عالمی ادارہِ صحت کے تحت انیس سو ستاسی سے ہر سال اکتیس مئی کو یومِ نجاتِ تمباکو منایا جاتا ہے
مقصد تمباکو کی پیداوار کے اثرات و متبادلات کے بارے میں آ گہی بڑھانا اور حکومتوں کو باور کرانا ہے کہ اگر وہ تمباکو پر دی جانے والی سبسڈی خوراک کی قلت میں کمی لانے والی فصلوں کے کاشت کاروں کو منتقل کر دیں تو نہ صرف عالمی غذائی بحران میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے بلکہ تمباکو کی کاشت سے وابستہ کاشت کاروں کی صحت اور مستقبل بھی بہتر ہو سکتا ہے۔ اس برس اکتیس مئی کا نعرہ ہے: ’’تمباکو نہیں، غذا اگاؤ‘‘
دنیا میں سالانہ تقریباً نوے لاکھ ایکڑ رقبے پر تمباکو کی فصل کاشت ہوتی ہے اور سگریٹ سازی کی صنعت رواں رکھنے کے لیے سالانہ پانچ لاکھ ایکڑ پر لگے درخت صاف ہو جاتے ہیں۔سن دو ہزار اکیس میں ساڑھے چھ ملین میٹرک ٹن تمباکو پیدا ہوا۔
اگر زراعت و صنعت سے حاصل ہونے والے پیسے ، تمباکو مصنوعات کی تقسیم کاری اور آن لائن فروخت کے نظام سے حاصل کل آمدنی کو جوڑ لیا جائے تو تمباکو سالانہ نو سو بلین ڈالر کی عالمی گیم ہے
تمباکو اگرچہ دنیا کے ایک سو پچیس ممالک میں کاشت ہوتا ہے لیکن کل پیداوار کا ساٹھ فیصد صرف تین ممالک ( چین، برازیل، بھارت) پیدا کرتے ہیں۔ان کے بعد انڈونیشیا، زمبابوے ، ملاوی ، امریکا ، موزمبیق ، ترکی اور تنزانیہ ٹاپ ٹین میں شامل ہیں
تمباکو اگرچہ نقد آور فصل ہے اور اس کی پیداوار ضایع نہیں جاتی۔مگر کسی بھی ملک کی کل قومی آمدنی میں اس کا حصہ ایک فیصد سے زائد نہیں۔اور یہ حصہ بھی ذیلی طبی و سماجی اثرات کی زد میں آ کے برابر ہو جاتا ہے
اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں میں تمباکو کی پیداوار میں ساڑھے سات فیصد کی کمی ہوئی ہے۔عوامی مقامات ، رہائشی و کمرشل عمارات اور ٹرانسپورٹ میں تمباکو نوشی روکنے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ اس کی صنعت پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں بھی ٹھیک ٹھاک مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ذرایع ابلاغ میں کھلے عام اشتہار بازی پر بھی پابندی ہے۔سگریٹ کے ہر پیکٹ پر مضرِ صحت ہونے کا انتباہ بھی درج ہے مگر تمباکو کا استعمال پھر بھی بالخصوص نو عمر طبقات میں بڑھا ہے
تمباکو کی کاشت کا رقبہ اگر دنیا کے باقی خطوں میں بوجوہ کم ہوا ہے تو براعظم افریقہ میں مسلسل بڑھ بھی رہا ہے۔جب کہ تمباکو انڈسٹری رفتہ رفتہ مغرب سے منتقل ہو کر ایشیا میں پاؤں جما رہی ہے۔دس بڑی عالمی کمپنیوں کا تمباکو کی ساٹھ فیصد زراعت و صنعت و تجارت پر کاروباری تسلط ہے
ٹاپ فائیو میں علی الترتیب چائنا نیشنل ٹوبیکو کمپنی ، امریکی کمپنی آلٹریا، برطانیہ کی برٹش امریکن ٹوبیکو اور امپیریل ٹوبیکو اور مشرقی ایشیا کی جاپان ٹوبیکو شامل ہیں۔ امریکی کمپنی فلپ مورس انٹرنیشنل اگرچہ عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہے مگر اس کا تقسیم کاری کا نظام سب سے مستعد بتایا جاتا ہے
تاہم اس صنعت کے اولین متاثرین کاشت کار ہیں۔وہ آمدنی کے اعتبار سے سب سے نچلے پائیدان پر مگر مضر اثرات جذب کرنے کی سیڑھی پر سب سے اوپر ہیں
تمباکو کی کاشت سے وابستہ پچیس فیصد کسان فصل کاٹتے وقت پتوں سے رابطے کے سبب کھال میں سرائیت کرنے والی نکوٹین پوائزننگ (گرین ٹوبیکوسکنیس ) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایک کسان تمباکو کے پتوں کی چھٹائی کے دوران اٹھنے والے غبار کے ذرات کے ذریعے اوسطاً پچاس سگریٹ کے برابر نکوٹین اپنے جسم میں جذب کرتا ہے، اور آلودہ کپڑوں کے ذریعے یہ ذرات گھر تک لے جاتا ہے
تمباکو کے پتے خشک کرنے کے عمل میں جو دھواں اٹھتا ہے وہ پھیھپڑوں کو متاثر کرتا ہے۔کھیت مزدوروں اور بیڑی کی صنعت سے وابستہ بچوں اور عورتوں کی اکثریت سانس کی بیماری میں مبتلا رہتی ہے۔بیڑی بنانے کی صنعت سے ایشیا اور افریقہ میں تیرہ لاکھ بچے وابستہ ہیں
دیگر فصلوں کے مقابلے میں تمباکو کی فصل میں مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کی زیادہ مقدار استعمال ہوتی ہے۔ غیر معمولی نگہداشت کے ساتھ فصل نو ماہ میں تیار ہوتی ہے۔ چنانچہ اس عرصے میں اور بعد میں بھی کھیت میں کوئی اور فصل اگانا مشکل ہوتا ہے
کسان یوں بھی کوئی اور فصل نہیں لگاتے کہ تمباکو کی فصل یقینی طور پر پیشگی فروخت ہو جاتی ہے۔متعدد ممالک میں حکومت سبسڈی بھی دیتی ہے۔زرعی قرضہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔بیچ کھاد وغیرہ کمپنی دیتی ہے اور پھر قیمت میں سے یہ اخراجات منہا کر لیتی ہے
تمباکو کی کاشت اور دھوئیں سے فضا میں سالانہ آٹھ کروڑ چالیس لاکھ ٹن کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔جب کہ دو کروڑ بیس لاکھ ٹن پانی استعمال ہوتا ہے۔یہ پانی بھی آلودہ ہو کے زمین کے اوپر اور زیرِ زمین آبی ذخیرے میں شامل ہوتا رہتا ہے
کھیت کے بعد دوسری شامت جنگلات کی آتی ہے۔ایک درخت اوسطاً تین سو سگریٹوں کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔اوسطاً سالانہ چھ لاکھ درخت کام آجاتے ہیں
سگریٹ سازی کی عالمی صنعت لگ بھگ سالانہ چھ ٹریلین سگریٹ بتائی جاتی ہے۔ ایک ارب سے زائد تمباکو نوش ہیں۔ان میں سے اسی فیصد ترقی پذیر اور متوسط ممالک میں ہیں۔سالانہ آٹھ ملین اموات تمباکو نوشی کے طرح طرح کے اثرات سے ہوتی ہیں
ان میں سے ایک چوتھائی کینسر سے ہوتی ہیں۔تمباکو پھیپھڑوں اور گلے کے سرطان سمیت بیس سرطان پیدا کرنے میں معاون ہے۔نولاکھ افراد اگرچہ تمباکو نوشی سے نہیں مگر تمباکو نوشوں کے آس پاس رہنے کے سبب مرتے ہیں۔خون کی شریانیں سکڑنے کے نتیجے میں دل کے امراض اور ان سے نتھی اموات ایک الگ قصہ ہے
تمباکو کے دھوئیں میں شامل لگ بھگ ڈھائی سو کیمیکلز میں سے ساٹھ براہِ راست مضرِ صحت قرار دیے جا چکے ہیں۔کھانے والے تمباکو میں کم ازکم اٹھائیس مضرِ صحت کیمیکلز پائے جاتے ہیں
جب کہ حقے میں سادہ تمباکو کے بجائے طرح طرح کے خوشبودار تمباکو کا استعمال جوان نسل میں اگرچہ ’’کول‘‘ سمجھا جا رہا ہے مگر اس کے فلیورز کے ذریعے اضافی کیمیکلز جسم میں داخل ہوتے ہیں۔کئی ممالک نے خوشبودار تمباکو کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔لیکن اسمگلنگ کو کون مات دے سکتا ہے
اب دھوئیں کی جگہ اسموک لیس تمباکو کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔یعنی کسی کو خبردار یا تنگ کیے بغیر آپ نکوٹین کی مطلوبہ مقدار جسم میں اتار سکتے ہیں۔یہ جدید بدعت ایجاد تو مغرب کی ہے مگر اس کی امام چین اور بھارت کی کمپنیاں ہیں۔گویا ایک در بند ہوتا ہے تو دس در اور کھل جاتے ہیں۔طلب کو رسد درکار ہے اور رسد کی جان مسلسل طلب کے توتے میں بند ہے
اس گیم کی قیمت اصل سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ضایع شدہ پیداواری گھنٹے اور طبی مسائل و نگہداشت کے اخراجات سے عالمی معیشت کو سالانہ ایک اعشاریہ چار ٹریلین ڈالر نقصان ہوتا ہے۔
فی الحال اتنا کافی ہے یا مزید بتایا جائے؟
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)