شہر کے کاروباری علاقے کے قلب میں واقع یہ گھر ایک اونچا یک منزلہ مکان تھا، جس کو یہ فوائد حاصل تھے کہ ایک طرف تو جب مطلع صاف ہوتا شمال میں واقع پہاڑ کا تھوڑا بہت نظارہ کیا جا سکتا تھا اور دوسری طرف جنوب سے اُمسائی ہوا کے وہ جھونکے آ جاتے تھے، جن میں سمندری جانوروں کی مخصوص بساند بسی ہوتی تھی۔ تنگ و نیم تاریک گلی میں داخل ہوتے ہی ایک طویل زینہ تھا، جو اوپر ایک ڈیوڑھی پر ختم ہوتا تھا، جہاں سے پوری گنجان بستی نظر آتی تھی۔ گھر کے مالک کی اُپج کے طفیل ڈیوڑھی کی شہ نشین کے اطراف رنگین چلمنیں پڑی تھیں تاکہ موسم گرما میں تیز اور چلچلاتی دھوپ کو روکا جا سکے اور جب طوفانی موسم آئے تو باد و باراں سے بچا جا سکے
تقریباً دس برس سے اس مکان میں شیخ عبدالغفار کا چھوٹا سا کنبہ رستا بستا تھا۔ بوڑھا شیخ اپنے سبز عمامے، گلابی عبا، خاکی چپّلوں اور سونے کی موٹھ والی چھڑی سے مزیّن، یہاں عیش و آرام والی قابلِ رشک زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ ایک محنتی آدمی ہے، جس نے اپنی زندگی ایک قلّاش کی طرح شروع کی تھی۔ جب وہ اپنے پرانے وطن کو ترک کر کے یہاں آیا تھا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی، اور اب انجام کار اس نے اتنی دولت جمع کر لی تھی کہ تمام عمر ختم نہ ہو۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ شیخ عبدالغفار جس شے کو چُھو لے، وہ فوراً سونا بن جائے۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ بوڑھے شیخ سے زیادہ مصروف کوئی نہ ہوگا۔ دن بھر وہ گھر سے باہر ہی رہتا اور اپنی جواہرات کی دکان اور دیگر چھوٹے موٹے کاروبار کی دیکھ بھال کرتا اور شام کو گھر لوٹ کر شراب کی چسکی لگاتا اور اپنی رقم گنتا۔ اور ترنگ میں آتا تو اپنے دقیانوسی گراموفون سے گانے سنتا یا پھر اپنی بیوی کی گرم آغوش سے لطف اندوز ہوتا۔
گھر میں اس کی بیگم کی دُسراہٹ کے لیے ایک دور پرے کی سالی بھی رہتی تھی۔ اُس کا نام صوفیہ تھا۔ صوفیہ ایک بن بیاہی عورت تھی، جو چالیس کے پیٹے میں تھی اور جس کا پانچ سال پرانا گٹھیا کا مرض اس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس کا برتاؤ صوفیہ کے ساتھ اتنا ہی ظالمانہ تھا، جتنا اُس کے ناکام معاشقے کا۔ تیس برس سے ذرا زیادہ عمر کی زہرہ صوفیہ سے زیادہ خوش نصیب تھی۔ لا ولد ہونے کے باوجود وہ شیخ کی بیوی ہونے کے ناتے زندگی کے مزے لُوٹ رہی تھی۔ وہ اس تصور میں مگن رہتی تھی کہ پختہ سِن ہو جانے کے باوجود اس نے اپنی طراوت کو برقرار رکھا ہوا تھا، جس پر نئی نسل انگاروں پر لوٹتی تھی۔ رہی اس کے چہرے کی بناوٹ تو اب بھی اس کی ناک کا بانسہ اونچا اُٹھا ہوا تھا۔ اس کی گہری آنکھوں کو گھنی بھنووں نے اور بھی نمایاں کر رکھا تھا۔
صوفیہ اور زہرہ دور کے رشتے سے خالہ زاد بہنیں تھیں۔ جب ان کی ملاقات ہوئی تھی، دونوں ہی بڑی ہو چکی تھیں۔ پرانے وطن میں والدین کی وفات ہو جانے کے بعد صوفیہ کو اس کے ایک ماموں نے پالا تھا۔ چند برس بعد وہ ماموں بھی کسی انجانے مرض میں الله کو پیارا ہو گیا تو اس کو اپنی خالہ کے ساتھ اس نئے آزاد ملک میں رہنا پڑا، اس انوکھے ’فری فِین‘ میں۔ شروع میں ہی چھوٹی چھوٹی بدگمانیوں سے ان دونوں کے دلوں میں بال پڑ چکے تھے لیکن زہرہ کے والدین کی موت کے بعد یہ ان دونوں کی ضرورت تھی کہ وہ ایک دوسرے کی رفاقت سے اس کی صبر آزما ناخوشگواری کے باوجود چمٹی رہیں۔ اگر اب ان کے دلوں میں حسد کی تلخی تھی بھی تو انہوں نے کمال عیّاری سے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ یہ بغض کبھی کبھار غیر شعوری طور پر ظاہر ہو جاتا لیکن اس وقت تک وہ اتنا تشویش ناک نہیں ہوا تھا کہ شیخ کے گھر کے سکون کو درہم برہم کر دیتا۔
طبیعت جولانی پر ہوتی تو دونوں خالہ زاد بہنیں ڈیوڑھی کی شہ نشین میں بیٹھ کر سستاتیں اور خوش گپّیوں میں وقت گزارتیں۔ جب یوں ہوتا تو صوفیہ آرام کرسی پر بیٹھ کر کشیدہ کاری کرتی۔ زہرہ کبھی سوزن کاری میں دیدہ ریزی نہ کرتی بلکہ جھولنے والی کرسی میں بیٹھ کر اپنی خلیری بہن کو دیکھتی اور اُس سے باتیں کر کے خوش ہوتی۔ کبھی کبھار وہ اپنے جُوڑوں کو بنا سنوار کر اپنی کَسی چولیوں میں ہی اپنی گات کو ابھارتیں اور فرمائشی قہقہے لگا کر لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ ان کی یہ پُر اسرار حرکات، جن کا راز انہوں نے چالاکی سے اپنے تک رکھا ہوا تھا، دراصل ان کی اپنی پڑوسنوں کی نقّالی ہوتی تھی کہ وہ کس طرح اٹھتی بیٹھتی تھیں، ان کی روزمرّہ کی عادتیں اور یہ کہ ان کے شوہر ان کی کیسی گت بناتے تھے۔
”ذرا سوچو تو۔۔۔“ صوفیہ ایک سہ پہر پڑوسیوں کے اس ایک سے اُکتا دینے والے موضوع کو چھوڑ کر بولی، ”اور کیا، ذرا سوچو تو۔۔۔“ اُس نے کاڑھنے سے ہاتھ روک کر کہا، ”کسی نے کبھی کاہے کو سوچا ہوگا کہ شیخ تمہارا ہو جائے گا اور تم یوں ٹھاٹ کرو گی؟“ مگر جی ہی جی میں اُس نے یوں کہا: ’جو کچھ تمہارا یہاں ہے، اس پر میرا بھی پورا حق بنتا ہے۔ میں تم سے عمر میں کافی بڑی ہوں۔ بخدا ایک وقت تھا کہ تمہارا میاں تھوڑا بہت میرے قبضے میں بھی تھا۔ وہ تو تمھاری بے حیائی نے۔۔۔‘
زہرہ نے اپنی خالہ زاد بہن پر نظر ڈالی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، ”اے لو، ہر ایک کو اس بات کی امید تھی۔ یاد نہیں جب شیخ محمود نے میرا ہاتھ دیکھا تھا تو کہا تھا: زہرہ، اپنی آنے والی بختاوری پر الله کا شکر ادا کرو۔ یہ لکیریں بتاتی ہیں۔۔۔“
”ارے وہ کھوسٹ نجومی۔۔۔ اور یاد ہے اُس نے مجھ سے کیا کہا تھا؟ کیا وہ بد فال نہیں تھی؟ میں نے تو اُس کا ٹینٹوا دبا دیا ہوتا۔۔۔“ اُس لمحے صوفیہ کے پتلے حسّاس جبڑے کپکپاتے ہوئے یوں بھنچ گئے، گویا وہ اپنی کسی اندرونی تکلیف کو دبا رہی ہو
”اوہو صوفیہ، اب اُس پر اتنا غصّہ تو نہ کرو۔۔ اُس نے تو ایک سچی بات کی پیش گوئی کی تھی۔“
صوفیہ نے اپنی خالہ زاد بہن کی طرف حیرت سے دیکھا اور جل کر بولی، ”سچی بات! حضور کے روضۂ پاک کی قسم، ذرا سوچو۔۔ اُس نے کہا کیا تھا؟ صوفیہ، تم اب کسی آدمی کا دامن کیوں نہیں تھام لیتیں؟ اگر تم نے یہ نہ کیا تو تمہاری جان کی خیر ہو، تمہاری شادی پھر کبھی نہ ہو سکے گی۔“
زہرہ دل کھول کر اتنا ہنسی کہ اُس کے آنسو رواں ہو گئے۔ مگر اپنی خالہ زاد بہن کے چہرے پر کرب دیکھ کر اُسے فوراً احساس ہوا کہ اس ہنسی سے اُس کی خالہ زاد بہن کو اذیّت پہنچی ہے تو اُس نے دَم سادھ لیا۔ اُس نے اپنی انگیا کے اندر سے رومال نکالا اور اپنی آنکھیں پونچھنے لگی۔ نتیجتاً کچھ وقت کے لیے سکوت چھا گیا، جس میں شہر کے کاروباری علاقے کی بھنبھناہٹ در آئی۔ سورج کی شعاعوں نے فرش پر روپہلی پٹی بنا دی تھی۔ زہرہ رنگین چلمنوں میں سے ایک کو گرانے کے لیے اٹھی اور پھر بیٹھ کر اپنی خالہ زاد بہن کو اپنا کام کرتے دیکھتی رہی۔
کچھ دیر کے بعد ہی زہرہ گفتگو کے ٹوٹے دھاگے کو پکڑ سکی، ”یہ کام کب تک نبیڑ لو گی؟“ اور جی ہی جی میں یوں کہا: دُکھیا بڑی بی، ایسی باتیں دل پر کیوں لیتی ہو؟
صوفیہ بولی، ”اب ایسی جلدی بھی کیا ہے۔ شاید ایک آدھ ہفتے میں نبٹ جائے۔“ اس نے سامان ایک طرف کیا اور اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔ پہلے اس نے کاروباری اور رہائشی عمارتوں کو تکا اور پھر دور دراز نیلے پہاڑ کی جانب رُخ کر لیا تاکہ اپنی تھکی نگاہوں کو چین دے سکے۔
زہرہ نے اپنی پنکھیا اٹھا لی اور جھلنے لگی۔ دونوں پھر گم سم ہو گئیں۔
اس مختصر سے پُر سکون لمحے میں صوفیہ تصور ہی تصور میں اپنی جوانی کے ہنگامہ خیز دنوں کے گذرے واقعات کو سلسلہ وار چھوٹی چھوٹی تصاویر کی صورت میں دیکھنے لگی۔ تلخ اور شیریں پریشان کن احساسات اُس کے ذہن میں روانی سے گزرنے لگے، اوّل اوّل تو بالکل اُس چڑیا کے بچے کی طرح پھڑپھڑا کر، جو اڑان کے لیے پر تول رہا ہو، اور پھر تو انہوں نے بپھرے تاریک پانی کے سیلاب کی طرح اس کے سارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اُسے شیخ سے اپنا معاشقہ یاد آیا، جو اُس وقت ادھیڑ عمر تھا۔ ایک مرتبہ وہ مغرب کی نماز کے بعد کسی طرح پرانی مسجد سے چپ چاپ نکل آئے تھے اور پھر چند دنوں کے چوری چھپے چاؤ چونچلوں کے بعد شیخ نے کم سن زہرہ کا رشتہ مانگنے کا فیصلہ کر لیا۔ آخر کیوں؟ کیا اس کا سبب یہ تھا کہ زہرہ زیادہ قبول صورت اور ہری بھری تھی، جبکہ وہ یعنی صوفیہ۔۔۔ اُس کے گٹھیا مارے پیروں میں سوئیاں سی چبھنے لگیں اور وہ اپنے دُکھتے پیروں کو سہلانے کے لیے جھکی۔ یہ کام اُس نے بالکل بے نیازی سے کیا۔ دراصل اس نے خود اپنے دل میں اسے بے نیازی ہی گردانا __ اپنی زندگی، اپنی صحت، اپنے عشق اور اپنی شادی سے بے نیازی۔
اچانک اس کے اندر ہوا سے دہکائے ہوئے شعلے کی طرح حسد کی چنگاری اُڑی لیکن اس نے تحمل سے بظاہر اپنے پُر سکون وقار کو برقرار رکھ کر اُسے قابو میں کر لیا۔ ”مجھے حیرت ہوتی ہے زہرہ، کہ شیخ عبدالغفار اب تک تم سے کیوں چپکا ہوا ہے؟ تم ہو نِپُوتی، اور مسلمانوں کے رواج سے اُسے دوسری کر لینا چاہیے۔“
”وہ نہیں کر سکتے“ زہرہ نے اتنی سُرعت سے جواب داغا کہ بجلی کے کڑاکے کی طرح اس نے صوفیہ کو حواس باختہ کر دیا
”کیوں؟“
ُ”میرے اب بھی وہی چم خم ہیں۔ کبھی تم نے دیکھا ہوتا کہ وہ کیسی نظروں سے مجھے سراہتے ہیں، اور اگر حقیقت یوں نہ ہوتی۔۔۔“
”اچھا تو اب بھی وہ تم سے جی لُبھاتا ہے! اری زہرہ، اب ایسی بھولپن کی بات تو نہ کرو۔ دس برس تمہارے ساتھ یوں گزار کر کیا وہ اُوبھ نہیں جائے گا؟ بغیر کسی دوسری عورت کی تلاش کے رہ پائے گا، جو اُس کو۔۔۔؟“
”کیا بک رہی ہو صوفیہ!“
”میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ شیخ کو اپنی اولاد کا ارمان ہوگا اور وہ اس کو بھلا کس طرح مل سکے گی؟“
”خیر۔۔ اُس نے ابھی تک تو یہ بات نکالی نہیں۔ علاوہ اِس کے، اُس جیسی عمر کے آدمی کو مجھ جیسی بیوی پا کر چین سے بیٹھ جانا چاہیے۔ میں تو آخر شادی کے وقت بہت کم سن تھی اور دیکھنے میں اب بھی میں کوئی بُری نہیں ہوں۔“
پھر خاموشی۔۔ اَور خاموشی۔۔۔ دونوں خلیری بہنیں اپنے اپنے خیالات میں گم نظر آتی تھیں۔ بازار کی فٹ پاتھ پر اخبار فروش لونڈے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے۔ پڑوس کی دھوبنوں نے اپنی بے ہودہ غیبتیں کرتے ہوئے، صابن گُھلا مَیلا پانی کھڑکیوں سے باہر فرش پر پھینکا۔
”تم نے جو یہ کہا زہرہ کہ تم بہت چھوٹی تھیں، مگر اب تو نہیں ہو۔۔ کیا تم نے اِن دنوں اپنے چہرے پر نظر نہیں ڈالی؟ تمہارے دہانے اور آنکھوں کے آس پاس ہلکی ہلکی جُھرّیاں پڑ رہی ہیں۔“
”کیا واقعی؟“
”اچھا ہو اگر اندر جا کر خود کو آئینے میں دیکھ لو۔“
”ہوں گی، ہوں گی۔۔ پروا نہیں۔۔ میں نے تو جی بھرپور زندگی گزار لی۔“
تو گویا اب اُس کے چہرہ پر جھرّیاں پڑ گئی تھیں، اور نظر بھی آئیں تو سب کو چھوڑ کر صوفیہ کو، اور پھر اس نے جتا بھی دیا۔ اس حرکت نے زہرہ کے نازک مزاج کو کبیدہ کر دیا لیکن اُس نے دوسری عورت کی کہی بات کا اثر خود پر یوں ہی سا ظاہر کیا۔
بات کو مزید تلخ بنا دینے کے لیے صوفیہ نے مندرجہ ذیل اعلان داغ دیا:
”سوچو تو بھلا۔۔ تمہاری زندگی کتنی مختلف ہوتی جو کہیں تم نے احمد الجناح سے شادی کر لی ہوتی۔“ اور جی ہی جی میں اس نے یوں سوچا: اور میں شیخ کو پا سکتی اگر وہ تمہاری ہر وقت کی مسکراہٹ اور کھلکھلاہٹ پر سِڑی نہ ہو گیا ہوتا۔ دیکھو زہرہ، تم نے میرے منھ میں آیا ہوا تَر نوالہ اُچک لیا۔
”ارے وہ لفنگا! میری نظر میں تو وہ ایک جانگلو چاپلوس لینڈی کتا تھا۔“
”ہائے کیوں زہرہ! وہ تو جوان تھا، سجیلا تھا۔ بخدا وہ تو تم سے شادی کر لیتا اگر شیخ نے تمہارے ابّا کو بہت سارا چڑھاوا نہ پیش کیا ہوتا۔“ یہ کہتے ہوئے اس کے دل میں تاراج کر دینے والی خواہشات اُبل پڑیں
”میں مانتی ہوں مجھے احمد سے لگاؤ تھا، اور جیسا تم نے کہا وہ نوجوان بھی تھا، کڑیّل بھی تھا، پر بی! کوئی خالی خولی محبت اور جوانی پر گزارا نہیں کر سکتا۔۔ آخر کل کا آسرا سب سے پہلے چاہیے۔ اس میں شک نہیں، میرا اُس کے ساتھ جی بڑا لگتا تھا۔“
”یاد ہے کتنے جُگ بیت گئے؟“
”دنوں کی گنتی میں چھوڑ چکی۔“
”پتا نہیں اب وہ کہاں ہے۔۔ جب سے یہاں سے گیا ہے، اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔“
”پرانے وطن لوٹ گیا ہوگا۔۔ یا ہو سکتا ہے کہ سنگاپور کے عرب کوچوں میں کہیں مارا مارا پھر رہا ہو۔ کون جانے؟ بے چارہ! دل اُس کا ضرور ٹوٹ گیا ہوگا۔“
”یاد ہے، تب تم بہت بے چین رہتی تھیں؟“
”رہتی تو تھی، پر تم تو جانتی ہو جب ابّا اماں حیات تھے تو حالات کیا تھے۔۔ انہوں نے کہا: شیخ سے شادی کر لو اور آسودگی سے گزارو۔ یوں تمہارا مستقبل محفوظ ہے۔“
اپنی افتادِ طبع کے سبب صوفیہ اپنی پراسرار ناقابلِ اندازہ شخصیت کی بغل میں دغا کی چھری چھپائے رکھتی تھی، جس کو اُس نے اِس وقت اپنی خلیری بہن کو ایک اندرونی کچوکا لگانے کے لیے استعمال کیا۔ وہ بولی، ”کیوں جی، شادی سے پہلے کسی آدمی سے آشنائی کے بارے میں شیخ نے کبھی تم سے کچھ بھی نہیں پوچھا؟“
”احمق مت بنو۔۔ لے دے کے یہی ذکر تو رہ گیا تھا جیسے۔“
”اب ناراض مت ہو زہرہ۔ میں تو بس یوں ہی جاننا چاہ رہی تھی۔“
”یقین جانو کبھی نہیں پوچھا۔ مجھے اُس سے ایسی امید بھی نہیں۔ بھلا اُس کا اِس معاملے سے کیا واسطہ۔“
”اے بی کم از کم۔۔۔۔۔۔“
”تب میں اس کی بیوی کب تھی!“
”پر کم از کم تمہیں چاہیے تھا کہ اُسے بتا دیتیں۔۔ اپنے شوہر کو اندھیرے میں رکھنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ تو کلامِ پاک میں بھی لکھا ہے۔“ اور جی ہی جی میں اُس نے یوں سوچا: میں تو اُس کو بتا سکتی تھی کہ میری زندگی میں بس وہی ایک مرد آیا تھا، اور جو میں نے خود کو اس کے سپرد کر دیا تھا تو اس کی وجہ میرا یہ خیال تھا کہ۔۔۔۔۔
”بس اب ان بیتی باتوں کو جانے دو صوفیہ۔“
”اچھا تم کو دکھ ہوتا ہے تو جانے دو۔“
رات شیخ اور اس کی بیوی معمول سے کچھ پہلے ہی سونے کے لیے آرام گاہ میں چلے گئے لیکن وہ فوراً ہی سونے کے لیے نہیں لیٹے۔ شیخ تو حسبِ عادت نشہ پانی اور اپنے دقیانوسی گراموفون کے گانوں میں مگن ہو گیا جبکہ زہرہ ایک سبز سوفے پر بیٹھ کر خود کو اپنے شوہر کی دلچسپیوں میں شریک ظاہر کرنے لگی۔ دقیانوسی عربی گانوں سے اس کی طبیعت اُلجھتی تھی۔ دراصل وہ بیزار تھی اور اپنی جگہ بیٹھی پہلو بدلتی رہی اور دعا کرتی رہی کہ شیخ جلد ہی اپنے اس خنّاس سے فارغ ہو جائے اور سونے لیٹے، لیکن اس میں اتنی ہمّت نہیں تھی کہ وہ اپنے شوہر پر یہ بات ظاہر کر دے۔ بارے اسے نجات مل ہی گئی۔ اُس شخص نے اپنا عمامہ اتارا اور سونے لیٹ گیا۔ گھڑیال کی ٹک ٹک کے علاوہ اس لمحے مکمل خاموشی تھی۔
دوسرے کمرے میں صوفیہ سوفے پر بیٹھی کاڑھنے میں مصروف تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنے کام پر توجہ نہیں دے پا رہی۔ جماہی روکنے کے لیے اس نے ہاتھ اٹھایا۔ ایک آدھ بار اس نے کان کھڑے کیے تاکہ خفیف سے خفیف سرگوشی بھی، جو پاس کے کمرے میں ہو، سن سکے۔ چندے اُس نے ہنسی اور دھیمی سرگوشیاں سنیں اور تھوڑی ہی دیر بعد اپنی خلیری بہن پر دبے دبے قہقہوں کا دورہ پڑتے سنا۔
’احمقو!‘ بن بیاہی عورت نے سوچا، ’احمق مزا لوٹ رہے ہیں۔ آخر اس شیخ کو ہوش کیوں نہیں آتا؟‘
چند ہی دنوں میں اپنی خالہ زاد بہن کی اٹھتے بیٹھتے کی لگاتار اشارتوں سے تنگ آ کر زہرہ اپنی زندگی کے بارے میں متفکر رہنے لگی۔ ایک صبح ناشتے کی میز پر اس نے محسوس کیا کہ ماحول میں کھنچاؤ ہے، بالکل اُس تنے ہوئے تار کی مانند جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہو۔ ہر کوئی دوسرے سے نظریں چرا رہا تھا۔ ان کی گفتگو مختصر اور بے جان تھی۔ شیخ کے روزمرّہ کے چٹکلے بھی دونوں عورتوں پر اثر نہیں کر رہے تھے اور اس کی ساری خوش مذاقی گویا سامنے کی دیواروں سے سر پھوڑنے کے لیے تھی۔ شیخ نے ان کو ہنسانے کے لیے جو کچھ بھی کیا، پھُس ہو کر رہ گیا۔ شیخ نے فوراً اس عجیب تبدیلی کو بھانپ لیا، جس نے اسے پریشان کر دیا۔ اس کی کھلی بانچھیں سکڑ گئیں اور ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں اور اُس نے اپنے باریش دہانے تک اٹھی ہوئی کافی کی پیالی پھر میز پر رکھ دی اور اپنی بیوی سے پوچھا، ”کیا بات ہے میری ننّھی؟“
زہرہ کا سر بھاری ہو رہا تھا، جو ایک جھوٹا بہانہ تھا اور وہ یہ جانتی تھی۔ شیدائی اور شفیق شیخ نے تاسّف کے اظہار میں اپنی زبان ٹٹخائی اور اپنا عمامہ پوش سر افسوس میں ہلایا، اور بیوی سے کہا کہ وہ فوراً جا کر لیٹ جائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اپنی جواہرات کی دکان جاتے ہوئے جیسے ہی راستے میں دوافروش کی دکان پڑے گی، وہ اس کی دوائی بھجوا دے گا۔
”اور صوفیہ۔۔“ شیخ نے تنبیہ کی، ”خیال رہے، جیسے ہی دوا پہنچے، تمہاری بہن دوا کھا لے۔“
صوفیہ نے پھیکی مسکراہٹ سے اقرار میں سر ہلا دیا مگر بولی نہیں
شیخ کے جانے کے بعد دونوں خلیری بہنیں ایک دوسرے سے کٹی کٹی رہیں۔ ان دونوں میں کبھی جوتم پیزار کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس وقت دونوں کا جی نہ چاہا کہ خوش گپیوں سے دل بہلائیں۔ جب اسپرین کی ٹکیاں آ گئیں تو صوفیہ نے بغیر کچھ کہے اپنی خلیری بہن کو پکڑا دیں، جنہیں زہرہ نے چپ چاپ لے لیا، ڈرائنگ روم پار کیا، ٹکیاں ٹائلٹ میں پھینکیں اور بیڈروم میں گھس گئی۔
اپنے کمرے کی تنہائی میں زہرہ ان باتوں سے، جو ان دونوں کے درمیان ڈیوڑھی میں بیٹھ کر ہوتی رہی تھیں، اور اب اِس وقت کی اس انوکھی خاموشی سے اور زیادہ اُلجھنے لگی۔ جب اُس نے آئینے میں خود پر نظر ڈالی تو صاف ظاہر تھا کہ وہ اب اتنی جوان نہیں رہی، جتنی پہلے ہوا کرتی تھی۔ ہائے، ماہ و سال کے تاریک سائے اس کی سمت بڑھنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے منھ کے کناروں پر اور آنکھوں کے گرد باریک باریک جھرّیاں تھیں۔ یہ تو پھر بھی زمانے کی ڈالی ہوئی جسمانی جُھرّیاں تھیں مگر وہ جو درونِ دل تھیں؟ اس کی سوچ گہرائی کی سمت چل نکلی۔ اس کا دھیان اپنی جوانی کی طرف لوٹنے لگا اور اس نے اپنی بیتی زندگی کو یاد کیا۔
احمد الجناح بدّھو تھا۔ وہ چمپت کیوں ہو گیا؟ بڑا ٹوٹ کر محبت کرنے والا تھا وہ۔۔ پھر اسے دوسرا خیال آیا کہ آیا وہ اس کمینے سے اپنے مراسم کو ہمیشہ کے لیے پوشیدہ رکھ سکتی تھی؟ جو وہ اپنے شوہر کو بتا دے تو کیا ہوگا؟ آخر شیخ نے اسے بہت آسائشیں دی تھیں، کیا اس کا حق نہیں کہ اُسے معلوم ہو؟ بالفرض اگر اس کی خالہ زاد بہن اس کی زندگی برباد کر دینے کے لیے شیخ کو بتا دے۔۔۔ لیکن نہیں، صوفیہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گی۔ آخرکار اس کا اثر معاشی طور پر اُس کی زندگی پر بھی پڑے گا۔
جوں جوں دن گزرتے گئے، زہرہ کی زندگی نے ایک نیا پریشان کن ڈھب اختیار کیا۔ اس نے صوفیہ کے ساتھ ڈیوڑھی میں بیٹھنا چھوڑ دیا، مبادا وہی ذکر پھر نکل آئے۔ اپنے کمرے میں ہوتی تو اکثر وہ آئینہ دیکھا کرتی اور اپنے چہرے کی معمولی سی تبدیلیوں کو دیکھ کر حیرت کرتی۔ وہ جانتی تھی کہ ہلکی جُھرّیاں دن بدن زیادہ گہری ہوتی جائیں گی۔ بہرحال، وہ سب اس کے لیے اتنی تکلیف دہ نہیں تھیں، جتنی زندگی کی دَین اندرونی گہری سیاہ جُھرّیاں، جن کا تصوّر ہی اس کے اندر ایسی سرسراہٹ پیدا کر دیتا جو ساحل سے ٹکرانے والی موجوں کی طرح بڑھتی چلی جاتی اور اس کے پورے جسم پر چھا جاتی۔ وہ رہ رہ کر دل میں سوچتی کہ اُس کی ان اندرونی جھرّیوں پر دنیا کی نظر نہیں پڑنی چاہیے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ ہی اپنی قبر میں لے جائے گی۔
کمرے کے اُس طرف صوفیہ بھی ان ہی کے بارے میں سوچ رہی تھی اور بے کل ہو رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ زندگی کی ان اندرونی تاریک جھرّیوں کو مٹاتے مٹاتے تو پوری عمر بیت جائے گی۔ یہ اس کی سادگی بلکہ حماقت ہی تھی کہ اُس نے اتنا نازک موضوع اپنی خلیری بہن کے سامنے چھیڑا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ خود بھی عیب سے پاک اور ملامت سے مبرّا نہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میاں بیوی نے اپنے راز و نیاز میں کبھی اُس کا ذکر ہی نہ کیا ہو؟ کم از کم اُن کے کسی عمل نے تو ایسا ظاہر نہیں کیا تھا کہ زہرہ کو گھر کے مالک اور صوفیہ کے گزرے تعلق کا مکمل علم ہو۔۔ یا شاید وہ بھلی عورت یہ سوچ کر کہ اُس کا کوئی سہارا نہیں، اُس کا لحاظ اور مروّت کرتی ہو۔ یا شاید وہ شروع سے ہی سب کچھ جانتی ہو۔۔۔ یہ زہرہ بعض وقت ایک دم بجھ کیوں جاتی تھی؟ لاتعلّق کیوں ہو جاتی تھی؟ یہ سب خیالات گڈمڈ ہونے کے باعث الجھے ہوے خاردار تاروں کی مانند اُس کی کنپٹیوں کو پھاڑ کر نکل آنے کو ہوتے اور انجام کار وہ خود رحمی پر اُتر آتی۔ اسی باعث اُن کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو گئی تھی، جس کا سبب خود بوڑھے شیخ کے سوا کوئی نہ تھا۔ صوفیہ نے تلخی سے سوچا کہ جب تک شیخ ختم نہیں ہو جاتا، اُس کی یہ خفیہ بے تعلّقی جاری رہے گی اور اُن کی روزمرّہ زندگی کو اندر ہی اندر گُھن کی طرح چاٹتی رہے گی۔
مگر ایک ہفتے بعد ہی زہرہ کو غیر متوقع حیرت سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک سہانی صبح جب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو اُس نے محسوس کیا کہ ان کی وہ دل لگی اور چہلیں، جو اُنہوں نے اُس دن کی کشیدگی کے بعد دوبارہ شروع کر دی تھیں، یکلخت معدوم ہو گئی تھیں۔ یوں لگا جیسے وہ نازک انسانی رشتہ جس سے اُن دونوں کی زندگیاں منسلک تھیں، حالات کے پنجوں نے کھسوٹ لیا ہو، کچھ اس طرح کہ اب جو تھوڑا بہت تعلّق باقی رہ گیا تو اُس کا تسمہ اتنا کمزور تھا کہ ایک جھٹکا بھی برداشت نہ کر سکتا۔ دونوں خالہ زاد بہنیں یہ جانتی تھیں کہ بے کیف زندگی کی تلخی ان کے رگ و پے میں اترتی جا رہی ہے، جس سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ زہرہ اس بات کی زیادہ قائل ہو گئی، خاص طور پر جب اُس نے اپنی خلیری بہن کو کاڑھنے سے ہاتھ روک کر گم سم بیٹھے دیکھا۔ وہ ایک ایسے شہید کی طرح، جس نے ذلّت اور موت کو قبول کر لیا ہو، سر نیہوڑائے بیٹھی تھی۔ یہ دیکھ کر اس وقت زہرہ کا دل بہت دُکھا۔ وہ صوفیہ سے پوچھنے ہی والی تھی کہ آخر اُسے کیا غم ہے، لیکن اُس کے کم چکنے چہرہ پر بہتے ہوئے آنسوؤں نے اسے پوچھنے سے روک دیا۔ چناں چہ زہرہ ایک ایسے پُر سکون وقار کے ساتھ، جو گھر کی مالکن کو زیب دیتا ہے، چپ چاپ ڈیوڑھی میں چلی گئی، جہاں دھوپ نے فرش پر روپہلی پٹی بنا دی تھی۔ اُس نے ایک رنگین چلمن بہت احتیاط اور نزاکت سے یوں گرائی، جیسے اس کی ذرا سی درشت حرکت اُس کی زندگی تباہ کر دیتی، اور جھولنے والی کرسی میں بیٹھ گئی۔ اُس نے سوچا، یوں وہ دونوں کی زندگیوں کی اُن اندرونی تاریک جھرّیوں کے بارے میں ایک معقول تناظر میں غور کر سکتی تھی اور پوری طرح جان سکتی تھی کہ انہوں نے اس کی خلیری بہن اور خود اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ آخر کیوں کیا۔