پاکستان تحریکِ انصاف کی اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے حال ہی میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو بھی خیرباد کہہ دیا
شیریں مزاری رواں ماہ عمران خان کی اسلام آباد سے ہونے والی گرفتاری کے ردِعمل میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد گرفتار ہونے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں میں شامل تھیں اور گذشتہ چند روز کے دوران انھیں متعدد بار عدالتی احکامات پر رہا کیا جاتا رہا، تاہم ہر بار انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا
بار بار گرفتاریوں کے اسی تسلسل کے دوران شیریں مزاری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ’وقتی طور پر سیاست سے کنارہ کشی اور پی ٹی آئی چھوڑنے‘ کا اعلان کیا
اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ ان کی ’صحت اس بار بار اغوا اور رہائی کے دوران خراب ہو گئی۔ ان کی بیٹی اور خاندان والوں نے بہت مشکل وقت گزارا۔۔۔ میری ترجیح میری بیٹی اور والدہ ہیں۔‘
شیریں مزاری سے پہلے اور بعد میں بھی پی ٹی آئی کے کئی رہنماوں اور کارکنان نے جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کیا اور اس کا سلسلہ تاحال جاری ہے، تاہم سابق وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کے پی ٹی آئی سے انخلا کو جماعت کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
خیال رہے کہ شیریں مزاری خود کبھی انتخابی سیاست کا حصہ نہیں رہیں۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی ممبر بنیں، تاہم دونوں مرتبہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں
وہ پی ٹی آئی کے بانی ممبران میں بھی شمار نہیں ہوتیں۔ انھوں نے عمران خان کی جماعت کو سنہ 2008 میں اپنایا
ایسے میں وہ پی ٹی آئی کے لیے اہم کیسے اور کیوں بنیں؟ اس کے لیے شیریں مزاری کی زندگی اور پاکستان کی حالیہ سیاست میں ان کے کردار پر ایک نظر ڈالتے ہیں
شیریں مزاری کون ہیں؟
شیریں مہرالنسا مزاری کا تعلق بنیادی طور پر صوبہ پنجاب کے علاقے روجھان کے بااثر مزاری خاندان سے ہے۔ ان کے والد اور والدہ دونوں سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی ماجد نظامی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کے والد عاشق مزاری سابق بیوروکریٹ تھے جو پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نامی ایک ادارے کے سربراہ بھی رہے
انھوں نے بتایا ’سرکاری نوکری سے رٹائرمنٹ لینے کے بعد انھوں نے سنہ 1985 کے غیر جماعتی عام انتخابات میں حصہ لیا تاہم کامیاب نہیں ہو سکے لیکن ان کی اہلیہ درِ شہوار مزاری مجلسِ شورٰی کی ممبر بننے میں کامیاب ہو گئیں
’عاشق مزاری نے دوبارہ سنہ 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے عام انتخابات جیت کر قومی اسمبلی میں نشست حاصل کی۔‘
ماجد نظامی بتاتے ہیں کہ شیریں مزاری کے بھائی ولی مزاری بھی مقامی سطح پر سیاست میں متحرک رہے تاہم ان کے خاندان سے روجھان کی سیاست میں زیادہ اہم کردار ان کے بہنوئی شوکت مزاری کا تھا۔ ’وہ تین چار مرتبہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور اسمبلی کے ڈپٹی سیکریٹری بھی رہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ شیریں مزاری کا تعلق روجھان سے ہے تاہم ان کا زیادہ تر وقت اس آبائی علاقے سے باہر گزرا
وہ تعلیم کے سلسلے میں پہلے لندن چلی گئیں، جہاں انھوں نے لندن سکول آف اکنامکس سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور یہاں سے وہ امریکہ چلی گئیں۔ امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے انھوں نے ماسٹرز، اس کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں
’قائداعظم یونیورسٹی میں بہت سے فوج کے اعلٰی افسران ڈاکٹر شیریں مزاری کے شاگرد بنے‘
پروفیسر طاہر نعیم ملک سیاسی تجزیہ کار ہیں، جو خود بھی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں
وہ بتاتے ہیں کہ شیریں مزاری تعلیم حاصل کر کے جب پاکستان واپس آئیں تو انھوں نے اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے میں ملازمت اختیار کی
وہ ڈیفینس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے شعبے میں اسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ’ان دنوں میں پاکستان کی افواج کے کئی افسران کو قومی سلامتی اور سٹریٹیجی کے حوالے سے تعلیم اور آگاہی کے لیے قائداعظم یونیورسٹی کے ڈی ایس ایس شعبے میں بھیجا جاتا تھا۔ یہیں سے بہت سے فوج کے اعلٰی افسران ڈاکٹر شیریں مزاری کے شاگرد بنے۔‘
ڈاکٹر شیریں مزاری اسی شعبے کی سربراہ بھی بنیں۔ طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ قائداعظم یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران شیریں مزاری یونیورسٹی کی سیاست میں بھی متحرک رہیں۔ وہ اکیڈیمک سٹاف اسوسی ایشن کی پہلے سیکریٹری اور پھر صدر منتخب ہوئیں۔ طاہر نعیم ملک کے مطابق ’ڈاکٹر شیریں مزاری نے انتخابی سیاست کا رخ نہیں کیا تاہم انھوں نے اسلام آباد کے بااثر حلقوں میں اپنی جگہ بنائی‘
طاہر نعیم ملک کے خیال میں ’ڈاکٹر شیریں مزاری پاکستان کی قومی سلامتی، ایٹمی اثاثوں اور قومی مفادات کے موضوعات پر الٹرا نیشنلسٹ یعنی انتہائی قوم پرست سوچ رکھتی تھیں‘
انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے یونیورسٹی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ حاصل کرنے کے بعد سنہ 1993 میں سینیٹر مشاہد حسین سید اور دیگر ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ہفت روزہ جریدے ’پلس‘ کی بنیاد رکھی اور اس کی ایڈیٹر ان چیف رہیں۔ وہ خود پاکستان کے نمایاں انگریزی اخبارات میں باقاعدگی سے کالم بھی لکھتی رہیں
طاہر نعیم ملک کے مطابق سنہ 1999 میں کارگل کی جنگ کے موقع پر ان کی اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی انتظامیہ سے اختلافات ہوئے۔ ’اس معاملے پر بھی وہ انتہائی قوم پرست بیانیے کی حامی بن کر سامنے آئیں تھیں۔ اس حوالے سے بعد ازاں انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی‘
اس کے بعد ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد یعنی آئی ایس ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ تنویر احمد خان کو ہٹا کر شیریں مزاری کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا
انھی برسوں میں شیریں مزاری پاکستان کے سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر ’کشمیر ڈیٹ لائن‘ کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتی رہیں
قومی سطح کی صحافت اور تنازعات
ڈاکٹر شیریں مزاری سنہ 2009 میں پاکستان کے قومی سطح کے انگریزی اخبار دی نیشن کی ایڈیٹر بنیں۔ دی نیشن کی ایڈیٹر کے طور پر ڈاکٹر شیریں مزاری کو اس وقت پاکستان کے اندر اور باہر سے کئی صحافتی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے اخبار نے سنہ 2009 میں امریکی جریدے ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے پاکستان میں کام کرنے والے صحافی میتھیو روزنبرگ کے خلاف ایک خبر سرورق پر شائع کی
اس خبر میں پاکستانی خفیہ اداروں کے ذرائع کے حوالے سے وال سٹریٹ جرنل کے صحافی پر پاکستان میں جاسوسی کرنے کے الزامات لگائے گئے اور پہلے صفحے پر نمایاں طور پر چھپنے والی اس خبر کے ساتھ ان کی تصویر بھی شائع کی گئی
اس پر وال اسٹریٹ جرنل نے دی نیشن کو ایک خط لکھا، جس میں اس بارے میں سخت احتجاج کیا گیا۔ صحافتی تنظیموں نے دی نیشن اور اس وقت کی ایڈیٹر شیریں مزاری کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان کے اخبار کی خبر ’صحافتی اقدار کے منافی‘ تھی جس نے نہ صرف وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی کے لیے پاکستان میں مزید کام کرنے کے امکانات کو ختم کر دیا بلکہ ان کی جان کو بھی خطرے میں ڈالا
تاہم شیریں مزاری تمام تر تنقید کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم رہیں
’غصے کی تیز تھیں لیکن اپنے رپورٹر کے ساتھ کھڑی ہوتیں‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ابرار سعید اس دور میں دی نیشن میں بطورِ رپورٹر ڈاکٹر شیریں مزاری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’شیریں مزاری غصے کی ذرا تیز تھیں لیکن ایک اچھی ایڈیٹر تھیں جو اپنے رپورٹر کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں‘
وہ کہتے ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ شیریں مزاری کے دور میں ان کے ادارے نے اس وقت ’بلیک واٹر‘ نامی ایک امریکی دفاعی کنٹریکٹر ایجنسی کے حوالے سے بہت خبریں شائع کیں
خیال رہے کہ بلیک واٹر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کنٹریکٹر ایجنسی افغنستان میں امریکی فوج کی معاونت میں کام کر رہی تھی
’ان دنوں میں بعض خبروں کے حوالے سے بہت دباؤ بھی آتا تھا لیکن شیریں مزاری اس دباؤ کا سامنا خود کرتی تھیں اور اپنے رپورٹر کے ساتھ کھڑی ہو جاتی تھیں
’اس معاملے میں وہ بہت معاون ہوتی تھیں۔ اسی طرح کی میری ایک خبر پر وہ میرے ساتھ کھڑی ہو گئی تھیں۔‘
کام سے ہٹ کر ابرار سعید کو یاد ہے کہ شیریں مزاری بہت فراغ دل بھی تھیں۔ ’وہ پورے سٹاف کے لیے کھانا منگوا لیا کرتی تھیں۔‘
وہ کہتے ہیں شیریں مزاری نے اخبار کے ’لے آؤٹ‘ یا شکل میں جو تبدیلیاں کیں وہ سٹاف سمیت بہت سے لوگوں کو زیادہ پسند نہیں آئی تھیں تاہم ’ادارے کی اپنی ایک مضبوط ایڈیٹوریل پالیسی تھی جسے کوئی ردوبدل نہیں کر سکتی تھیں۔‘
صحافی ابرار سعید کہتے ہیں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرف سے سیاست سے کنارہ کشی کے حالیہ اعلان پر انھیں دکھ بھی ہوا اور حیرت بھی ہوئی تھی۔ ’کیونکہ ان کے بااثر حلقوں میں بہت گہرے تعلقات ہیں۔ بہت سے فوجی جرنیل ان کے شاگرد ہیں اور وہ خود بھی بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہیں‘
سیاست میں انٹری اور پی ٹی آئی میں شمولیت
ڈاکٹر شیریں مزاری نے سنہ 2008 میں باضابطہ طور پر پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی جہاں سے پارلیمانی سیاست میں ان کے سفر کا آغاز ہوا
ان کو جماعت کی انفارمیشن سیکریٹری اور ترجمان مقرر کیا گیا۔ چند روز قبل جماعت چھوڑنے سے قبل وہ پی ٹی آئی کی سینیئر نائب صدر کے طور پر کام کر رہی تھیں
پروفیسر طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ جب شیریں مزاری نے پاکستان تحریکِ انصاف میں باضابطہ طور پر شمولیت کا اعلان کیا تو انھیں حیرت نہیں ہوئی ’کیونکہ اس وقت کی پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کی سوچ اور شیریں مزاری کے خیالات باہم مطابقت رکھتے تھے
’اس وقت بھی ڈرون حملوں اور امریکی مداخلت وغیرہ کے معاملات پر دونوں کے خیالات لگ بھگ ایک جیسے تھے‘
ان کے خیال میں ڈاکٹر شیریں مزاری کا اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونا ان کے لیے ایک فطری سا عمل تھا۔ ابتدا ہی سے شیریں مزاری نے پی ٹی آئی میں اپنی جگہ بنائے رکھی
تاہم صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ سنہ 2012 میں ایک موقعے پر شیریں مزاری نے قیادت کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا تھا
’ان ہی دنوں میں انھیں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے حامیوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جس پر ان کی صاحبزادی ایمان مزاری خاص طور پر بہت نالاں ہوئی تھیں‘
تاہم اختلافات دور ہونے کے بعد شیریں مزاری نے دوبارہ سنہ 2013 میں پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔ عام انتخابات کے بعد وہ پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئی تھیں
’وہ اندھے اعتقاد کی سیاست میں ایک سمجھدار آواز بھی تھیں‘
پروفیسر طاہر نعیم ملک سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف میں شیریں مزاری کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ وہ وزیر تھیں جو کہ کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھتی تھیں اور وہاں وہ بہت سے موضوعات پر فیصلوں کی مخالفت بھی کرتی نظر آتی تھیں
’پی ٹی آئی ویسے تو ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس میں جذبات یا اندھی تقلید زیادہ پائی جاتی ہے۔ شیریں مزاری کے حوالے سے جو خبریں سامنے آتی تھیں تو ان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کابینہ میں بعض معاملات پر اختلافی آواز ہوتی تھیں اور کئی ایسے معاملات پر کابینہ کے دیگر ممبران سے اختلاف بھی کرتی نظر آتی تھیں‘
طاہر نعیم ملک کہتے ہیں شیریں مزاری خود دانشور تھیں اور تدریس کے شعبے سے آئی تھیں تو ان کے اندر یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ ’اختلاف اور تکثیریت (پلورل ازم) کو برداشت بھی کرتی تھیں اور اس کی ترویج بھی کرتی تھیں۔‘
ان کے خیال میں اس قسم کے لوگوں کی پاکستان کی سیاست کو ضرورت ہے اور انھیں پاکستان کی سیاست میں رہنا چاہیے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)