرنا چاہتے تھے اور شیام کی چھوڑی وراثت ان کے بچوں کے حوالہ کرنے پر بھی آمادہ تھے

ڈاکٹر اشتیاق کے بقول انہوں نے سائرہ کاظمی کے انگلینڈ میں مقیم ڈاکٹر بھائی شاکر سے ای میل پر رابطہ کیا، جس کا ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اسی طرح سائرہ کاظمی سے بالواسطہ رابطہ کر کے انہیں اپنے چچا زاد رشتہ داروں کا پیغام پہنچایا۔ مگر انہوں نے بھی کوئی مثبت جواب نہ دیا

شیام کی زندگی پر کتاب کا باب ان کا نواسہ لکھے گا؟

شیام کے بھائی کے انتقال کے بعد دہلی میں مقیم ان کے بھتیجے بمل چڈھا نے اپنے چچا کی زندگی پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ برسوں کی محنت کے بعد کتاب کا مسودہ آخری مراحل میں تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا

ان کے پینتالیس سالہ آرکیٹیکٹ بیٹے اکشے چڈھا کو اپنے والد کی زندگی میں اس کہانی سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ مگر فروری 2021 میں اپنے والد کی موت کے بعد وہ نا صرف نامکمل کتاب کی تکمیل اور اشاعت کے خواہشمند ہیں بلکہ پاکستان میں اپنے دادا کے بھائی کے وارثوں سے رابطے کے متمنی بھی ہیں

دہلی سے خصوصی گفتگو میں اکشے نے بتایا کہ ان کے دادا اور والد پاکستان آنے اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے خواہشمند تھے۔ ان کی اپنی والدہ راولپنڈی کی رہنے والی ہیں

’میرے والد ساری عمر راولپنڈی دیکھنے کی خواہش کرتے رہے۔ اب میری والدہ کی آخری خواہش ہے کہ وہ اپنا آبائی علاقہ دیکھ سکیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے شیام کے بیٹے شاکر سے بھی رابطہ کیا تھا۔ دونوں کے درمیان ای میلز کا تبادلہ بھی ہوا مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی طرح انہوں نے سائرہ کاظمی صاحبہ سے رابطہ کرنا چاھا مگر کامیابی نہ ہو سکی

شیام کی زندگی اور کام پر کتاب کا 90 فیصد کام بمل چڈھا نے کیا تھا ۔اب ان کے بیٹے اس کی تکمیل و اشاعت کے لیے فکر مند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کتاب کے مواد اور اشاعت کے بارے میں نامور بھارتی شاعر گلزار اور پاکستان میں منٹو کے خاندان سے بھی رابطہ کر رہے ہیں

اکشے کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ کتاب نہ صرف انڈیا بلکہ پاکستان میں بھی شائع ہو ’میری خواہش ہے کہ آنٹی سائرہ یا ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد اس کتاب کا ایک باب لکھے اور ہم اسے کتاب کا حصہ بنائیں۔‘ اکشے چڈھا نے ہمارے ساتھ گفتگو میں اپنی خواہش کا اظہار کیا

سائرہ اور راحت کاظمی کے بیٹے علی کاظمی پاکستانی نژاد کینیڈین اداکار ہیں۔ وہ ٹورنٹو میں ساؤتھ ایشین سٹوریز کو پیش کرنے والے مقامی تھیٹر کے صف اول کے فنکار بھی ہیں۔ چند برس قبل ان کی فلم ’فنی بوائے‘ کو آسکر ایوارڈ کی نامزدگی کا اعزاز بھی ملا تھا

اردو نیوز نے علی کاظمی سے رابطہ کر کے انہیں سرحد پار ان کے رشتہ دار خاندان کی خواہش سے آگاہ کیا۔ علی کاظمی کا کہنا تھا کہ میں 14 برس کا تھا جب مجھے یہ علم ہوا کہ میرے نانا بھارتی فلم انڈسٹری کے ایک بڑے فنکار تھے۔ میرے لیے یہ خبر حیرت اور پریشانی کا باعث تھی۔ بعد میں جب میں نے دلیپ کمار کی زبانی ان کا ذکر سنا تو مجھے شیام صاحب کا نواسہ ہونے پر فخر محسوس ہوا

علی کاظمی کہتے ہیں ’شیام صاحب نہ صرف بہت اعلٰی اداکار تھے بلکہ وہ بہت بڑے انسان بھی تھے۔ جو انسانیت پر یقین رکھنے اور مذہبی اور علاقائی تعصب سے آزاد ھو۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہندو ہو کر ایک مسلمان عورت سے شادی کی۔

علی کاظمی کے مطابق انہوں نے نانا کا ذکر اپنی نانی کی زبانی سنا ہے۔ وہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا کرتی تھی

ہندوستان میں اپنے خاندان کے دوسرے حصے سے رابطے کے سوال پر علی کاظمی کا کہنا تھا کہ شیام نانا کے انتقال کے بعد ان کی نانی کے ساتھ ان لوگوں کا رویہ اچھا نہ تھا۔ انہیں اپنے حصے کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑی۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد جب ان کے بچے کافی بڑے ہو گئے تو انہیں اپنا حصہ ملا۔
’میرے نزدیک میرے نانا کے خاندان سے محبت کی اگر کوئی وجہ نہ بھی ہو تو نفرت کی بھی کوئی وجہ نہیں۔‘

اردو نیوز نے علی کاظمی کو اکشے کی خواہش سے آگاہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ دونوں خاندانوں کی اگلی نسل میں ضرور رابطہ ہونا چاہیے۔ انہیں کینیڈا میں اس خاندان کی ایک خاتون نے بھی رابطہ کیا تھا

علی کاظمی نے اپنے نانا کی زندگی پر کتاب کا ایک باب لکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے اسے اپنے لیے فخر کا باعث قرار دیا۔ انہوں نے انڈیا میں موجود اکشے چڈھا سے رابطہ اور ملاقات کے بارے میں بھی مثبت رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے تعاون پر آمادگی کا اشارہ دیا

برصغیر کی فلموں میں خاندان کے افراد کا بچھڑنا اور کسی حادثے کے نتیجے میں پھر سے ملنا عام سی بات ہے۔ مگر حقیقی زندگی میں یہ فلم جیسی کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے

اگر شیام کی زندگی پر کتاب کا آخری باب ان کا نواسا لکھے گا تو شاید دو خاندانوں میں دوری کی یہ نامکمل کہانی کا اختتام فلم جیسا ہی ہو۔ یعنی بچھڑنے کے بعد دوبارہ ملنا۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close