اسرائیل-امارات معاہدہ: پاکستان اور بھارت پر اثرات

ویب ڈیسک

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان گزشتہ دنوں ہونے والے معاہدے کے بعد ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے. معاہدے میں طے پایا تھا کہ دونوں ممالک سفارتی تعلقات قائم کریں گے، عرب امارات دوسرے مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے قائل کرے گا، جب کہ اسرائیل مغربی کنارے کے بڑے حصوں کے الحاق کے اپنے منصوبوں کو ملتوی کرے گا.  لیکن معاہدے کے دوسرے ہی روز اسرائیلی وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ الحاق کے  منصوبے عمل درآمد کے لئے ہماری ٹیبل پر ہیں. ہم کسی صورت ان سے دستبردار نہیں ہونگے.

یاد رہے متحدہ عرب امارات پہلا خلیجی ملک ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہے، کسی بھی دوسرے خلیجی ملک کے اب تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں.

فلسطینی صدر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امارات کی دیکھا دیکھی دیگر خلیجی ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے. اس معاہدے پر عرب ممالک کا سرد ردعمل ان کے اس خدشے کو درست ثابت کرتا نظر آتا ہے. دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی سفارتی تعلقات رکھنے والے دو مسلم ممالک مصر اور اردن نے معاہدے کا خیرمقدم  بھی کر دیا ہے۔

موجودہ صورتحال میں مسلم ممالک کے آپس کے تعلقات میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں. ایک سینئر صحافی ہریندر مشرا، جو اسرائیل میں رہتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کے مسلم ممالک واضح طور پر تین کیمپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق پہلے کیمپ میں کچھ ممالک ایران کے قریب کھڑے نظر آرہے ہیں، دوسرے کیمپ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جڑے ممالک شامل ہیں، جب کہ تیسرا گروپ ترکی، ملائشیا اور پاکستان کا ہے۔

اس معاہدے کے بعد مجموعی حالات مسلم دنیا میں مزید تقسیم کی طرف اشارہ کر ریے ہیں.

اس صورتحال میں خطے کے ایک بڑے ملک بھارت پر پڑنے والے اثرات کا سوال بھی اہم ہے.
موقر روزنامے ٹائمز آف انڈیا کی سفارتی ایڈیٹر اندرانی باغچی کا کہنا ہے کہ بھارت پہلے ہی  امارات اور اسرائیل دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے. بھارت اور اسرائیل کی سوچ بھی ایک جیسی ہے، اس لئے یہ معاہدہ بھارت کے لئے سازگار حالات کو جنم دے گا.
پاکستان کے حوالے سے اندارنی باغچی کا ماننا ہے کہ "پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔ لیکن ہم اس حقیقیت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اسلامی ممالک پر ہمیشہ پاکستان کا غلبہ رہے گا۔ اسلامی ممالک میں تن تنہا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ اس وجہ سے، اسلامی ممالک میں اس کا ایک مختلف درجہ ہے۔”

دوسری طرف ہریندر مشرا کا موقف ہے کہ پہلے تو یہ سمجها جاتا تھا کہ امارات اور سعودی کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی یہ جگہ بھارت نے لے لی ہے.
انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں کئی معاملات گنوائے، مثال کے طور پر پاکستان کی خواہش کے برعکس بھارت کو او آئی سی اجلاس میں مدعو کرنا، اجلاس میں بھارت پر اسلاموفوبی پھیلانے کے پاکستانی موقف کی مخالفت، بالاکوٹ واقعے اور آرٹیکل 370 کے تناظر میں کشمیر کی تازہ صورتحال میں بھارت کی سعودی اور امارات سے قربت، امارات کا نریندر مودی کو اپنے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازنا، سعودی کی طرف سے پاکستان کو 2018ع میں دیا گیا ایک ارب ڈالر کا قرض  واپس مانگنا، یہ ساری باتیں واضح کرتی ہیں کہ سعودی اور امارات کا جھکاؤ اب پاکستان سے زیادہ بھارت کی طرف ہے، اس لئے اسرائیل سے امارات کے تعلقات کے معاملہ یقینی طور پر بھارت کے حق میں ہے. بھارت اس صورتحال میں عرب ممالک اور پاکستان کے درمیان مزید خلیج پیدا کرنے کی بھی کوشش کرے گا. بھارت، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ایک بڑے گروپ کی صورت میں ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارت کے اسرائیل کے ساتھ دفاعی سازو سامان بنانے کے لیے متعدد معاہدوں کے نتیجے میں تیارہ کردہ جنگی سازوسامان کے لئے خلیجی ممالک کی صورت ایک بڑی منڈی بھی ہاتھ لگ جائے گی.

سعودی عرب اور امارات کی گہری دوستی، سعودی عرب کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں اسی راستے پر ڈال سکتی ہے، لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں سعودی عرب کھل کر ایسا اقدام اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا.

دوسری جانب معاہدے کے بعد  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا "جب برف پگھل ہی چکی ہے،  تو میں امید کرتا ہوں کہ دیگر عرب ممالک یو اے ای کے نقش قدم پر چلیں گے”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close