ایلون مسک کی کمپنی نیورا لنک امریکی حکام سے اجازت ملنے کے بعد انسانی دماغ میں چپ لگانے کا تجربہ کر سکے گی۔ مسک نابینا پن اور فالج جیسے امراض کے علاج کے لیے بھی اس ٹیکنالوجی کے استعمال کا عزم رکھتے ہیں۔
امریکی ارب پتی ایلون مسک کی برین امپلانٹ کمپنی نیورا لنک نے کہا ہے کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اُسے اپنا پہلا انسانی تجربہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس کمپنی کی جدید ترین ایجاد ایک ایسی چپ ہے، جسے انسانی دماغ میں نصب کرنے کے بعد کمپیوٹر سے جوڑ کر دماغ کی گہرائیوں سے معلومات اور یادوں کو ڈاؤنلوڈ کیا جا سکے گا
ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق نیورا لنک نے ایک ایسا نیورل امپلانٹ تیار کیا ہے، جو بغیر کسی بیرونی ہارڈویئر کے دماغ کے اندر چل رہی سرگرمی کو وائرلیس ٹیکنالوجی کے ذریعے براڈ کاسٹ کر سکتا ہے
اس کمپنی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں منظوری کے اس عمل کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ نیورا لنک ایسی چپس تیار کرنا چاہتی ہے، جسے کمپیوٹر سے جوڑ کر دماغ کی گہرائیوں سے معلومات اور یادوں کو ڈاؤنلوڈ کیا جا سکے۔ ایلون مسک نابینا پن اور فالج جیسے امراض کے علاج کے لیے بھی اس ٹیکنالوجی کے استعمال کا عزم رکھتے ہیں
ایک انٹرویو کے دوران ایلون مسک نے بتایا کہ بندروں کے دماغ میں چپ نصب کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ بندروں پر تجربہ کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ یہ تکنیک محفوظ اور قابل اعتماد ہے
انہوں نے بتایا کہ نیورا لنک ڈیوائس کو محفوظ طریقہ سے لگایا اور ہٹایا جا سکتا ہے
نیورالنک کے مطابق کلینیکل ٹرائل کے لیے بھرتی ابھی شروع نہیں کی گئی۔ ایلون مسک نے دسمبر میں سٹارٹ اپ کی جانب سے ایک پریزنٹیشن کے دوران کہا تھا کہ نیورالنک امپلانٹس کا مقصد انسانی دماغوں کو کمپیوٹر کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے قابل بنانا ہے
انہوں نے اُس وقت کہا تھا ’ہم اپنے پہلے انسانی (امپلانٹ) کی تیاری کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ ہم کسی انسان میں ڈیوائس لگانے سے پہلے انتہائی محتاط رہنا چاہتے ہیں کہ یہ اچھی طرح کام کرے گا‘
مختلف تجربات کے ذریعے نیورالنک پروٹوٹائپ بندروں کے دماغ میں لگایا جا چکا ہے اور اس کی ساخت ایک سکے جتنی ہے
نیورالنک کی پریزنٹیشن میں دکھایا گیا کہ ایسے بندر اپنے ’امپلانٹ‘ کے ذریعے ویڈیو گیمز ’کھیل‘ رہے ہیں اور سکرین پر کرسر کو گھما رہے ہیں
اس ٹیکنالوجی کو سُور میں بھی آزمایا گیا ہے۔ ایک ابتدائی تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سرجیکل روبوٹ کی مدد سے کھوپڑی کا ایک ٹکڑا نیورالنک ڈسک سے تبدیل کیا جاتا ہے، اور اس کے تاروں کو دماغ میں داخل کیا جاتا ہے
ایلون مسک کے مطابق ڈسک اعصابی سرگرمی کو رجسٹر کرتی ہے، جیسے عام بلوٹوتھ ڈیوائس وائرلیس سگنل کے ذریعے معلومات کو سمارٹ فون تک پہنچاتی ہے
مسک کا کہنا تھا کہ یہ دراصل آپ کی کھوپڑی میں کافی اچھی طرح سے فٹ بیٹھتا ہے۔ ’یہ آپ کے بالوں کے نیچے ہو سکتا ہے اور آپ کو معلوم نہیں ہوگا۔‘
سائنسی کوششیں
مختلف کمپنیوں کے سائنس دان دماغ کے لیے مصنوعی ذہانت تیار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ریڑھ کی ہڈی کی شدید چوٹ والے افراد دماغی لہروں کا استعمال کرتے ہوئے بات یا ٹائپ کر سکیں
2019ء کے بعد سے کم از کم چار مواقعوں پر مسک نے پیش گوئی کی ہے کہ ان کی میڈیکل ڈیوائس کمپنی جلد ہی فالج اور اندھے پن جیسے پیچیدہ امراض کے لیے دماغی امپلانٹس کے انسانی تجربات شروع کر دے گی
تاہم 2016 ء میں قائم ہونے والی اس کمپنی نے 2022 ء کے اوائل تک اس ڈیوائس کے انسانوں پر تجربے کے لیے منظوری حاصل نہیں کی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس چپس کے انسانی دماغ پر تجربے یا میڈیکل ٹرائلز کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے۔