لاہور ہائی کورٹ نے فوج کو زرعی زمین الاٹ کرنے سے کیوں روکا؟

ویب ڈیسک

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کی نگران صوبائی حکومت کے اس نوٹیفکیشن کو عارضی طور پر معطل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں فوج کو کمرشل زرعی مقاصد کے لیے زمین دینے کی اجازت دی گئی تھی

لاہور ہائی کورٹ نے نگراں پنجاب حکومت کو صوبے کے تین اضلاع بھکر، خوشاب اور ساہیوال میں تقریباً 45,267 ایکڑ اراضی ’’کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ‘‘ کے لیے پاک فوج کے حوالے کرنے سے روک دیا ہے۔ جی ایچ کیو لینڈ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے 10 مارچ کو جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں 45 ہزار 267 ایکڑ زرعی اراضی پاک فوج کے حوالے کر دی گئی ہے

جی ایچ کیو لینڈ ڈائریکٹوریٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب، بورڈ آف ریونیو اور زراعت، جنگلات، لائیو سٹاک اور آبپاشی کے محکموں کے سیکرٹریز کو خط لکھا کہ بھکر کی تحصیل کلور کوٹ اور منکیرہ میں 42,724 ایکڑ، قائد آباد اور خوشاب کی تحصیلوں میں 1,818 ایکڑ، ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی میں 725 ایکڑاور خوشاب کی تحصیلوں میں 42,724 ایکڑ اراضی فوج کے حوالے کی جائے

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد حسین چھٹہ نے اس حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے دو روز قبل 29 مارچ کو زبانی حکم سے اس نوٹیفیکشن کو معطل کیا تھا

یہ فیصلہ 28 مارچ کو پبلک انٹرسٹ لا ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے احمد رفیع عالم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر جاری کیا گیا۔ عدالت نے مدعا علیہان کو 9 مئی کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے پر ان سے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے اٹھائے گئے نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جج نے اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹس بھجوائے

عدالت نے اپنے تحریری حکم میں کہا ہے ”درخواست گزار نے عدالت میں دلائل دیے کہ گورنر پنجاب کو اس وقت سرکاری زمین کو لیز پر دینے کا قانونی حق نہیں کیونکہ صوبے میں نگراں حکومت قائم ہے۔ گورنر پنجاب نے حکومت کی منظوری کے بعد فوج کو کمرشل مقاصد کے لیے زرعی زمین لیز پر دینے کا نوٹفیکیشن جاری کیا“

اپنے دلائل میں درخواست گزار نے مزید کہا ”نگران حکومت کا کام صرف اور صرف روز مرہ کے امور کو نمٹانا۔ حکومتی پالیسی بنانا یا ایسے فیصلے دینا، جن کا براہ راست تعلق پالیسی سازی سے ہو یہ نگران حکومت کا کام نہیں ہے۔ لیز پر زمین دینے کے نوٹفیکیشن کے مطابق فوج کو یہ لیز تیس سال کے لیے دی گئی ہے، جبکہ وہ حکومت جو صرف تین مہینے کے لیے آئی ہے، وہ کیسے یہ فیصلہ کر سکتی ہے“

فیصلے میں درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کی مزید تفصیل بھی لکھی گئی ہے۔ وکیل کا موقف ہے کہ فوج کے ڈائریکٹر جنرل برائے اسٹریٹیجک پراجیکٹس نے سرکاری زمین لینے کے لیے پنجاب حکومت کو خط لکھا تھا، جس میں کاروباری مقاصد کے لیے زمین مانگی گئی تھی۔ جو کہ فوج کے آئینی کردار سے باہر کا عمل ہے

درخواست گزار کے وکیل نے کہا ”فوج کی آئینی ذمہ داری ملک کے اندر باہر سکیورٹی کو بحال رکھنا ہے نہ کہ کاروباری مقاصد کے لیے زراعت کرنا۔ جبکہ پنجاب حکومت کو سرکاری زمین ان افراد کو دینی چاہیے جو وسائل سے عاری ہیں جس سے پنجاب کے عوام کے حقوق مجروح ہوئے ہیں“

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے ”درخواست کے وکیل کے تمام نقاط توجہ طلب ہیں لہٰذا فریقین کو اس بابت نوٹس کیا جاتا ہے کہ پیٹیشن کے نقطہ وار تحریری جواب 9 مئی تک عدالت میں جمع کروائے جائے۔ چونکہ درخواست گزار نے زمین لیز پر دیے جانے کے نوٹیفکیشن کو عدالتی حکم آںے تک معطل کرنے کی بھی استدعا کی ہے لہٰذا اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس کو بھی نوٹس کیا جاتا ہے“

بعد ازاں عدالت نے اگلے پیراگراف میں فوج کے زمین لیز پر دیے جانے کے نوٹیفکیشن کو کیس آئندہ سماعت تک کے لیے معطل کر دیا۔ اب اس کیس کی مزید سماعت 9 مئی کو ہوگی۔
خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے کے مختلف اضلاع میں ہزاروں ایکڑ اراضی فوج کو کاروباری زرعی مقاصد کے لیے دی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close