شجاع (مصری ادب سے منتخب افسانہ)

ڈاکٹر نجیب الکیلانی (ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ)

میرا دل خوف سے دھڑک رہا تھا، اندھی گولیوں کا تصور ہی میرا خون خشک کئے دے رہا تھا، بم پھٹنے کے خیال ہی سے میرے جسم میں لرزہ تھا، ایک لمحے کو میں نے معرکے سے فرار ہونے کا سوچا، لیکن اگلے ہی لمحے مجھے اپنے ساتھیوں کا خیال آیا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟ جو بڑے جوش سے میرے کامران لوٹنے کے منتظر ہیں، وہ میرے پختہ دلائل بصد عزت و احترام سنا کرتے تھے، میں ان کی نظر میں بہت سمجھدار نوجوان تھا جو اپنے الفاظ کا پاس رکھتا تھا، کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ میں بزدل ہوں۔۔ اتنا ڈرپوک کہ خون اور موت کا تصور ہی مجھے پسینہ پسینہ کر دیتا ہے۔۔ اور جنگ کا نام لیتے ہی میرا جسم کپکپانے لگتا ہے۔۔

ہم سات نوجوان تھے، اندھیرا ہر شے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا، میرے چہرے پر کھنڈی زردی بھی تاریکی کی لپیٹ میں تھی، اور میرا کپکپاتا جسم بھی۔۔ ہمیں جنوبی کنارے کی یہودی چیک پوسٹ پر دھاوا بولنا تھا، کیونکہ وہ ہمارے راستے کی پتھریلی چٹان تھی اور ہمارے لئے ایک مستقل خطرہ۔۔

مجھے اپنے ساتھی کے چمکتے دانت اندھیرے میں دکھائی دیے، وہ مسکراتے ہوئے بولا: ”ٗمختصر سا راستہ ہے۔۔ پھر ہم واپس آجائیں گے۔۔ ہمیں واپس لوٹنا ہوگا“

دوسرا گویا ہوا: ”واقعی یہ بڑا ضروری ہے۔۔ لیکن جنگ کی کوئی منطق نہیں ہوتی، ہم بڑی آسانی سے مر جاتے ہیں اور کہانی ختم ہو جاتی ہے۔۔ اس کے باوجود ہمیں اس بارے میں ابھی سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔“

موت کے الفاظ سن کر میرا تو دل ڈوبنے لگا۔۔ میرے اعصاب میرے کنٹرول میں نہ رہے۔ جب میں جذبات دباتے ہوئے بولا: ”جنگ بہت بڑی حماقت ہے۔“

پہلا دوست گویا ہوا: ”سچ کہتے ہو۔۔ لیکن یہ تو ان ظالموں کے سوچنے کی بات ہے نا، جنہوں نے جنگ کی آگ بڑھکائی“

ہم ڈرے سہمے قدم اٹھانے لگے، ہر حرکت اپنے اندر موت کا پیغام لئے ہوئے تھی، اور وہ مورچے جن میں یہود براجمان تھے، سانپوں کے بل کی مانند تھے۔ ہمیں فقط ان سے نکلنے والی آگ کے شعلے پہاڑ کی مانند نظر آتے جو پھر تاریکی کی چادر لپیٹ لیتے

مجھے دریائے نیل کے کنارے آباد اپنا گاؤں یاد آیا، اس وقت پورا گاؤں گہری نیند میں ڈوبا ہوگا، جس کی فضاؤں میں امن کا پیغام ہوگا، حسین خاموشی اس پر غالب ہوگی۔۔ کیا حسن ہے اس سلامتی میں!! میں ان خطرات کا تصور کرتے ہوئے دوسری انتہا تک پہنچ چکا تھا جو میری خوابیدہ حسرتوں کو بیدار کر رہے تھے، میرے گداز جذبوں کو لو دے رہے تھے، اس حال میں کہ ہم ایک معرکے کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔۔ موت کے دھانے پر، میرے ذھن کے افق پر تیزی سے سارے خطرات نمودار ہونے لگے، اور ایک دوسرے پہلو نے میری سوچ کا رخ تبدیل کر دیا، میں اپنے آپ سے گویا ہوا: ’ہم ان سے لڑ رہے ہیں، جنہوں نے ہم سے زیادتی کی۔ ہم اپنے حقوق کا دفاع کرنے اٹھے ہیں۔۔ اپنی زندگی کا۔۔ اس عقیدے کا، جس پر ہمارا ایمان ہے۔۔ یا اے ناظر! تو ہی بتا، کیا ہم اپنی سرحدیں اور اپنی املاک چوروں کے سامنے پیش کردیں؟‘

ایک ساحرانہ شیطانی قہقہہ میری سماعت سے ٹکرایا وہ بولا: ’یہ نہ بھولو کہ تمہارے دشمن بھی اپنی جگہ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حق کی خاطر لڑ رہے ہیں۔۔ اپنے اصل کی خاطر۔۔ اگرچہ یہ محض ان کا وہم ہو، اسی طرح حق کی کتنی ہی صورتیں اور لباس ہوتے ہیں، اور تم جیسے مسکین ان تاویلوں میں بہک جاتے ہیں۔“

ایک پراسرار خاموشی فضا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔۔

سب ساتھی نہایت احتیاط سے قدم اٹھا رہے ہیں، اور بلاشبہ ہر ایک کے دل میں دسیوں احساسات ہیں، اور سینکڑوں امیدیں اور خواب، گذرے دنوں کی سوچیں اور آنے والے دنوں کی امنگیں۔۔ میرا ساتھی بار بار مسکرا اٹھتا ہے، وہ اپنے ہی تصورات کے بحرِ ِ قلزم میں ہے، یا کوئی اہم نکتہ اس کے ہاتھ آگیا ہے۔

لیکن، کیا یہ سب دوست ڈر نہیں رہے، جیسے میں ڈر رہا ہوں؟؟

یہ سب تو بلا خوف چلے جا رہے ہیں، مسکراتے ہوئے اور نکتے اٹھاتے ہوئے۔۔ اور ایک دوسرے پر جملے پیوست کر رہے ہیں جو ان کے اندرونی قلق کے مظہر ہیں۔۔ اور اس آتشیں انقلاب سے متعلق، لیکن یہ سب بلا تردد منزل کی جانب گامزن ہیں۔۔ جبکہ میں، لگتا ہے خوف نے میرے قدم جکڑ لئے ہیں، میں ان کے سامنے جھوٹ کیوں بول رہا ہوں؟ میں انہیں اس وہم کا شکار کیوں کر رہا ہوں کہ میں شجاع ہوں اور مجھے کوئی ڈر نہیں؟ اگر میں ان کے سامنے اپنی بزدلی کا اعتراف کر لوں تو کیا ہوگا؟ اور اگر میں ان کے بیچ میں سے نکل جاؤں۔۔ اور وہیں لوٹ جاؤں، جہاں سے آیا ہوں؟ میں اس میدان میں خوشی خوشی آیا تھا۔۔ جرأت اور حمیّت کی پکار پر میں نے محض اپنی رغبت کی بنا پر اپنا آپ پیش کیا، اس وقت میرا خیال تھا کہ میں شجاع ہوں اور یہ وقتی رنگ نہیں، اور اس وقت مجھے یقین تھا کہ میری اور لاکھوں لوگوں کی زندگی، موت اور تباہی کی ڈھلان پر ہے۔۔ سب بچے مجھے اپنے بھائیوں جیسے لگتے۔۔ اور عورتیں ’سمیرہ‘ جیسی (جس سے میں محبت کرتا ہوں) اور بوڑھے میرے بزرگوں جیسے۔۔ ان سب پر مغولوں کے ریوڑ ہرگز رحم نہ کریں گے، میں دوڑ کر میدان میں آ گیا، اپنی تمام شجاعت اور امید اور اعتماد کے ساتھ۔۔ اور پہلے ہفتے ہی میں نے میں خیانت، فضولیات اور فاسد اسلحے کی داستانیں سنیں۔

حقیقت یہ ہے کہ میرے جذبے آہستہ آہستہ ٹھنڈے پڑنے لگے۔۔ فقط ٹھنڈے۔۔ لیکن جب مجھے اس چوکی پر حملے کا حکم ملا تو یہ ٹھنڈ شدید خوف میں بدل گئی، اور شدید ندامت میں۔۔ آہ یا الٰہی! میری حیرت کتنی سنگدلانہ تھی!!!

میرا ساتھی مجھ سے کہنے لگا: ”واقعی جنگ ایک حماقت ہے، لیکن دونوں میں سے احمق ہے کون۔۔ یعنی آرزوؤں کی تکمیل انہی کے حصے میں آتی ہے، جو اپنے عہد پر کاربند رہتے ہیں، کیا ایسا ہی نہیں ہے؟؟“ اس نے مجھے اپنی کہنی سے ہلکا سا ٹہوکا دیا

میں چڑ کر بولا: ”خاموش۔۔ ہمیں چپ رہنا چاہیے“

ً”ہاں، لیکن ہمیں ابھی کم از کم سات کلومیٹر فاصلہ طے کرنا ہے۔۔ یہ تمام سفر وادیوں پہاڑوں اور پگڈنڈیوں پر مشتمل ہے۔۔“

اچانک میں نے سوال داغا: ”کیا تمیں ڈر نہیں لگ رہا؟؟“

”کس سے؟“

”موت سے؟“

قبل اس کے کہ وہ کچھ جواب دیتا، ایک واضح آواز ہماری سماعت سے ٹکرائی۔۔ اور لمحہ بھر میں ہم زمین پر لیٹ چکے تھے، ہمارے ہاتھ بندوق کے ٹرگر پر تھے۔ دو آنکھیں تاریکی میں چمک رہیں تھیں، جیسے خنجر گوشت میں پیوست ہو۔ تقریباً آدھا گھنٹہ ہم دم سادھے لیٹے رہے، کان کھڑے رکھے، ہمارے ناک خطرے کی بو سونگھتے رہے۔۔ اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ خوراک کی تلاش میں بھٹکتا ہوا بھیڑیا ہے۔۔

بڑی آہستگی سے ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا، بھیڑیے کو کوئی گزند پہنچائے بغیر ہم چلنے لگے، اور میں نے بھی اپنا کھلبلاتا سوال اپنے اندر ہی دبا لیا۔۔ لگتا تھا کہ میرا ساتھی بھی میرا سوال بھول چکا ہے لیکن میرے حافظے میں وہ لمحہ چپک چکا تھا، جب ہم زمین پر دم سادھے لیٹے تھے، ہم ایک ہی طرح خطرے کا مقابلہ کر رہے تھے، مکمل طور پر۔۔ جب ہمارے ہاتھ ایک ساتھ حرکت میں آئے اور اچانک ایک ساتھ اس خطرے سے مقابلہ کرنے لگے۔۔

کیا ہم نے سب خوف کے دفاع میں کیا؟ ہم کچھ سوچے سمجھے بغیر زمین پر لیٹ گئے کیونکہ ہمارے پاس سوچنے کا وقت نہ تھا، اور اگر ہم سوچتے، تو ہمارا لیٹنا ہمارے پلان کی بنیاد پر ہوتا۔۔ٹیکنیک۔۔ وہ احتیاط اور بچاؤ پر مبنی ہوتا، نہ کہ خوف اور بزدلی پر۔۔

ہم کٹے پھٹے دائیں بائیں گھومتے راستے پر چلتے اس چیک پوسٹ کی جانب گامزن تھے۔۔ مکمل سکوت میں، جسے کبھی کبھی بھیڑیے کی حملہ آور گرج پاٹ دیتی، یا اس کے شکار کی دم توڑتی پکار جو جلد ہی اس کے آگے سپر ڈال دیتا، اور اس گہرے اندھیرے میں خون آلود سرخ جسم خود اپنی جانب متوجہ کرتے۔ جوں جوں منزل قریب آرہی تھی، میرے اعصابی تناؤ اور دہشت میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔ انتہائی خوف کے باوجود میں اب واپس لوٹنے کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا۔۔

میں چل رہا تھا کیوں کہ میرے ساتھی محوِ سفر تھے۔۔ میں نے رکنے کی کوشش نہ کی، کیونکہ ہمیں حسبِ حکم طے شدہ وقت پر یہودی چیک پوسٹ پر پہنچنا تھا۔ جماعت کی منطق افراد کی منطق سے کتنی مختلف ہوتی ہے، اگر الفاظ کو ان کے حقیقی معنی دیے جائیں تو میں آزاد نہیں ہوں، میرا سر شدید مضطرب اور متحیّر افکار سے جلتا اور چکراتا رہا۔۔ رہی میری نقل و حرکت، تو وہ قدم بقدم میرے ساتھیوں کے ساتھ مرتبط تھی۔۔ یعنی سات دوستوں کی، جو بڑے عزم سے آگے بڑھ رہے تھے، کیا کہنے ان بہادروں کے۔۔ رہا میں تو میں ان کے اندازوں سے بڑھ کر معمولی تھا۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری سوچوں کا رخ پھر نیل کی آغوش میں سوئے اپنے گاؤں کی جانب مڑ گیا، جو سکون اور سلامتی کی فضاؤں میں اونگھ رہا تھا۔۔ سمیرہ پھر میری سوچوں میں در آئی۔۔ اور اس کے ساتھ ہی کئی دوسری چیزیں۔۔

”اب ہم بکھر جائیں گے۔۔ نہایت احتیاط سے۔۔ ہم خطرے کے مقام پر پہنچ چکے ہیں۔۔“ میرے ساتھی نے نہایت پست آواز میں کہا، جسے ہم سب نے پورے دھیان سے سنا۔ ان لمحات نے مجھے اپنا آپ بھی بھلا دیا۔۔

جب ہم موت کے قریب ہوئے، اور خطرہ سر پر منڈلانے لگا، میں ایک عجیب عالم میں غوطے کھانے لگا، مجھے محسوس نہ ہوا کہ یہ خوف تھا یا شجاعت، میں موت و حیات کے احساس سے عاری تھا، میں ایک مشین کی طرح بندوق اٹھائے حرکت کر رہا تھا، جس کی رگوں میں خون تھا، جس پر کپکپی طاری نہیں تھی، اور جس کے قدموں میں عجیب طرح کی ثابت قدمی تھی۔۔ میری سوچنے کی قوتیں سلب ہو چکی تھیں، میری آنکھیں صرف تاریکی پاٹ رہی تھیں، اور بڑے قلق اور اضطراب سے یہودی چیک پوسٹ تلاش رہی تھیں۔۔

ہم سب یہاں وہاں پھیل گئے، بس میرا دوست میرے ساتھ چلتا رہا۔

”اب کھڑے ہو کر چلنا مناسب نہیں، ہمیں زمین پر گھسٹ کر آگے بڑھنا ہوگا“

”ہاں“

”ہمیں بارودی سرنگوں سے خطرہ ہے، جو انہوں نے جا بجا بچھا رکھی ہیں۔۔“

”ہم ان سے کیسے بچیں؟؟“

”سب سے آگے ہم ہیں، ہمیں ان کے لیے مقدور بھر جگہ صاف کرنی ہوگی“

واہ کیا عجیب بات ہے، گروپ کا سب سے بزدل انسان سب سے آگے چل رہا ہے۔۔ میں ہر اوّل دستہ بن جاؤں، کیا یہ عجیب نہیں۔۔ میرا ساتھی ایسا کچھ محسوس نہیں کر رہا، اس کی معلومات محض اتنی ہیں کہ میں ایسا شخص ہوں، جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔۔ اپنی مرضی سے فدائی بننے والا موت سے بے خوف، ورنہ محض اپنی خواہش پر یہاں نہ آتا۔۔

میرے ساتھی نے سرگوشی کی: ”ہماری زندگی اھم نہیں۔۔ اھم وہ مقصد ہے، جس کی خاطر ہم یہاں آئے ہیں، ہمیں ان تینوں مورچوں میں سے ہر ایک کو بموں کے ذریعے تباہ کرنا ہے۔۔ اسی طرح ہم اس چیک پوسٹ کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں، جو خطرناک شکاریوں کی پناہ گاہ ہے، جو کتنوں کی قربانی لے چکی ہے۔۔“

مجھے پتا بھی نہ چلا کہ میرا ساتھی اچانک رک کیوں گیا؛ اور کسی ٹوٹی شاخ کی طرح زمین پر آ رہا، بلا سوچے سمجھے میں بھی اس کے دائیں جانب اپنی بندوق سنبھالے زمین پر لیٹ گیا۔ میں ششدر رہ گیا، زمین پر لیٹے ہوئے اس دھماکے سے میرے کان کا پردہ پھٹنے کو تھا، اس کا اثر کچھ کم ہوا تو میں اپنے ساتھی کی طرف متوجہ ہوا وہ تکلیف سے کراہ رہا تھا۔

نجانے کتنے لمحے گزرے اس خوف کی حالت میں، میرے ہاتھ بندوق کے ٹرگر پر تھے۔۔ اور آنکھیں تاریکی میں آگ اگل رہی تھیں۔

میری سماعت سے ٹوٹتی سانسوں میں اس کی نحیف آواز سنائی دی: ”تم رکنا نہیں۔۔ اسی طرح گھسٹتے ہوئے آگے بڑھنا۔۔ خبردار کھڑے نہ ہونا، یقیناً دشمن بیدار ہے۔۔“ اس نے دشمن کی چیک پوسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

دوبارہ سکوت چھا گیا، تاریکی مارے ڈال رہی تھی، کچھ حرکت تھی نہ کوئی خبر، فقط موت کے سائے ہمارے سروں پر منڈلا رہے تھے، لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اندھیرے کی آنکھیں نکل آئیں ہیں۔۔ اور خنجر۔۔ اور سیاہ خون۔۔۔

”یوں رک کیوں گئے؟؟ آگے بڑھو۔۔ تمہیں طے شدہ وقت پر وہاں پہنچنا ہوگا“

”اور اگر انھوں نے مجھے مار ڈالا۔۔؟“

”اس وقت موت کے بارے میں نہ سوچو۔۔ کیا دھماکہ خیز مواد پوری طرح تیار ہے تمہارے پاس؟“

“ہاں۔۔“

”جلدی کرو۔۔ تھوڑا سا دائیں جانب ہو جاؤ۔۔ اس پتھر کے پیچھے۔۔ ہمارے ساتھی چند لمحوں میں اپنا کام شروع کردیں گے۔۔ اس وقت کیا بجا ہے؟“

”ایک بج کر پانچ منٹ “

”جلدی سے چلے جاؤ۔۔“

دشمن کی گولیاں نئے سرے سے برسنے لگیں، سرچ لائٹس کے مرکز اور شور سے اندازہ ہوا کہ ہمارا ھدف قریب ہی ہے، میں نے ایک نظر اپنے زخمی رفیق پر ڈالی، اس کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور وہ اپنی آواز دباتے ہوئے کراہ رہا تھا۔۔ چند لمحے پہلے وہ مسکرا رہا تھا اور ہماری آراء پر نکتہ زنی کر رہا تھا۔۔ اور لاپرواہی اور وقار سے مذاق کر رہا تھا، اب یہ رک کیوں گیا ہے؟؟ اسی کو نشانہ کیوں لگا؟؟ کیا اس کا کام تمام ہو چکا؟؟ کیا تم نے اب بھی اسے موت سے لرزاں پایا یا اس شجاع دلیر کو موت نے مسخر کر لیا جیسے اس نے زندگی کو مسخر کر رکھا تھا، موت کے وقت اس نے بڑی ملائمت سے آنکھیں موند لیں، گویا وہ اونگھ رہا ہے۔۔ جیسے وہ پہلے اونگھ جاتا تھا؟؟

میں نے سنا، وہ چلایا: ”میں نے تمہیں کہا ہے آگے بڑھو۔۔“

اسے اپنے آخری لمحوں میں بھی دشمن کی جانب پیش قدمی کے علاوہ کوئی فکر نہیں۔۔ طے شدہ پلان اور وہ ساتھی، جو ہمیں فالو کر رہے ہیں، اور قیادت کے احکام، اور چیک پوسٹ جسے ہمیں مکمل طور پر تباہ کرنا ہے، کیا یہ انسان ہے!؟ اور میں۔۔ آہ بے نشاں۔۔

ایک گرم آنسو بہہ کر میرے گال پر آ گیا، میں نے اس کی حدت محسوس کی اور اپنا سر زمین پر پٹخ دیا، میں خود نہیں جانتا کہ کیوں، اور بندوق پر میری گرفت ڈھیلی پڑ گئی، گویا کوئی موٹر تھی جو مجھے آگے دھکیل رہی تھی، اس کی سانسیں تھک کر ٹوٹنے لگیں، اور اس کی کراہیں ہولے ہولے معدوم ہونے لگیں، لیکن اس کی چیخیں میری روح میں جذب ہو گئیں، اور اس کے اثر سے میرا سر چکرانے لگا، گویا اس نے اپنے بہتے لہو کا سارا پٹرول میری صبح کی موٹر میں انڈیل دیا ہو جو مجھے لئے فراٹے بھرتی موت کی فصیل کی جانب گامزن تھی، جہاں دشمن کی کمین گاہ تھی، آگ اگلتی ہوئی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟؟

میں نے نظریں گاڑیں اور چیک پوسٹ کے گرد چکر لگایا، سیفٹی پن کھینچی اور ہینڈ گرنیڈ چیک پوسٹ کی جانب اچھال دیا، اور بغیر کسی خوف کے اس عمل کو بلا تاخیر اور بلا اکتاہٹ کئی بار دہرایا، اس زخمی ساتھی کے ٹوٹتے سانس ابھی تک میرے دماغ اور میری روح میں تلاطم برپا کئے ہوئے ہیں۔ میں خوف اور شجاعت کی تمیز کھو چکا ہوں، اور اسی طرح زندگی اور موت کا تضاد۔۔

اور جب دشمن کی بندوقیں ٹھنڈی ہو گئیں میں چیک پوسٹ میں داخل ہوا، وہاں میرے پانچوں ساتھی موجود تھے، ہم نے ایک ایک چیز کو چھاننا شروع کیا، ڈھیروں اسلحہ ہمارے ہاتھ لگا اور پانچ کوئلہ بنے سورما۔ انسانوں کے لئے۔۔ احمقوں کے مجسمے۔۔

میرے ساتھیوں نے میری پیشانی، رخساروں اور میرے سر کو چومنا شروع کر دیا، اور مجھے کون کیا کہہ رہا تھا میں صاف طور پر شناخت کر سکتا تھا۔۔ ہیرو۔۔ شجاع۔۔ جرّی۔۔ نہایت پریشانی اور تکلیف سے میں نے ان کی توجہ زخمی ساتھی کی طرف مبذول کروائی، جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔

وہ تو ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔ وہ بے حس و حرکت تھا۔۔

فقط اس کی انگلی چیک پوسٹ کی جانب اشارہ کر رہی تھی۔۔

اور جب ہماری سسکیاں اور آنسو تھمے، ہم نے اسے اپنی یونٹ کے ذمہ داروں کے حوالے کر دیا۔۔ اور میں پھر اپنے غم و الم سے بے نیاز شجاعت کے معنی پر غور کر رہا تھا۔۔

کیا شجاعت وہی تھی، جس کا مشاہدہ میں نے اس پاکیزہ اور قوی شہید کی سیرت میں کیا، جسے نہ کوئی شک تھا نہ تردد؟؟کیا یہ محض چند طے شدہ چیزیں ہیں یا ہمارے جذبات بڑھکا کر ہمیں ہماری فطرت کے برعکس شجاع بنا دیا جاتا ہے۔۔؟ یا لرزتے قدموں سے حاصل شدہ وقتی کامیابیاں ہم انسانوں کو شجاع قرار دیتی ہیں۔۔۔؟؟؟

 

اگلی صبح میں اسی تباہ شدہ یہودی چیک پوسٹ کی جانب جا رہا تھا، میری قیادت میں ہماری پلٹن کا ایک گروپ ہمراہ تھا، تاکہ ہم وہاں اپنی چیک پوسٹ قائم کر دیں، جو دشمن کے لئے موت کا پیغام ہو۔۔ میرے کندھے پر ایک نیا ستارہ جگمگا رہا تھا۔۔ میری شجاعت کا ثمر۔

(مصر کے مایہ ناز افسانہ نگار ڈاکٹر نجیب الکیلانی کا ۱۹۶۷ء کے قضیۃ فلسطین کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ، جسے مسابقہ نادی قصہ نے اوّل انعام اور المہداۃ طہ حسین نے طلائی تمغہ عطا کیا۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close