امریکی ریاست کیلیفورنیا کی زوِیکی فیسیلیٹی میں سن 2020 میں ایک بہت بڑا خلائی فلیش یا روشن دھماکہ حادثاتی طور پر ریکارڈ ہو گیا تھا۔ اب خلائی ماہرین نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ یہ خلائی فلیش آج تک ریکارڈ شدہ سب سے بڑا اور روشن دھماکہ تھا
واضح رہے کہ ایک لامحدود چکا چوند جیسا یہ فلیش خلا میں از خود ریکارڈ ہو گیا تھا اور ماہرین فلکیات کو اس کا علم ایک سال بعد ڈیٹا کا جائزہ لیتے ہوئے ہوا تھا۔ اب ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کی ایک تازہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ فلیش دراصل اب تک خلا میں ریکارڈ ہونے والا سب سے بڑا دھماکہ تھا
ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے فلکیاتی ماہرین کی ایک ٹیم خلا میں 2020ء میں ہونے والے اس دھماکے سے متعلق اب جس نتیجے پر پہنچی ہے، اس کے مطابق ”یہ روشن ترین خلائی دھماکہ اس سے قبل ریکارڈ کردہ انتہائی روشن ‘سپر نووا‘ دھماکے کی روشنی سے بھی دس گنا زیادہ روشن تھا“
ماہرین کا خیال ہے کہ ایک خلائی طبیعیاتی عمل کے طور پر یہ بہت بڑا cosmic explosion ایک بلیک ہول کی طرف سے گیس کے ایک بہت بڑے بادل کے نگلے جانے کے باعث ممکن ہوا
یہ خلائی عمل کیسے ریکارڈ ہوا؟
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں زوِیکی ٹرانزیئنٹ فیسیلیٹی (ZTF) کے فلکیاتی ماہرین کے مطابق اس خلائی فلیش کے 2020ء میں حادثاتی طور پر ریکارڈ ہو جانے کے ایک سال بعد جب انہیں ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے AT2021WX کا نام دیا تھا
اس فلیش کی شناخت امریکی ریاست ہوائی میں واقع Asteroid Terrestrial-impact Last Alert System نامی نظام نے بھی کر لی تھی۔ کیلیفورنیا اور ہوائی کی امریکی ریاستوں میں فعال یہ دونوں مشاہداتی نظام رات کے وقت آسمان پر ہونے والے غیر معمولی واقعات کی شناخت اور انہیں ریکارڈ کرنے کا کام کرتے ہیں
زیڈ ٹی ایف کے ماہرین کے مطابق انہیں ابتدا میں اس دھماکے کے غیر معمولی واقعہ ہونے کا اندازہ تو تھا تاہم ایسے خلائی دھماکے اکثر رجسٹر ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاﹰ 2022ء میں ماہرین نے ’گیما برسٹ‘ کے باعث ہونے والا ایک بڑا خلائی دھماکہ بھی ریکارڈ کیا تھا، جسے A900122BRG کا نام دیا گیا تھا
یہ خلائی واقعہ حالیہ تحقیق سے سامنے آنے والے دھماکے سے زیادہ روشن تو تھا لیکن اس کا دورانیہ محض دس گھنٹے تھا۔ اس کے برعکس اب جس نئے دھماکے کی تصدیق ہوئی ہے، اس کا دورانیہ لگ بھگ تین سال تھا۔ یہ خلا میں کسی بھی روشن دھماکے کی انتہائی غیر معمولی طوالت ہے
اس خلائی عمل کے خاص پہلو
ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ٹیم نے ڈاکٹر فیلپ وائزمین کی سربراہی میں اس ایونٹ سے حاصل شدہ روشنی کے اسپیکٹرم (Spectrum) کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ڈاکٹر وائزمین کے مطابق ”ابتدائی تجزیہ ہی انتہائی حیران کن تھا کیونکہ سائنسدانوں نے اب تک زیادہ تر صرف سپرنووا دھماکے ہی ریکارڈ کیے تھے۔“
ان کے باعث پیدا شدہ روشنی کے فلیشز کا دورانیہ چند گھنٹوں سے چند مہینوں تک بھی ہوتا تھا لیکن اس فلیش کا اب تک ریکارڈ شدہ دورانیہ تین سال بنتا ہے
ڈاکٹر وائزمین بتاتے ہیں ”سپرنووا دھماکے عموماً چند ماہ کے لیے ہی واضح طور پر روشن ہوتے ہیں مگر زوِیکی ٹرانزیئنٹ فیسیلیٹی میں ریکارڈ شدہ دھماکہ تو کسی سپرنووا دھماکے سے بھی تین گنا زیادہ روشن تھا۔“
سپرنووا دھماکہ کسی ستارے کے پھٹنے کے اس عمل کو کہتے ہیں، جو کئی اقسام کا ہو سکتا ہے
دھماکے کا محلِ وقوع
ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فیلپ وائزمین کا کہنا ہے کہ فلیش اسپیکٹرم کے تجزیے سے پتہ چلا کہ یہ زمین سے آٹھ بلین نوری سال کے فاصلے پر تھا اور جس وقت خلا میں یہ دھماکہ ہوا، تب ہماری کائنات کی عمر محض چھ بلین سال تھی
اس ایونٹ کا زمین سے فاصلہ معلوم کر کے فیلپ وائزمین کی ٹیم نے اس دھماکے کی روشنی کی شدت سے متعلق جو اعداد و شمار اخذ کیے، وہ بھی انتہائی غیر معمولی تھے۔ ڈاکٹر وائزمین نے بتایا کہ آج تک ریکارڈ شدہ اور اتنی زیادہ روشن شے صرف ایک سپر میسیو بلیک ہول (supermassive black hole) ہی ہو سکتا ہے، جو کہ بلیک ہول کی سب سے بڑی قسم کو کہتے ہیں
ڈاکٹر وائزمین نے بتایا ”دستیاب ڈیٹا سے یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ یہ روشن دھماکہ گیس کے کسی بہت بڑے بادل کے کسی بلیک ہول کی طرف سے نگلے جانے کے نتیجے میں ہوا ہوگا۔ اس لیے کہ جب کوئی بلیک ہول ہائیڈروجن گیس کے کسی ایسے بادل یا سٹیلر ڈسٹ (stellar dust) کو نگلتا ہے، جو اس میں انتہائی تیز رفتاری سے داخل ہو رہا ہو، تو یوں وہ بلیک ہول غیر امکانی حد تک روشن فلیش خارج کرتا ہے۔“
اصطلاحاً اس طرح کے فلکیاتی فلیش کو ‘کواسار‘ (quasar) کہتے ہیں
کہکشاؤں کے مراکز بدلنےکے عمل کا سراغ
ڈاکٹر فیلپ وائزمین کے مطابق ”یعں تو ’کواسارز‘ پر تحقیق جاری رہتی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی کے ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ فلکیاتی ماہرین کبھی کسی اتنی روشن شے کو ریکارڈ نہیں کر سکے۔ اس لیے کہ اس طرح کے واقعات انتہائی غیر معمولی اہمیت کے حامل اور بہت ہی نایاب ہوتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان پر مزید تحقیق کر کے ماہرین یہ پتہ چلا سکیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کہکشاؤں کے مراکز کس طرح بدلتے رہتے ہیں“
فیلپ وائزمین اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق رائل ایسٹرونامیکل جرنل کے اپریل سے جولائی تک کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہوئی ہے۔ اس ٹیم کو امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں نئی ویرا رُوبن آبزرویٹری کے ذریعے ایسے مزید واقعات کا کھوج لگایا جا سکے گا
ساتھ ہی فلکیاتی ماہرین جدید ترین کمپیوٹر ماڈلز اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کریں گے کہ آیا اس روشن دھماکے سے متعلق محققین کا پیش کردہ بلیک ہول اور گیس کے عظیم الجثہ بادلوں کا نظریہ درست ہے۔